پانی کا گلاس ہاتھ میں دیتے ہوئے "آ ئمہ موبائل سے دیکھنا ٹائم کیا ہوا ہے"۔
زاہد گھڑی پر دیکھتے ہوۓ ، "سوا سات"
آ ئمہ پریشانی کے آثار دکھاتے ہوۓ اُوہ ! اتنی دیر ہوگئی۔
کیا ہوا؟
وہ میں انیلہ کے لیے پریشان ہو رہی ہوں۔
کیا ہوا اُسے پانی پیئے بغیر زاہد اضطراب سے پوچھتے ہوۓ۔
اتنا ٹائم ہو گیا ابھی وہ واپس نہیں آ ئی، آئمہ ڈرامہ کرتے ہوۓ بولی۔
کیا؟ گلاس میز پر رکھتے ہوۓ، زاہد غصے میں باہر نکل گیا۔
اماں اماں کیا ہوا بیٹا خیر تو ہے۔
انیلہ ابھی تک گھر کیوں نہیں پہنچی ؟
بیٹا اس کی میٹنگ ہے اس نے مجھے فون کر کے بتایا تھا۔
دیکھ لینا اماں یہ بھی رازیہ کی طرح ایک دن ہمارا منہ کالا کروائے گئی۔
پہلے ہی رشتے داروں اور ہمسائیوں کے سامنے جاتے ہوۓ خوف آ تا ہے۔
اتنے میں دروازہ بجتا ہے آ ئمہ دروازہ کھولتی ہے۔
روز کی طرح اپنا رعب جماتے ہوۓ،
"کہاں تھی محترمہ اور تمہارے بھائی آج بہت غصے میں ہیں"
انیلہ آج اتنا خوش ہوتی ہے کہ کسی بات کو محسوس کیے بغیر بھاگ کر اماں اماں میری ترقی ہوگئی۔ میں "ریجنل مینیجر" بن گئی ہوں۔ہماری کمپنی کے آج "انٹرنیشنل انویسٹر" آئے تھے۔
زاہد نہ آؤ دیکھتا ہے نہ تاؤ، زوردار تھپڑ منہ پر رسید کرتاہے بہن کو۔ جھوٹ بولتی ہو۔ ہمیں بے وقوف سمجھا ہوا ہے۔
آنسو بہاتے ہوئے آج انیلہ کی آ واز میں ایک مضبوط لڑکی بول رہی تھی۔ بھائی آپ کو ہمیشہ بہنوں سے تکلیف کیوں رہی ہے۔ آپی کے ساتھ بھی آپ کا یہی رویہ تھا اور اب ۔
ہاں اور اب تم جو ویسے تماشے کرنے لگی ہو۔
بکواس بند کریں ہر رشتے کے احترام کی ایک حد ہوتی ہے۔
اور آ پکی بہت عزت کر لی اور ہو بھی نہیں سکتی۔ یہ کہتے ہوۓ انیلہ کمرے میں چلی جاتی ہے۔
معاف کرنا خالہ اس کے شادی کر دو۔ اس آ زادی سے یہ بھی ہماری عزت کا جنازہ نہ نکال دے آ ئمہ منہ بناتے ہوۓ بولی ۔
بوڑھی ماں پہلے بیٹی کے صدمے سے دو چار تھی۔ میرا دل بیٹھا جارہا ہے کیوں محلے والوں کو سناتے ہو۔جاؤ زاہد تم لوگ اپنے کمرے میں ۔
آئمہ اور زاہد کھانا کھاتے ہیں۔ پر نہ انیلہ اور نہ ہی ماں کھا نا کھاتی ہیں۔
"ماں آ پکو کھانا لا دوں"؟ چار پائی کے ساتھ کھڑے ہو کر انیلہ آہستہ سے بولتی ہے۔
بائیں طرف منہ کر کے لیٹے ہوۓ ماں بولی تم لاؤ کھانا ہم ساتھ کھائیں گے۔
جی ماں۔
دال روٹی رائتہ سلاد لاتے ہوۓ یہ لو ماما آپ کو دال کے ساتھ رائتہ پسند ہے نا ۔
ماں دکھ بھری مسکراہٹ سے نوالہ توڑتے ہوۓ پہلے میں اپنی ننھی گڑیا کو تو کھلاؤں۔ دن میں کچھ کھایا تھا؟
آبدیدہ آنکھوں سے مسرت ماں بولی۔
انیلہ ہاتھ پکڑتے ہوۓ آپ جانتی ہیں مجھے دربدر کی ٹھوکریں کھاتے ہوۓ سات سال ہو گئے ہیں ۔
اور مشکل سے یہ گھر چلا رہے ہیں ۔بھائی کی آمدن کا ہمیں کوئی پتہ نہیں ۔
جانتی ہوں میری پری تو نے بہت دکھے کھائے ہیں۔ گالوں پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوۓ۔
کمرے میں دو چارپائی، ایک الماری،ایک کرسی میز اور یہ دونوں قالین پر دستر خوان بچھاۓ باتیں کر رہی تھیں۔
