ما ما ں جی
آج ظہور نظر کی 37 ویں برسی ہے۔
وہ 1923 میں ساہیوال میں پیدا ہوئے، بیشتر زندگی بہاولپور میں گزاری ۔
7ستمبر1981 کو وفات پائی۔
پاکستان کے شاعروں میں ظہور نظر کی رینکنگ کچھہ بھی ہو، وہ ہمارے شہر بہاولپور کے بلا شبہ سب سے بڑے شاعر تھے۔ان کا مجموعہ کلام ’ وفا کا سفر‘ ان کی وفات کے بعد خالد احمد، نجیب احمد نے شائع کیا۔ بعد میں کلیات بھی شائع ہوئی۔ ہارون آباد کے اردو کے ایک استاد پروفیسر تنویر خالق کو ظہور نظر کے فن اور شخصیت پر ان کے تحقیقی مقالے پر پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی۔
ظہور نظر نے روزی روٹی کیلئے الیکٹریشن سے ٹھیکیدار تک کئی پاپڑ بیلے۔ ایک خوبصورت چائے خانہ بھی کھولا تھا جہاں نفیس اور نازک برتنوں میں بڑی مہک والی چائے ملتی تھی، اس ریستوران کا نام بھی شاعرانہ رکھا ۔۔۔ ’’ ڈمپل ‘‘
بہاولپور میں ریڈیو سٹیشن قائم ہوا تواس کیلئے بے شمار ڈرامے لکھے، ان کی ہدایات دیں اور خود بھی صداکاری کی۔
ظہور نظر کو سارا شہر ’’ماماں‘‘ (ماموں) کہتا تھا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ان کے کئی بھانجے تھے، حبیب اللہ پاشا، اعجاز وغیرہ سب سیاست، ادب، ثقافت کے شعبوں میں سرگرم اور یار باش قسم کے لوگ تھے۔ وہ ماماں کہتے تو ان کے سب دوست بھی ماماں کہنے لگے۔ اس طرح وہ جگت ماماں ہو گئے۔ مشاعروں میں جہاں بھی جاتے کوئی بہاولپوری آکر ملتا تو ماماں جی کہہ کر مخاطب کرتا۔ ساتھی شعرأ ان کے بھانجوں کی کثرت پر حیران ہوتے۔
ایک بار میر پور خاص جیسے دور دراز مقام پر مشاعرہ ہوا ۔ تمام بڑے شاعر مدعو تھے۔ صوفی تبسم نے کہا ’’ لے بھائی ، یہاں تمہارا کوئی بھانجا ملے تو مانیں ‘‘
اتفاق سے ظہور نظر کا سگا بھانجا، جو میڈیکل ریپریزنٹیٹو تھا ، اسی علاقے کے دورے پر تھا، پتہ چلنے پر مشاعرہ گاہ پہنچ گیا اور ’’ماماں‘‘ کہہ کر ان سے گلے ملا۔
اس پر صوفی صاحب نے پنجابی میں جو کچھہ کہا، وہ تو نہیں لکھا جاسکتا۔ اس کا
نرم ترین ترجمہ یہ ہے۔۔۔
’’ مان گئے بھئی ، تمہاری بہنوں کی تولیدی سرگرمیاں بہت زیادہ ہیں ‘‘
چلتے چلتے یاد آیا جب میں، پنجاب یونیورسٹی میں داخل ہوا اور لاہور آنے والا تھا، انہوں نے جناب احمد ندیم قاسمی کے نام ایک تعارفی خط لکھہ کر دیا اور تاکید کی کہ ان سے ضرور ملوں ۔ وہ خط تو میں نے پہنچا دیا لیکن افسوس کہ یونیورسٹی میں کچھہ زیادہ مصروف ہو جانے کے باعث قاسمی صاحب سے بس دو چار بار ہی مل سکا۔
