ذوالفقار علی بھٹو اور بھگت سنگھ، تاریخ کی کڑیاں
پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست اور سزائے موت دونوں ہی متنازع رہے ہیں۔ اس لیے کہ انہوں نے جس سیاست کا پرچم بلند کیا، اس نے یہاں کے صدیوں پرانے نظام کو چیلنج کردیا تھا۔ جب وہ ایوب حکومت میں طبقاتی تعلقات کی بنیاد پر سیاست اور حکومتی عہدوں پر فائز تھے تو اس وقت اُن کی سیاست پر کسی کو اعتراض نہیں تھا، لیکن جب انہوں نے اپنے طبقے سے بغاوت کرکے عوامی طبقات کے ساتھ خود کو منسلک کرلیا تو وہ متنازع قرار دے دئیے گئے۔ یہی اُن کا جرم تھا، اپنے طبقے سے بغاوت اور پاکستان کے حقیقی پیداواری طبقات سے اتحاد۔ اسی بنیاد پر اُن پر کفر کے فتوے صادر ہوئے اور امریکی سامراج نے اُن کو تیسری دنیا کے لیے عبرت ناک مثال بنانے کی دھمکی بھی دی اور اس عبرت کے لیے اُن کے خلاف دورانِ مقدمہ جس مولوی مشتاق نے خصوصی کٹہرا بھی بنوایا تاکہ امریکی وزیرخارجہ کی طرف سے دی گئی دھمکی کی مکمل تعمیل کی جا سکے اور انہوں نے اپنے فیصلے میں جہاں ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنائی، وہاں ان کو فیصلے کے مطابق نام کا مسلمان قرار دیا گیا۔ نواب محمد احمد خان کے قتل کے حوالے سے ایک نکتہ بڑا اہم ہے جو آج تک کہیںبھی اٹھایا نہیں گیا۔ احمد رضا قصوری کا والد نواب محمد احمد خان 1974ء میں شادمان چوک میں قتل ہوا۔ دلچسپ اور غورطلب بات ہے کہ قاتل نے گاڑی میں بیٹھے صرف ایک ہی فرد کو نشانہ کیوں بنایا، باقی لوگ کیسے بچ گئے۔ یہ ایک معمہ ہے۔ اس معمے کی ایک تعریف راقم نے چند سال پہلے اس وقت کی تھی جب ڈاکٹر بابر اعوان نے سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمے کو دوبارہ کھولنے کی خاطر قانونی چارہ جوئی کی تھی۔ نواب محمد احمد خان، انگریز دور میں آنریری مجسٹریٹ تھا۔ یہ جگہ جو اب شاہ جمال چوک ہے، اس وقت جیل کے اندر تھی، یہاں اس واقعہ سے چالیس سال قبل انگریز دور میں نواب محمد احمد خان نے بحیثیت مجسٹریٹ آزادی کے متوالے بھگت سنگھ کی سزائے موت کی آفیشل تصدیق کی تھی، جہاں وہ چالیس سال بعد قتل ہوگیا۔ ایک تھیوری جو میرے مطالعے کے بعد ابھری، کیا کسی سکھ Sniperنے بھگت سنگھ کے قتل کا بدلہ تو نہیں لیا۔ اور اسی لیے گاڑی میں بیٹھا صرف ایک ہی شخص قتل کیا گیا۔ 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے اور آئی جی پنجاب رائو رشید تھے۔ آئی جی اور وزیراعظم کی اجازت سے احمد رضا قصوری کی طرف سے اپنے باپ کے قتل کی ایف آئی آر No. 402 کاٹی گئی۔ پاکستان کے شفاف ترین ساکھ کے مالک جسٹس شفیع الرحمن کی عدالت میں اس ایف آئی آر کے مطابق قانونی کارروائی مکمل ہونے کے بعد اس قتل کے مقدمے کو خارج کردیا گیا۔
5جولائی 1977ء کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نئی ایف آئی آر کے تحت مقدمہ چلا۔ جسٹس شفیع الرحمن کے ہماری فیملی کے ساتھ تعلقات تھے۔ جب وہ جنرل ضیا کے دور میں پاکستان کے چیف جسٹس تھے تو انہوں نے میرے گھر بیٹھے مجھے مسٹر بھٹو کے مقدمہ قتل کے بارے میں رائے دیتے ہوئے کہا، ’’ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمۂ قتل سراسر قانون کے تقاضوں کے سراسر منافی چلا گیا ہے اور وہ کسی طرح بھی نواب محمد احمد خان کے قتل میں ملوث ثابت نہیں ہوتے۔‘‘ احمد رضا قصوری نے ا پنے باپ کے قتل کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایف آئی آر تو کٹوائی، مگراس کے بعد صلح بھی کرلی۔ آئیں ذرا اس قتل کے مقدمہ ایک مستند اور معلوماتی حقیقت سنیں۔
