ذوالفقار علی بھٹو اور میں
میں نے بھٹو کا نام پینسٹھ میں سنا… میں سات سال کا تھا…
وجہ غالباً سکیورٹی کونسل میں اسکی دھواں دار تقریر تھی…
میرے گھر والے بھٹو کے دیوانے ہو گئے… اور میں بھی…
ہمیں لگا کہ ایک بھٹو ہی ہمارے ابدی دشمن کے چھکے چھڑا سکتا ہے…
پھر تاشقند ہوا… بھٹو حکومت سے نکل گیا…
اور ہم بھٹو کے ساتھ تاشقند کے ناقد بن گئے…
ہمیں لگا کہ جنگ میں ہماری فتح کو بیچ دیا گیا ہے…
پھر بھٹو نے پی پی بنائی… ہمارے شہر میں بھٹو کا جلسہ ہوا…
میں ضد کر کے اپنے والد کے ساتھ وہاں گیا… اس وقت میں گیارہ سال کا تھا… جلسے میں بھٹو نے جم کر مخالفین کا مذاق اڑایا… اصغر خان کو آلو کہا… مجھے لگا یہ بہت پائے کی باتیں ہیں…
ستر کے الیکشن میں سب نے پی پی کو ووٹ ڈالے…
میرا ووٹ بنا نہیں تھا کیونکہ میری عمر بارہ سال تھی…
لیکن الیکشن کے نتائج کی خوشی مجھے بھی بہت ہوئی…
پھر الیکشن کے نتیجے میں ڈھاکہ ہوا…
لیکن ہمارا غم جلد ہی خوشی میں بدل گیا جب بھٹو ہمارا صدر بن گیا…
بھٹو کے اکثر ساتھی عام قسم کے لوگ تھے…
بھٹو نے ساڑھے پانچ سال حکومت کی…
میں اگرچہ کم عمر تھا لیکن سب دیکھ رہا تھا…
بھٹو نے آتے ہی تقریر میں کہا لوٹا ہوا پیسہ واپس لاؤں گا… میں خوش ہوا…
کہا میں اپنے کزن کو عہدہ دونگا… میں حیران ہوا…
بھٹو کے آتے ہی سندھ میں لسانی فسادات ہوئے… میں پریشان ہوا…
ادارے قومیائے گئے میں خوش ہوا…
اشیا کی قیمتیں تیزی سے بڑھیں میں پریشان ہوا…
سٹوڈنٹس کا کرایہ دس پیسے کیا… میں خوش ہوا…
بلوچستان پر فوج کشی ہوئی… میں پریشان ہوا…
اسلامی سربراہ کانفرنس ہوئی میں خوش ہوا…
لاہور سٹیڈیم کا نام قذافی سٹیڈیم ہو گیا… عجیب لگا…
بھٹو نے پرانے ساتھیوں کو پکڑنا شروع کیا میں پریشان ہوا…
آئین بنا میں خوش ہوا…
مرزیوں پر بلوے ہوئے… آئین میں ترمیم ہوئی… میں پریشان ہوا…
زمین کی اصلاحات ہوئیں میں خوش ہوا…
اصلاحات سے کوئی فرق نہیں پڑا میں پریشان ہوا…
سرداری نطام کے خاتمے کا اعلان ہوا… میں خوش ہوا…
سردار سردار ہی رہے… میں پریشان ہوا…
کھر گیا کھر آیا ایک تماشہ لگا رہا…
کچھ چیزیں رفتہ رفتہ بازار سے غائب ہو گئیں… چینی اور گھی راشن میں ملنے لگے… ایک بار دو کلو چینی کے لئے مجھے لاہور سے جہلم جانا پڑا…
اور پھر ستتر آ گیا…
اب بھٹو کے اکثر ساتھی ایوب والے وڈیرے تھے…
میں اب یونیورسٹی میں تھا…
ایک دن یونیورسٹی کے باہر پی پی کا جلسہ دیکھا…
تمبو سے باہر وہاں ایک مزدور کی پٹائی دیکھی اور میرا پیمانہ لبریز ہو گیا…
میں بھٹو کا مخالف ہو گیا…
گاؤں جا کر اپنی حد تک لوگوں کو بھٹو کو ووٹ نہ دینے کی رغبت دلائی… لیکن مجھ سے میرے گھر والے بھی نہیں مانے…
جبکہ میرا اپنا ووٹ عمر کم ہونے کے سبب بنا ہی نہیں تھا…
خیر بھٹو جیت گیا…
پھر بھٹو کے خلاف بلوے ہوئے…
میں دل ہی دل میں بھٹو کو فارغ دیکھنا چاہتا تھا…
ضیا نے بھٹو کو ہٹایا… اور الیکشن کا وعدہ کیا…
میں خوش ہوا…
لیکن جلد ہی ضیا وعدے سے مکر گیا…
میری ہمدردیاں پھر بھٹو کے ساتھ ہو گئیں…
جب رِہا ہو کر بھٹو واپس لاہور آیا تو میں پیدل لاہور ائیرپورٹ کی طرف رواں دواں ہوا…
بھٹو کی گاڑی آتی ہوئی دیکھی تو پیچھے بھاگا…
گاڑی شادمان میں صادق قریشی کے بنگلے میں پہنچی…
گیٹ بند ہو گیا… میں ہجوم کے ساتھ دیوار پھلانگ کر داخل ہو گیا…
ہجوم کی فرمائش پر بھٹو نے بالکونی میں آ کر تقریر کی…
پانچ گز کے فاصلے سے بھٹو کی تقریر سنی…
وہ میرا اور بھٹو کا کم ترین فاصلہ تھا…
بھٹو نے وہ ساری تقریر امریکی سازش کو لیکر کی… بات کچھ زیادہ میری سمجھ میں نہیں آئی…
پھر انیاسی میں بھٹو کو پھانسی دے دی گئی…
ہمارے گھر خواتین نے ماتم کیا اور مرد روئے… میں بھی رویا…
پھانسی کے بعد مجھے کئی سال خواب آتے رہے…
جیسے کہ بھٹو واپس آ گیا ہو… لیکن خواب تو خواب ہی ہوتے ہیں…
پھر بے نظیر آئی اور ترانوے کے الیکشن تک اسکی حمایت کی…
ستانوے میں تھک ہار کر نواز کو ووٹ ڈالا…
اب میں کسی کا حامی نہیں ہوں…
کیونکہ مجھے لگتا ہے میں صرف استعمال ہوتا آرہا ہوں…
بھٹو نے شاید کہا تھا کہ ایٹم بم بنائیں گے چاہے گھاس کھانی پڑے…
اس نے ہزار سال لڑنے کا بھی کہا تھا…
دور اندیش تھا… ہم گھاس کھا رہے ہیں… اور لڑائی بھی جاری ہے…
یہ ہے میری بھٹو سے وابستگی کی کہانی…
اگر سمجھ نہ آئے تو معافی… میں شاعر ہوں نثر نگاری میرا شعبہ نہیں…
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“