ماماں جی نے بہاولپور والوں کو ایسے سیکڑوں ( بلکہ شاید ہزاروں) تعارفی اور سفارشی رقعے لکھہ کر دئیے ہوں گے….اور ان میں سے بیشتر موثر ہوتے تھے۔
ظہور نظر کے کچھہ اشعار
وہ بھی شاید رو پڑے ویران کاغذ دیکھہ کر
میں نے اس کو آخری خط میں لکھا کچھہ بھی نہیں
رات بھر اک چاپ سی پھرتی رہی چاروں طرف
جان لیوا خوف تھا لیکن ہوا کچھہ بھی نہیں
اپنی صورت بگڑ گئی لیکن
ہم انہیں آئینہ دکھا کے رہے
بعد ترک الفت بھی یوں تو ہم جئے لیکن
وقت بے طرح بیتا عمر بے سبب گزری
برسوں سے کھڑا ہوں ہاتھہ اٹھائے
تاثیر دعا کا منتظر ہوں
گھر سے اس کا بھی نکلنا ہو گیا آخر محال
میری رسوائی سے شہرت کو بہ کو اس کی بھی تھی
خود کو پانے کی طلب میں آرزو اس کی بھی تھی
میں جو مل جاتا تو اس میں آبرو اس کی بھی تھی
لٹ گیا ہے سفر میں جو کچھہ تھا
پاس اپنے مکان تک بھی نہیں
نہ سو سکا ہوں نہ شب جاگ کر گزاری ہے
عجیب دن ہیں سکوں ہے نہ بے قراری ہے
پاس ہمارے آکر تم بیگانہ سے کیوں ہو
چاہو تو ہم پھر کچھہ دوری پر چھوڑ آئیں تمہیں
سنتے ہیں چمکتا ہے وہ چاند اب بھی سر بام
حسرت ہے کہ بس ایک نظر دیکھہ لیں ہم بھی
تنہائی نہ پوچھہ اپنی کہ ساتھہ اہل جنوں کے
چلتے ہیں فقط چند قدم راہ کے خم بھی
وہ جسے سارے زمانے نے کہا میرا رقیب
میں نے اس کو ہم سفر جانا کہ تو اس کی بھی تھی
اُٹھا کے بھر دے کوئی ریت میری آنکھوں میں
کہ مُجھہ کو دشت، سمندر دکھائی دیتا ہے
ﻭﮨﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﻧﮯ ﮐﻤﺎﺋﯽ ﺣﻼﻝ ﮐﯽ ﺭﻭﺯﯼ
جہاں پہ فرق حرام و حلال کوئی نہ تھا
رکھی ھے اس نے تجدید رسم وراه کی یه شرط
که دوستی نه بڑھے صرف دشمنی کم ھو
کَہا تھا کِس نے کہ ہاتھہ تھامو ہوا کا اَے بَرگِ خُشک و خَستہ،
ہَوا کی مَرضی ہے اَب تو پیارے، جہاں بھی جاۓ، جِدھر بھی جائے
یہ کیا سِتم ہے کہ ہم پہ لَگتی ہے جَب بھی لَگتی ہے کوئی تُہمت
کَبھی تو اَے شہر کوئی اِلزام شہریاروں کے سَر بھی جائے
چَلا تو ہوں آس لے کے ایفائے عہد کی اُس کے دَر پہ لیکِن
وُہی نہ ہو اِس گَداگری میں قَلندری کا ہُنر بھی جائے
غَروب کے وقت سے چھَتوں پَر کَھڑے کَھڑے لوگ تَھک گئے ہیں
گُزرنے والا ہے کوئی سیلاب شہر سے تو گُزر بھی جائے
جہاں مرا کھیت تھا، وہاں ریت ڈالتا جا رہا ہے پانی
مرے لیے فَرق کیا پَڑے گا، جو اَب یہ دَرہا اُتر بھی جائے
افق کے اس پار شہر خورشید میں سحر منتظر ہے میری
وہ کہہ رہے ہیں کہ دیکھہ لوں میں مگر وہاں تک نظر بھی جائے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