’’جب چار اور پانچ جولائی 1977 ء کی درمیانی شب پاکستانی فوج نے ملک میں مارشل لاء نافذ کیا تو مجھے بھی مسٹر بھٹو کے ساتھ گرفتار کرکے مارشل لاء ضابطوں کے تحت قید میں ڈال دیا۔ تقریباً گیارہ ماہ حراست یا نظربندی میں رکھا گیا۔ اس دوران بھٹو پر نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا اور بدنامِ زمانہ مسعود محمود سمیت دو وعدہ معاف گواہوں اور ایف ایس ایف کے چار دوسرے افسروں کے اعترافی بیانات کی روشنی میں لاہور ہائیکورٹ نے انہیں سزائے موت سنا دی تھی۔
یہ قتل اس وقت ہوا تھا، جب میں آئی جی پولیس پنجاب تھا۔ قید کے دوران فوجی حکام نے مجھ پر دبائو ڈالا کہ میں مقدمے کے سرکاری گواہ کے طور پر پیش ہو جائوں اور استغاثہ کی تائید کروں۔ میں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کی بجائے میں نے مسٹر بھٹو سے کہا کہ میں استغاثہ کے دعوے کو غلط ثابت کرنے کے لیے ان کے دفاع میں گواہ کے طور پر پیش ہونے کو تیار ہوں۔ تاہم ایسا نہیں ہوا کیوںکہ انہوں نے مقدمے کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔
چوںکہ مجھے مسٹر بھٹو کو پھانسنے کے واسطے تیار کیے گئے جال کے لیے خطرہ تصور کیا جاتا تھا، اس لیے مجھے اس وقت تک قید رکھا گیا جب تک عدالت نے انہیں خطاوار قرار دے کر سزائے موت نہیں دے دی۔ آخر اپریل 1978ء میں مجھے رِہا کر دیا گیا۔ مسٹر بھٹو نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی، جس کے ساتھ میرا بیانِ حلفی منسلک تھا، جس نے استغاثے کے موقف کو تباہ کرکے رکھ دیا تھا۔
راولپنڈی میں سپریم کورٹ میں مسٹر بھٹو کی پٹیشن کی سماعت سے پہلے میں لاہور گیااور ایک دوست کے گھر ٹھہرا۔ وہاں ایک نوجوان مجھے ملنے آیا۔ وہ رانا افتخار کا چھوٹا بھائی تھا۔ رانا افتخار ایف ایس ایف کا ایک سب انسپکٹر تھا۔ وہ اس مقدمۂ قتل کا ایک ملزم تھا اور اس نے ہائی کورٹ میں اعترافی بیان دیا تھا جس کی بنیاد پر اسے بھی دو دیگر ملزمان کے ہمراہ سزائے موت سنائی گئی تھی۔ نوجوان نے مجھے بتایا کہ اس کا بوڑھا باپ بھی اس کے ساتھ آیا ہے اور گھر کے باہر کھڑا ہے۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کس مقصد سے آیا ہے تو اس نے کہا کہ ان لوگوں کے ساتھ بڑا دھوکا ہوا ہے اور وہ میری مدد لینے آیا ہے۔
اس نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اس کا بھائی ایف ایس ایف میں سب انسپکٹر تھا۔ مارشل لاء نافذ ہونے کے فوراً بعد اسے محمد احمد خان کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا، اس کے ساتھ ایف ایس ایف کے دیگر کئی افسروں کو بھی گرفتار کیا گیا تھا جن میں ڈائریکٹر جنرل اور ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل بھی شامل تھے۔ ایک دن اس کے بھائی اور دو دوسرے گرفتار سب انسپکٹروں کو مارشل لاء ہیڈکوارٹر لے جایا گیا، جہاں انہیں جنرل چشتی کے سامنے پیش کیا گیا، جو اس زمانے میں سی ایم ایل اے کا چیف آف سٹاف تھا۔ اس نے انہیں کہا کہ وہ پاکستان کے دشمن بھٹو کو پھانسی دینا چاہتے ہیں۔ ڈی جی ایف ایس ایف اور اس کا ڈپٹی پہلے ہی اعتراف کر چکے ہیں کہ انہوں نے مسٹر بھٹو کے احکامات کے تحت نواب محمد احمد خان کو قتل کروایا تھا اور انہیں معافی دے دی گئی ہے۔ اگر وہ بھی مسٹر بھٹو کو پھانسی چڑھانے میں فوجی حکام کی مدد کرے گا تو اس کی جان بھی بچ جائے گی۔اگر اس کا بھائی اور اس کے ساتھ دو دیگر گرفتار شدہ سب انسپکٹر بھی اعتراف کر لیں اور اس کہانی کی تائید کریں کہ انہوں نے مسٹر بھٹو کے حکم پر محمد احمد خان پر گولیاں چلائی تھیں تو انہیں معافی دے دی جائے گی یا معمولی سزائیں دی جائیں گی، جنہیں آخرِکار معاف کر دیا جائے گا۔ اگر وہ ان کے احکامات پر عمل کریں گے تو انہیں ایف ایس ایف ہی میں رہنے دیا جائے گا، ترقی اور اراضی دی جائے گی۔ اگر انہوں نے عمل نہیں کیا تو انہیں محمد احمد خان کے قتل کا ذمہ دار قرار دے کر پھانسی پر چڑھا دیا جائے گا۔ مولانا طفیل محمد نے جو کہ اس کے بھائی کے ساتھی ملزم سب انسپکٹر رانا ارشد کا ہمسایہ تھا، ضمانت دی۔
