ظلم کا اختیار کس نے دیا؟
حقیقی جنگ اختیار ہے، اختیار ہی رحم ہے، یہی ظلم ہے، یہی حکومت اور یہی محکومیت ہے، یہی سچائی اور یہی جھوٹ کی پابندیوں کا مروج ہے۔ اختیار ایک ایسی حقیقت ہے کہ یہ انسانیت کی تمام راہوں میں ہر کہانی لکھنے اور لکھوانے کا باعث بنا ہے۔ ظلم کا اختیار طاقتور ہے، اور رحم کا اختیار حلیم۔ جب اختیار ظالموں کے ہاتھ جاتا ہے تو ظلم بڑھتا ہے، جب اختیار علم والوں کو ملتا ہے تو علم بڑھتا ہے، جب اختیار جھوٹوں کو ملتا ہے تو جھوٹ بڑھتا ہے، منافقوں کو ملنے والا اختیار دنیا میں منافقت کی ترویج کرتا ہے، جاہلوں کو ملنے والا اختیار جہالت کو جنم دیتا ہے، شدت پسندوں کو ملنے والا اختیار شدت میں اضافہ کرتا ہے، لٹیروں کا اختیار لوٹ مار تو فروغ دیتا ہے۔
اختیار کی جڑیں، تکریم اور احترام کے علاوہ طاقت و خوف میں پیوست ہیں۔ طاقت اور خوف اختیار کے کمزور ہتھیار ہیں، کیونکہ طاقت کے نشیب و فراز میں طاقت اور خوف سے قائم کیا گیا اختیار زمین بوس ہو جاتا ہے۔ مگر تکریم و احترام پر قائم اختیار انسانی تاریخ میں سب سے بااثر اور مہلک ثابت ہوا ہے۔ تکریم و احترام سے ملنے والے اختیار کی کئی شکلیں ہیں، ان میں سرفہرست مذھب، نسل، نظریہ، عقیدہ اور روایات ہیں۔ مگر ان سبھی اختیاروں میں مذھبی اختیار کو ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ مذھب سے جڑی سبھی برائیاں مذھب کے اختیار سے جڑی ہیں، مذھب انسانوں کو دوسرے انسانوں سے برائی کرنے کا وہ اختیار دیتا ہے جو کوئی اور نظریہ نہیں دے سکتا، مذھبی اختیار ظلم کرنے والے سے رحم اور ہمدردی کے جذبات کو چھین لیتا ہے۔ وہ ظلم کو بھلائی اور رحم کو برائی بنا دیتا ہے۔ یہ اختیار باور کرتا ہے کہ سنگسار کر کے قتل کر دینا نیکی اور اچھائی ہے، معاشرے سے برائی ختم کرنے کا طریقہ ہے، دوسری طرف ایک سوتیلے باپ کو تربیت کے نام پر ظلم کا اختیار بھی مذھب دے دیتا ہے، معاشرت ایسے ظلم میں مذھب کی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چلتی ہے۔
ظلم بڑھتا ہے، مگر عقیدت ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی اجازت نہیں دیتی، مذھب غلام کو مالک کے ظلم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ مذھبی اختیار خاوند کو بیوی پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت دیتا ہے، یہی اختیار بیوی کو اس ظلم کو ظلم نا کہنے کی تلقین کرتا ہے، یہی اختیار مرد کو عورت سے افضل قرار دیتا ہے، یہی اختیار غیر مذھبوں کے خلاف مسلح جدوجہد کی تلقین کرت ہے، یہی اختیار "گستاخ رسول کی سزا، سر تن سے جدا جیسے گھٹیا نعرے لگواتا ہے"۔
مذھب سے اختیار الگ ہو تو مذھب کیا ہے، مذھب پھر صرف دھوکا ہے، صرف ظلم ہے، صرف دھونس ہے، صرف برائی ہے، صرف جہالت ہے، صرف بربریت ہے، منافیِ خرد ہے۔ مذھبی اختیار ہی ملا، راہب اور پنڈت کی طاقت ہے، مذھبی اختیار ہی فتویٰ اور سزا ہے۔ اسی طرح معاشرتی اختیار انسانیت اور آزادی کا قاتل ہے، اسی طرح نسل پرستانہ اختیار نفرت اور ظلم ہے۔ مگر یہ سارے اختیار بھی آپس میں برسر پیکار ہیں۔ اور ان سب اختیار کے مختاروں کی جنگ میں انسان کٹھ پتلی بن کر رہ گئے ہیں، انسان اندھے ہو گئے ہیں، یہ اختیار کی قید میں اچھائی اور برائی کی تمیز کھو بیٹھے ہیں۔
اگر ظالموں کے ظلم کی جڑ کو ختم کرنا ہے تو یہ سوچیں کہ ظلم کرنے کا اختیار کہاں سے مل رہا ہے۔ جب وہ جڑ ختم ہو گی تو ہی ظلم ختم ہو گا، ورنہ نقاب بدلتے رہیں گے مگر ظلم ختم نہیں ہو گا، ہر نئے نویلے چمکیلے نقاب کے پیچھے کارفرما پرانا اختیار ہی ہو گا، اور جب تک اختیار ہے تب تک ظلم ہے۔
تحریر محترم غالب کمال
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“