خلافِ معمول بھٹو صاحب کے گھر کی روشنیاں بُجھی دیکھ کر احمد فراز کو اپنی کھڑکی پر کھڑے کھڑے دھڑکا لگا۔ فون ملایا تو فون آپا سردار بیگم نے اُٹھایا، بولیں بھٹو صاحب، بیگم نصرت بھٹو، بی بی صاحبہ، میرو اور شاہنواز صبح سے کمرہ خاص میں بیٹھے ہیں اور کسی کو اندر جانے اجازت نہیں ہے۔ فراز نے پوچھا۔۔
"تو یہ بتیاں کیوں بند ہیں کُوچہ شہیداں کی؟(عالمِ برزخ میں بھٹو صاحب کے گھر کا نام)",
تو بولیں جب سے نیچے آمریئت کے نمائندے کو ووٹ ڈلے ہیں بیگم بھٹو نے خود سارے چراغ گُل کر دیئے ہیں۔ فراز صاحب نے فون رکھا اور فیض صاحب کا نمبر گھمایا، فون خود فیض نے اٹھایا، پہچان کر بولے،
"اچھا کیا تُم نے رابطہ کر لیا، جالب دو گھنٹے سے میرے سرہانے بیٹھا دھاڑیں مار کر رو رہا ہے۔ پانی لیتا ہے نہ وقفہ، تُم جلدی سے آ جاو۔"
فراز نائٹ سُوٹ ہی میں نکل پڑے۔ جالب کو رُلانے کی حسرت لیئے کئی آمر دنیا سے گئے وہ دنیا میں نہ رویا مگر۔۔۔۔ فراز کو اپنی سانس دبتی محسوس ہوئی۔ فیض کی چوکھٹ پر جون صاحب سر میں خاک ڈالے بیٹھے تھے، فراز صاحب کو آتا دیکھا تو لہرا کر اُٹھے، دھاڑ سے سینے لگے اور ہاڑے لینے لگے۔ احمد فراز سے نہ رہا گیا، پوچھ لیا
"بھئی آخر ایسی کیا قیامت ٹوٹ پڑی کہ کُوچہ شہیداں سے بلی ماراں تلک ہر ذی شعور روتا ہے؟"
بِلکتے سسکتے جون کو تقریباً گھِسڑتے ہوئے ساتھ لیکر اندر پہنچے تو جالب صاحب تان پر تھے۔۔
"دیپ۔۔۔
دیپ جسکا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لیکر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت۔۔۔"
مصلحت کا زبان پر آنا تھا کہ جالب صاحب کا ضبط ٹُوٹ گیا۔۔ ہچکی بندھ گئی، فیض صاحب نے سر پیٹ لیا اور جون کُرلاتا ہوا دوھرا ہو گیا۔۔
کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔۔ فراز صاحب نے بایاں ہاتھ کمر پر رکھا اور ماتمی دستے کے ہر پُرسہ دار کو باری باری دیکھ رہے تھے کہ موبائل کی گھنٹی بج اٹھی، نکالا تو شبلی کا فون تھا۔۔ فون اُٹھایا تو اس سے پہلے کہ شبلی کی سلام پوری ہوتی فراز صاحب پھٹ پڑا۔۔
"کیا ہوا؟ خدانخواستہ پاکستان دنیا کے نقشے سے مٹ تو نہیں گیا؟"
شبلی سٹپٹایا، اور موضوع بدلتے ہوئے بولا۔۔
"نہیں ابو جی، وہ۔۔ میں نے تو بس یہ بتانے کیلئے فون کیا تھا کہ قمر باجوہ کی ایکسٹینشن بھاری اکثرئیت سے پارلیمنٹ میں منظور ہو گئی ہے۔۔"