ماں اب تک میری تنخواہ اتنا تھی کہ گھر کے بل آپکی دوائیوں اور میرے دفتر تک کے کرائیوں میں پوری ہو جاتی تھی۔
آپ کے سامنے ہےنا، دو سال سے میں نے نئے کپڑے نہیں لیے اور سارا سال گاؤن میں جاتی ہوں ۔
ماں نے ایک لمبی آہ بھرتے ہوۓ۔ کھانا سائیڈ پر رکھتے ہوۓہاں۔ تمھارے ابا ہوتے تو شاید ہمارے حالات ایسے بُرے نہ ہوتے ۔
ماں حالات اب بھی اچھے ہو سکتے ہیں بس آپ ہمت کریں ۔
میں کیسے؟ ماں انیلہ کی طرف دیکھتے ہوۓ۔
آپ میری ماں اور باپ بن جائیں۔
وہ کیسے؟
ماں مجھے پنڈی ایریا میں دفتر والے شفٹ کر رہے ہیں ۔وہاں گھر ،گاڑی ،بہت اچھی سیلری اور باقی پرفارمنس الاؤنسز بھی ملیں گے۔ اب میں بھی چاہتی ہوں ہم ادھر سے دور چلے جائیں ۔
میں یہ گھر نہیں چھوڑ سکتی۔ تمھارے ابا اور رازیہ کی یادیں ہیں ادھر ۔
ماں اسی کے لیے تو یہ سب کر رہی ہوں ۔ انیلہ تسلی دیتے ہوۓ بولی۔
ہم مرے ہوۓ کے لیے کچھ نہیں کر سکتے میری بچی۔
اماں میں اس کے لیے کر سکتی ہوں بس آ پ اگر ساتھ دیں تو ۔
وہ کیسے؟
ماں آپی کے باس نے ہی بلڈنگ سے دھکا دیا تھا اور بعد میں ایک سٹاف کو پیسے دے کر سارا الزام اس کے سر ڈالا اور بعد میں اسے چھڑوا دیا۔
آ پی پر بھی الزامات لگوائے ۔میں اتنا پیسے جمع کرنا چاہتی ہوں ۔ جڑ سے سب کو سزا دلوانا چاہتی ہوں۔اس سب میں مجھے آپ کا ساتھ چاہیئے۔
پر انیلہ؟
ماں پر ور کچھ نہیں ہوتا۔
وہ تمھارا بھائی؟
کونسا بھائی؟
ماں غصے سے انیلہ بولی وہ بھائی جس نے آ پی کے قتل کی رقم تک وصول کی ہے۔
کیا؟ یہ تم سے کس نے کہا؟
ماں چونک سی گئی
۔تب آپی جاب کر کے گھر چلاتیں تھیں اور اب میں ۔
اب بھائی کی عزت پر کوئی داغ نہیں لگتا۔
مہینہ ختم ہونے کے قریب بھائی سامان کی لسٹ پکڑا دیتے ہیں ۔
حالانکہ ہمارے باپ کا بنا گھر ہے پھر بھی لگتا ہے جیسے بھائی بھابھی کے ٹکروں پر پل رہے ہوں۔
تمہیں سب معلومات کہاں سے ملیں؟ ماں کے ذہن میں ابھی تک بیٹی کے قاتلوں کی بات چل رہی تھی ۔
ماں آفس والے مجھے تین ماہ سے پروموشن کا کہہ رہے تھے۔
میرے بار بار انکار پر ایک دن باس نے مجھے بلوا کر انکار کی وجہ پوچھی۔ میں نے اپنے گھر کے حالات اور آپی کا واقعہ بتایا تو باس نے بھرپور تعاون کا کہا۔
کورٹ میں کیس دائر کیا آپی کے حوالے سے ۔
امی معاف کیجیۓ گا آپ کو بتاۓ بغیر یہ کام ہوا۔
نہ میرا بچہ میں تمہیں کھونا نہیں چاہتی۔
ماں سر نے کہا میں بہت قابل ہوں اتنا کہ ایسے محنت کرتی رہی تو بہت جلد کنٹری منیجر بن سکتی ہوں ۔
معاشرے میں کئی ذہین اور محنتی لڑکیاں ڈر کر ایک اچھا مقام نہیں پا سکتیں ۔ مجھ سے جتنا ممکن ہوا میں اپنے اور آ پی جیسی مجبور اور بےبس لڑکیوں کا سہارا بننا چاہتی ہوں ۔
اب میرا یہی فیصلہ ہے کہ محنت کروں آپی اور ان جیسے ہزاروں کیسز کی کھوج لگا کر انصاف دلواؤں۔بس آپ ساتھ دیں ہم ادھر سے شفٹ ہوکر پنڈی جاتے ہیں۔ میں ایریا منیجر کی پوسٹ جوائن کروں۔
میری دعا تمھارے ساتھ ہے میری بچی۔
بڑی بیٹی کا انصاف ملنے کی امید نے ماں کو ہمت دی ۔اور انیلہ کو بھی زندگی کا مقصد سمجھ آ یا۔