جب عمران خان نے اپنے عہدے کا حلف اُٹھایا تو پہلی ہی تقرریر میں فرمایا کہ ہم whistle blowing پروموٹ کریں گے ۔ اور ہم whistle blowers کو مالا مال کر دیں گے ۔ دراصل whistle blowing اور اس کے عوض مالی مفاد اٹھانا دو متضاد چیزیں ہیں ۔ یہی چیز جولین آسانجے کو مروا گئیں۔ جولین آسانجے paid whistle blower تھا ، آج بُگھت رہا ہے ۔ میں کالج کے زمانے سے rebel یا باغی تھا اور تب سے اب تک ۴۰ سال whistle blowing کی ۔ لیکن اپنے رب اور من کو راضی کرنے کی خاطر ۔ اپنی ماں دھرتی اور آنے والی نسلوں کی خاطر ۔ کبھی پیسہ یا کوئ مفاد نہیں اُٹھایا اور کبھی جیل بھی نہیں گیا ۔ ہاں البتہ جسمانی ، مالی اور زہنی persecution انتہا کی ہوئ ۔ اسی persecution کی بنا پر امریکہ نے مجھے asylum دیا ، میں امریکہ کا بہت شکرگزار ہوں اور دعا گو ہوں کہ امریکہ بہت ترقی کرے ، روحانیت کا سفر اختیار کرے اور دنیا کو ثابت کرے کہ امریکی گوروں کی بہت بڑی تعداد امریکہ سے بے پناہ محبت کرتی ہے ۔ آمین
کل جب میں کینڈی ایرپورٹ نیویارک پہنچا ، حسب معمول کوئ لینے نہیں آیا ہوا تھا ۔ دو عدد carry ons کے ساتھ پہلے air train پکڑی ، پھر subway ٹرین اور مینہیٹن سے NJ Transit ٹرین ۔ جرسی کے اسٹیشن پر گھر والی لینے آئ ہوئ تھی لیکن وہ اسٹیشن کے دوسری طرف کھڑی تھی ، میں سمجھا وہ نہیں آئ ۔ کیری آن پکڑے اور دو کلومیٹر گھر کا سفر مائنس دو سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں اینجوائے کیا ۔ ہلکی ہلی بُوندا باندی بھی جاری تھی ۔ آئین سٹائین جب بیلجیم کی ملکہ کی دعوت پر وہاں گیا تو ٹرین اسٹیشن پر ملکہ کا اسٹاف لینے گیا آیا ہوا تھا ۔ انہیں آئینسٹائن نہ ملا اور جب ملکہ بہت پریشان ہوئ اور آئنسٹائن کو ڈھونڈنا شروع کیا تو وہ محل کے نزدیک ایک گلی میں ٹرنک گلے میں ڈالے وائلن بجاتا ہوا محل کی طرف رواں دواں پایا گیا ۔ آئینسٹائین نے ملکہ کو ملتے ہی اس کا شکریہ ادا کیا کہ اسے قدرتی مناظر دیکھنے اور ان سے باتیں کرنے کا موقع ملا ۔ میں بھی جب بیگم صاحبہ کو گھر پہنچ کر ملا تو میں نے بھی یہی کہا ۔ میں اکثر یہ دو کلومیٹر کا سفر مینہیٹن جاتے ہوئے اکثر بہت زیادہ اینجوائے کرتا ہوں ۔ ایک ایک درخت یاد ہے اور ہر جانور اور پرند چرند جو رستے میں ملتا ہے میرا ہمراز اور میرے ساتھ شامل رقص ۔ کل سِمبا مجھے ملکر بہت عرصہ روتا رہا ۔ میری اسپوکین میں دوست Alison کی بلی تو مجھے ایک سال بعد دیکھ کر فورا نہ صرف اُچھل کر میری گود میں بیٹھ گئ بلکہ کئ گھنٹے اترنے کا نام نہ لیا ۔ میں قدرت سے پیار کرتا ہوں اور قدرت میرے سے ۔ اس سارے سفر کے دوران کل مجھے یاد آیا کہ فرخ عرفان مجھے اپنے خلاف درخواست نہ دینے پر پانچ ملین ڈالر آفر کر رہا تھا ۔ اس سے میں شاید کوئ قسطوں پر پرائیویٹ jet خرید لیتا لیکن پھر قدرتی نظارے بھی نہ دیکھ سکتا اور ماحول کی آلودگی میں بھی خوامخواہ اضافہ کرتا صرف جعلی شوبازی کی خاطر ۔ اس طرح مزہ تو آیا ۔
میں نے فرخ عرفان کے کیس میں صرف whistle blowing کی تھی ۔ اوّل تو میرا نام ہی صیغہ راز میں رکھنا چاہیے تھا اور مجھے تمام سہولتیں میسر کرنی چاہئیں تھیں جو whistle blower کو ملتی ہیں ۔ اُلٹا مجھے prosecute کیا جا رہا ہے ۔ فیملی اور فرینڈز میں بُرا بھلا کہا گیا ، پاکستان کی زمین مجھ پر تنگ کی گئ ۔ میرے وراثتی گھر پر قبضہ کروا کر مجھے شدید مالی بحران میں دھکیل دیا گیا ۔ میں اور میرا وکیل اقبال جعفری ڈٹے الحمد للہ اس مافیا کے خلاف ڈٹے ہوئی ہیں اور اللہ تعالی نے چاہا تو ڈٹے رہیں گے ۔ ہم دونوں کو فرخ کا دوست ثاقب نثار عدالت کی پروسیڈنگز سے بھی باہر رکھے ہوئے ہے ۔ اقبال جعفری پاکستان ہونے کے ناطے اخباروں میں پڑھ کر خود بخود چلے جاتے ہیں وہ بھی اللہ بھلے کرے فرخ کی کم عقلی کا کہ اس نے اوپن hearing کا کہا وگرنہ سپریم جیوڈیشل کونسل کی تمام کاروائ in camera ہوتی ہے ہمیں بھی نہ پتہ چلتا کہ اندر کھاتے بدمعاشوں کے درمیان کیا پِک رہا ہے ۔ کہتے ہیں جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف دوڑتا ہے اور فرخ کی واقعہ ہی اب موت آ گئ ہے ۔ میں تو زندہ ہوں بلکہ اب سے کچھ ہی لمحوں بعد ایک چرچ میں میرا روحانیت کا مزاہب کے ساتھ تعلق پر ایک لیکچر شیڈیول ہے ۔
اللہ تعالی ہمارے پاکستانی حکمرانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے ۔ اپنے امام ، پیارے نبی حسین کے نواسہ کی یاد آ گئ ۔
ظلم پھر ظلم ہے ‘بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ‘ٹپکے گا تو جم جائے گا ۔
خاکِ صحرا پہ جمے یا کفِ قاتل پہ جمے
فرقِ انصاف پہ یاپائے سلاسل پہ جمے
تیغِ بیداد پہ یا لاشہء بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا ۔
لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتاہے جلادوں کے مسکن کا سراغ
سازشیں لاکھ اڑاتی رہیں ظلمت کا نقاب
لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ ۔
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آنکلا ہے
کہیں شعلہ کہیں نعرہ کہیں پتھر بن کے
خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں سے
سر جو اٹھتا ہے تودبتا نہیں آئینوں سے ۔
ظلم کی بات ہی کیا‘ ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے ‘آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کے دباؤ تو دبائے نہ بنے ۔
سلام یا حسین علیه السلام