فراز صاحب جھِلائے، "وہ بات بتاو جو نہیں بتا رہے۔۔ تمھارے یہاں جب کوئی سُرخا مرتا ہے تو یہاں بلی ماراں اور کُوچہ شہیداں میں چراغاں ہوتا ہے کہ ایک اور ساتھی مل گیا۔۔ ایسا کیا ہو گیا کہ وہاں کُوچہ شہیداں اندھیرے میں ڈُوبا ہے اور یہاں جالب اور جون بارِ دیگر جاں بہ لب ہیں؟"
شبلی دو ساعت خاموش ہوا تو فراز صاحب بھڑک گئے۔
ایک ہاتھ کا لقمہ بنا کر پرسہ داروں سے تھوڑے صبر کی گزارش کی اور بولے۔۔
"میاں جواب دینے اِدھر کو تو نہیں نکل لیئے؟"
شبلی شرمندہ لہجے میں بولا۔۔
"وہ.. پیپلز پارٹی نے بھی ہمارے بل کو ووٹ دیا ہے"
شبلی کا کہنا تھا کہ جالب صاحب نے رُندھی ہوئی مگر مستحکم آواز میں مصرع اُٹھایا۔۔
"وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صُبحِ بے نُور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا"
احمد فراز نے فون کاٹ دیا اور وھیں مِٹی پر مٹی ہو گئے۔۔ جون صاحب سسکتے ہوئے اپنے ناخنوں سے زمین کھُرچ رہے تھے۔۔ کئی لمحے سکوت کے بعد فیض صاحب نے پوچھا۔۔
"کُوچے والوں کی سُناو؟"
فراز صاحب جون کی کُھرچی ہوئی مٹی کی ڈھیری کو مٹاتے ہوئے بولے۔۔
"بھٹو صاحب نے بیگم بچوں سمیت خود کو کمرہ خاص میں قید کر لیا ہے، کوئی کچھ نہیں جانتا۔۔"
فیض صاحب فوراً اُٹھ کھڑے ہوئے, جالب کا ہاتھ تھاما اور بولے چلو اُٹھو کُوچے چلیں۔۔ پھر فراز کو اشارے سے کہا، جون کو اٹھاو اور کوچہ شہیداں کیلئے نکل پڑے۔۔ گھر سے نکلتے ہی مانو جیسے عالمِ برزخ اُمنڈ آیا ہو۔۔ ہزاروں جیالے جیالیوں کی ٹولیاں سروں میں خاک ڈالے۔۔ مانو جیسے دس محرم ہو, کُوچہ شہیداں پُرسہ دینے کیلئے جاتے دکھائی دیئے۔۔
رات کا پچھلا پہر تھا مگر روشن پیشانیوں والے شہدا کیوجہ سے ہر طرف روشنی پھیلی تھی۔ اوپر دروازے پر آپا سردار بیگم اپنے شوھر فضل الہی شکیل اور بیٹی زاہدہ نسرین کے ہمراہ کھڑی تھیں۔ بارہ سیڑھیوں پر ظہور الہی قتل کیس اور کوٹ لکھپت ٹرائل کے لڑکے غصے سے بھرے بیٹھے تھے۔۔ اوپر کھڑوں کے سر جھُکے ہوئے اور نیچے کھڑے ہزاروں کے سر اوپر کیجانب اُٹھے کُوچے کے روزنوں پر نظریں گاڑے ہوئے تھے کہ سیڑھیوں پر رزاق جھرنا اُٹھ کھڑا ہوا اور کوچے کی کھڑکی کیطرف دیکھ کر نعرہ لگایا جیسے پُوچھ رہا ہو۔۔ "زندہ ہے بھُٹو؟"
اور پھر جیسے ہر نفس زندہ ہو گیا۔۔
چیخ و پُکار ایسی کہ الحفیظ اور "زندہ ہے" کا نعرانا جواب ایسا کہ الامان۔۔
جیسے جیسے جھرنا نعرے لگواتا گیا ویسے ویسے سیڑھیوں پر بیٹھے لڑکے اُٹھ کر اسکے ساتھ شامل ہوتے گئے۔ ناں نعرے رُکے نہ ہی کھڑکی کھُلی کہ آخر سے مجمع دو رویا ہوکر بند ہونا شروع ہوا جیسے کسی کو راستہ دیا جا رہا ہو۔ فیض، جالب، فراز اور جون ذوالجناح کیطرح جس جگہ سے گزرتے جاتے وہاں چیخ و پکار بڑھتی جاتی۔ عین سیڑھیوں پر آ کر سبھی رک گئے ماسوائے جالب جو چار سیڑھیاں چڑھے اور داہنا ہاتھ اُٹھا کر تان لگائی۔۔
"تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب چلے گا نہ ہم پر تمھارا فسوں
چارہ گر۔۔۔۔ (اور جالب کی دھاڑ نکل گئی)"
پر فوراً ہی سنبھل گئے۔۔
"چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں
تُم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر
میں نہی مانتا میں نہیں جانتا۔۔۔"
فراز صاحب نے جیب سے ڈن ہِل کی ڈبی نکالی، سگریٹ سلگایا اور پیکٹ واپس جیب میں ڈال رہے تھے کہ کوچے کا صدر دروازہ کھل گیا۔۔ پہلے بھٹو صاحب نظر آئے اور انکے پیچھے باقی لوگ۔ مرتضی نے بی بی صاحبہ کو تھام رکھا تھا جبکہ شاہنواز نے ماں کو سہارا دیا ہوا تھا۔
ادریس طوطی سے نہ رہا گیا, اس نے مجمعے کیطرف منہ کیا اور دوبارہ "زندہ ہے بھٹو زندہ ہے" کے فلک شگاف نعرے گونجنے لگے۔ بھٹو صاحب نے چپ کرانے کیلئے ہاتھ کھڑا کیا تو سبھی لوگ خاموش ہو گئے اور بھٹو صاحب یوں گویا ہوئے۔۔
"میں جانتا ہوں آپ سب کس کرب سے گزرے ہیں۔ میں، میرا خاندان اور میرے جیالے بھی اسی غم کا شکار ہیں۔ وہ صرف اتنا چاہتے تھے کہ بھٹو کا خون، بینظیر کا بیٹا تاریخ کے سامنے سرخرو رہے۔ عوام دشمنوں نے میرے ملک کے وسائل پر قبضہ گیری کیلئے کشت و خون کا جو گندہ کھیل رچایا ہے، وہ اس کے چھینٹے بلاول کے دامن پر نہیں دیکھنا چاہتے تھے لیکن انہیں مایوس کر دیا گیا۔ مجھے، آپکو مایوس کر دیا گیا لیکن یہ تو سیاسی محاذ ہے اور سیاسی محاذ پر دو قدم آگے بڑھنے کیلئے کئی دفعہ چار گام پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ میرا اصل دکھ ان لوگوں پر ہے جنکی جہالت نے میرے ورکر میرے جیالے کو مطعون کیا ہے۔ میں نہیں کہتا کہ انکی وفاداری مشکوک ہے یا پھر وہ بلاول کیخلاف کسی سازش کا شکار ہو کر اسکی اصل قوت، میرے نظریاتی جیالے کو اس سے دور کر رہے ہیں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میرے جیالے کی آنکھیں تو اسکی ہیں مگر ان میں خواب میرے ہیں۔۔ انکی زبانیں تو انکی ہیں مگر ان میں کاٹ میری ہے۔۔ غصہ تو انکا ہے پیچھے ذات میری ہے۔۔ یہ چپ نہیں کریں گے کیونکہ انکی تربیت میں نے کی ہے۔۔ یہ ہتھیار نہیں ڈالیں گے کیونکہ اگر یہ ہتھیار ڈالنے والوں میں سے ہوتے تو ان لاکھوں ابن الوقتوں کیساتھ اس وقت ہتھیار ڈال دیتے جب میرا نام لینے پر کوڑے پڑتے تھے۔ جب پنجاب کی جیلوں میں میری جیالیوں میری بیٹیوں کی شلواروں میں چوہے چھوڑ کر وردی والے قہقہے لگاتے تھے۔ یہ اس وقت بھاگ سکتے تھے جب انکے گھروں میں لڑکیوں کے سوا کوئی نہ بچا تھا۔ (آپا کیطرف اشارہ کرتے ہوئے) یہ اس وقت مجھے تیاگ سکتی تھیں جب آپا سردار بیگم کی شاھی قلعے میں اپینڈیکس پھٹ گئی اور بمشکل ہسپتال لیجا کر انکی جان بچی مگر اگلے ہی دن ایک کرنیل نے انکو واپس قلعے میں منگوا لیا اور عین آپریشن والی جگہ پر ڈنڈے برسا کر ان سے انکے بیٹے طلعت جعفری کا ٹھکانہ پوچھتا رہا حالانکہ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ عورت پچھلے دو سالوں سے شاھی قلعے میں قید ہے۔
مجھ سے بہتر یا میرے بیوی بچوں سے بڑھ کر انہیں کوئی نہیں جانتا ہے۔ ان میں ہزاروں لوگ تو ایسے ہیں جنہوں نے ہمارے بارے میں صرف سنا ہے، وہ ہم سے ملے نہیں، ہمیں دیکھا نہیں مگر میرے جیالوں میرے وفاداروں نے گھُٹی میں انہیں میرا تعارف کروایا ہے اور کوئی سمجھے کہ نہیں انہیں اس سے فرق نہیں پڑتا۔۔ یہ کھڑے رہیں گے کیونکہ انک رگوں میں وفاداروں کا لہو ہے۔ یہ جھکیں گے نہیں یہ حق گوئی سے باز نہیں آئیں گے کوئی سمجھے نہ سمجھے۔۔
میں بلاول سے کہتا ہوں، کہ میں نے اور میرے بیوی بچوں نے تمھارے لیئے نہیں بلکہ اس ملک و قوم کے عشق میں جان دی ہے۔ ہمارے سامنے سب سے بڑھ کر ان جیالوں کے دکھ تھے کہ ہم نے اپنے بچوں, تم لوگوں کی بھی پراوہ نہیں کی۔ اگر تمھارے اردگرد کھڑے چاپلوس میرے جیالوں کو دکھ دیں گے, انکی وفاداری پر حرف اٹھائیں گے تو یاد رکھنا یہ تمھارے دوست نہیں ہیں۔ بلکہ یہ تمھاری ماں کے اور تمھارے نانا کے دشمن ہیں۔
اور میں اپنے جیالوں سے کہتا ہوں۔۔ حق گوئی سے کبھی پیچھے نہ ہٹنا۔ کبھی باطل یا میرے نظریات سے روگردانی کرنے والے کو معاف نہ کرنا، یہی تمھاری مجھ سے وفاداری کا تقاضہ ہے۔ جب تک عوام کی حتمی فتح نہیں ہو جاتی، جب تک مزدور خوشحال نہیں ہوجاتا، جب تک تم استحسالی قوتوں سے اپنا حق چھین کر حاصل نہیں کر لیتے، تم لڑتے رہنا۔۔ اور جیسے تم میرے ہو بالکل ویسے بلاول تمھارا ہے۔ یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اسکی ماں، نانا، نانی اور مامووں کا عشق فقط عوام تھے۔۔ یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ تمھی اسکا ذورِ بازو ہو سو اپنے بدن کیساتھ جُڑے رہنا، میں تم سے دست بردار نہیں ہوں گا۔۔
(آپا سردار بیگم کُوچے کے اندر چلی جاتی ہیں اور کچھ ہی لمحوں میں کُوچہ شہیداں روشنی میں نہانے لگتا ہے)