چوںکہ یہ وعدہ پاکستانی فوج کا ایک جنرل کر رہا تھا اس لیے انہوں نے اس پر بھروسا کر لیا، اس کے علاوہ مولانا طفیل نے بھی ضمانت دی تھی، جو کہ جنرل ضیا کا ماموں مشہور تھا۔ ان کے خاندان کو امید تھی کہ مقدمے کے اختتام پر اس کے بھائی کو رِہا کر دیاجائے گا لیکن جب انہوں نے سنا کہ نہ صرف اسے رِہا نہیں کیا گیا بلکہ مسٹر بھٹو کے ساتھ سزائے موت سنا دی گئی ہے تو وہ دم بخود رہ گئے۔ وہ رونے اور گڑگڑانے لگا کہ میں اس کے بھائی کی جان بچانے کے لیے کچھ کروں۔مجھے اس بے چارے پر بڑا ترس آیا لیکن میں اس آخری مرحلے پر ان کے لیے کچھ بھی کرنے سے خود کو قاصر پا رہا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ وہ اگلے روز آئے۔
میں نے اپنے ایک د و وکیل دوستوں سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ اگر دھوکے کا شکار بننے والے تمام لوگ سپریم کورٹ میں ایک حلفیہ بیان جمع کروا دیں تو انہیں رہائی مل سکتی ہے۔
میں نے نوجوان کو یہی ہدایت کی۔ اس نے پوچھا کیا میں اسے کسی اچھے وکیل سے ملوا سکتاہوں؟ اس زمانے میں سپیشل برانچ کے افسر جیپ میں ہر وقت ہر جگہ میرا تعاقب کرتے رہتے تھے۔ میں ان سے بچ بچا کر رات کو دیر گئے اسے مشہور وکیل عابد حسن منٹو کے گھر لے گیا۔ وہ مقدمہ لینے پر راضی ہو گیا۔ اس نے اسے ایک سادہ پاور آف اٹارنی دیا اور کہا کہ وہ راولپنڈی جیل میں قید اپنے بھائی سے اس پر دستخط کروا لائے۔ جب وہ نوجوان جیل میں اپنے بھائی سے ملا، اس وقت تک مارشل لاء حکام کو سن گن مل چکی تھی۔ حکام بہت زیادہ چوکس تھے۔ انہوں نے نوجوان اور اس کے باپ کو پکڑ لیا اور انہیں زبانی کلامی ڈرایا بھی اور لالچ بھی دیا تاکہ وہ راہِ راست پر آ جائیں۔ جنرل چشتی نے پھر وعدہ کیا کہ وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا، لیکن سپریم کورٹ کا فیصلہ آ جانے کے بعد ہی ایسا ممکن ہے۔ وہ لالچ میں آ گئے۔ اس نوجوان کو ایف ایس ایف میں براہِ راست اے ایس آئی لگا دیا گیا اور اس کے باپ کا منہ بند کرنے کے لیے آدھا مربع اراضی دے دی گئی۔
جب اگلے دن میں مسٹر بھٹو کی پٹیشن کی سماعت سننے کے لیے گیا تو میں نے باپ اور بیٹے کو کمرئہ عدالت میں وکلائے استغاثہ اعجاز حسین بٹالوی اور ایس اے رحمن کے ساتھ بیٹھے دیکھا۔ میں سمجھ گیا کہ انہیں خرید لیا گیا ہے۔
وقفے کے دوران کسی نے آ کر مجھے بتایا کہ پولیس میری کار کی نگرانی کر رہی ہے۔ میں نے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ سماعت ملتوی ہونے کے بعد میں باہر نکلا تو دیکھا کہ وردی پوش پولیس والوں سے بھری ایک اور جیپ میری کار کے نزدیک موجود ہے۔ جب میں اپنے گھر جا رہا تھا تو اس جیپ نے آگے آ کر میرا راستہ روک لیا۔ ایک افسر جیپ سے اترا اور مجھے سلیوٹ کرنے کے بعد ایک کاغذنکالا۔ وہ تین ماہ کے لیے میری گرفتاری اور اٹک جیل میں قید رکھنے کا حکم نامہ تھا۔یہ امر واضح تھا کہ وہ مجھے دور رکھنا چاہتے تھے تاکہ میں ان کے منصوبوں کو ناکام نہ بنا سکوں۔‘‘ (از ’’جو میں نے دیکھا‘‘ مصنف، رائو رشید۔ صفحہ 9-12)
بھگت سنگھ اور ذوالفقار علی بھٹو کا قتل، اگر تاریخ کی اِن کڑیوں کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو حیران کن حقائق بے نقاب ہوتے ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نہ تو تیسری دنیا کے لیے عبرت ناک مثال بنے اور نہ ہی اُن کو لوگوں کے دلوں سے مٹایا جاسکا۔ اُن کا وجود اُن کے نظریات اور سولی پر جھول جانے والے بہادر رہنما کی کی طرح ہماری تاریخ کا جھومر ہے۔