تو بولیں جب سے نیچے آمریئت کے نمائندے کو ووٹ ڈلے ہیں بیگم بھٹو نے خود سارے چراغ گُل کر دیئے ہیں۔ فراز صاحب نے فون رکھا اور فیض صاحب کا نمبر گھمایا، فون خود فیض نے اٹھایا، پہچان کر بولے،
"اچھا کیا تُم نے رابطہ کر لیا، جالب دو گھنٹے سے میرے سرہانے بیٹھا دھاڑیں مار کر رو رہا ہے۔ پانی لیتا ہے نہ وقفہ، تُم جلدی سے آ جاو۔"
فراز نائٹ سُوٹ ہی میں نکل پڑے۔ جالب کو رُلانے کی حسرت لیئے کئی آمر دنیا سے گئے وہ دنیا میں نہ رویا مگر۔۔۔۔ فراز کو اپنی سانس دبتی محسوس ہوئی۔ فیض کی چوکھٹ پر جون صاحب سر میں خاک ڈالے بیٹھے تھے، فراز صاحب کو آتا دیکھا تو لہرا کر اُٹھے، دھاڑ سے سینے لگے اور ہاڑے لینے لگے۔ احمد فراز سے نہ رہا گیا، پوچھ لیا
"بھئی آخر ایسی کیا قیامت ٹوٹ پڑی کہ کُوچہ شہیداں سے بلی ماراں تلک ہر ذی شعور روتا ہے؟"
بِلکتے سسکتے جون کو تقریباً گھِسڑتے ہوئے ساتھ لیکر اندر پہنچے تو جالب صاحب تان پر تھے۔۔
"دیپ۔۔۔
دیپ جسکا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لیکر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت۔۔۔"
مصلحت کا زبان پر آنا تھا کہ جالب صاحب کا ضبط ٹُوٹ گیا۔۔ ہچکی بندھ گئی، فیض صاحب نے سر پیٹ لیا اور جون کُرلاتا ہوا دوھرا ہو گیا۔۔
کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔۔ فراز صاحب نے بایاں ہاتھ کمر پر رکھا اور ماتمی دستے کے ہر پُرسہ دار کو باری باری دیکھ رہے تھے کہ موبائل کی گھنٹی بج اٹھی، نکالا تو شبلی کا فون تھا۔۔ فون اُٹھایا تو اس سے پہلے کہ شبلی کی سلام پوری ہوتی فراز صاحب پھٹ پڑا۔۔
"کیا ہوا؟ خدانخواستہ پاکستان دنیا کے نقشے سے مٹ تو نہیں گیا؟"
شبلی سٹپٹایا، اور موضوع بدلتے ہوئے بولا۔۔
"نہیں ابو جی، وہ۔۔ میں نے تو بس یہ بتانے کیلئے فون کیا تھا کہ قمر باجوہ کی ایکسٹینشن بھاری اکثرئیت سے پارلیمنٹ میں منظور ہو گئی ہے۔۔"
فراز صاحب جھِلائے، "وہ بات بتاو جو نہیں بتا رہے۔۔ تمھارے یہاں جب کوئی سُرخا مرتا ہے تو یہاں بلی ماراں اور کُوچہ شہیداں میں چراغاں ہوتا ہے کہ ایک اور ساتھی مل گیا۔۔ ایسا کیا ہو گیا کہ وہاں کُوچہ شہیداں اندھیرے میں ڈُوبا ہے اور یہاں جالب اور جون بارِ دیگر جاں بہ لب ہیں؟"
شبلی دو ساعت خاموش ہوا تو فراز صاحب بھڑک گئے۔
ایک ہاتھ کا لقمہ بنا کر پرسہ داروں سے تھوڑے صبر کی گزارش کی اور بولے۔۔
"میاں جواب دینے اِدھر کو تو نہیں نکل لیئے؟"
شبلی شرمندہ لہجے میں بولا۔۔
"وہ.. پیپلز پارٹی نے بھی ہمارے بل کو ووٹ دیا ہے"
شبلی کا کہنا تھا کہ جالب صاحب نے رُندھی ہوئی مگر مستحکم آواز میں مصرع اُٹھایا۔۔
"وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صُبحِ بے نُور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا"
احمد فراز نے فون کاٹ دیا اور وھیں مِٹی پر مٹی ہو گئے۔۔ جون صاحب سسکتے ہوئے اپنے ناخنوں سے زمین کھُرچ رہے تھے۔۔ کئی لمحے سکوت کے بعد فیض صاحب نے پوچھا۔۔
"کُوچے والوں کی سُناو؟"
فراز صاحب جون کی کُھرچی ہوئی مٹی کی ڈھیری کو مٹاتے ہوئے بولے۔۔
"بھٹو صاحب نے بیگم بچوں سمیت خود کو کمرہ خاص میں قید کر لیا ہے، کوئی کچھ نہیں جانتا۔۔"
فیض صاحب فوراً اُٹھ کھڑے ہوئے