زبان کی سرحد کا تعیّن اوراُردو کا قضیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی خطّے میں، دو دُور دراز کے علاقوں کے لوگ جب آپس میں بات کریں اور ایک دوسرے کی بات کو آسانی سے سمجھ لیں تو ان دونوں کی بولی ایک سمجھی جائے گی۔ اس بات کو مثال کے بغیر سمجھانا مشکل ہے۔ ہم پنجابی، سرائیکی، ہندکو، پھوٹوہاری، جنوبی کشمیری وغیرہ کے بارے میں جانتے ہیں کہ یہ زبانیں ایک دوسرے کو سمجھ لیتی ہیں۔ مثلاً ڈیرہ اسماعیل خان خالص سرائیکی ہے لیکن اگر ڈیرہ اسماعیل خان اور روالپنڈی کے دو لوکل آپس میں اپنی اپنی زبانیں بول رہے ہوں تو دونوں ایک دوسرے کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ جیکب آباد میں سمجھ میں آنے والی سرائیکی کا جملہ امرتسر اور جالندھر تک سمجھ میں آتاچلاجاتاہے بشرطیکہ بہت زیادہ ٹھیٹھ لہجے میں ادا نہ کیا جائے۔ چنانچہ پنجابی، سرائیکی، ہندکو، پھوٹوہاری وغیرہ یہ سب ایک ہی زبان ہیں۔ یہ سب وادیِ سندھ کی زبانیں ہیں۔ سندھ کی سِین کو جو قومیں ادا نہ کرپاتی تھیں اور ’’ہ‘‘ کے ساتھ بدل دیتی تھیں انہوں نے سندھ کو ہِند کہا۔ بنیادی طور پر یہ ساری وادی بشمول ہندوستان ایک ہی وادیِ سندھ کا ہی نام ہے۔
زبان کی سرحد کا تعیّن کیسے کیا جائے گا؟ ہم روالپنڈی میں بیٹھے ہیں، یہاں سے دوگھنٹے پر پشاور ہے لیکن نہ جانے کتنے گھنٹوں تک ہندوستانی پنجاب پھیلاہوا ہے۔ ہم پشاور کی زبان (اگر ہندکو کو وقتی طور پر الگ کردیا جائے تو) نہیں سمجھ پائینگے۔ گویا اِس طرف زبان کی سرحد فقط دو گھنٹے پر ختم ہوجاتی ہے۔ آزاد کشمیر میں ہی بعض علاقوں سے دوسری وہ والی کشمیری شروع ہوجائے گی جس کا جملہ اس طرح بدل چکا ہوتاہے کہ پنجابی کے لیے سمجھنا پشتوجتنا ہی مشکل ہوتاہے یا پھر سندھ کی طرف بڑھتے ہوئے جہاں سے سندھی ہماری سمجھ میں آنا بند ہوجائے گی، زبان کی سرحد مقرر ہوجائے گی۔ زبان کی سرحد کسی سرائیکستان کے لیے الگ نہیں کی جاسکتی۔ زبان اس مقام تک اپنی سرحدات رکھتی ہے جہاں تک ایک ہی خطہ کے دو لوکل لوگ اپنی اپنی بولی میں جملہ بولیں اور دونوں ایک دوسرے کی بات سمجھ جائیں۔
پاکستان میں علاقائی زبانوں کے ساتھ بہت بڑا ظلم روا رکھا گیاہے۔ خاص طور پر پاکستانی پنجابیوں اور سرائیکیوں کے ساتھ سب سے بڑا ظلم ہوا ہے۔ سندھیوں نے سب سے زیادہ، بلوچوں اور پشتونوں نے اس کے بعد اپنے اپنے کلچر کو بچانے کی کسی حدتک کامیاب کوششیں کی ہیں لیکن پاکستانی پنجابیوں نے تو گویا اردو کے آجانے پر اپنی ماں کو اپنے گھروں سے ہی نکال باہر کیا۔
پاکستان کے علاقائی کلچروں کو اردو کلچر سے مغلوب رکھا گیا جس کے نتائج یہ نکلے کہ قدیم تہذیبی اثاثے تباہ ہونے لگے۔ پشتو ہو یا سندھی یا سرائیکی، کتنے امیرکبیرکلچر ہیں یہ۔ امیر کبیر سے مراد جن کے پاس ہزاروں سالہ روایات، نظام ہائے فکر، ثالثی قوانین، رسم و رواج، رہن سہن کے طریقے، غرض دنیا میں بابائے لسانیات ہونے تک کا شرف حاصل ہو وہ کیونکر عربوں یا فارسیوں یا انگریزوں سے زیادہ امیری کبیر نہ ہونگے؟ جہاں تک میرا مطالعہ میرا ساتھ دیتاہے۔ سنسکرت اور یونانی نہ صرف علمی طور پر ہم عصر ہیں بلکہ تہذیبی اعتبار سے سنسکرت اُس وقت کے علمی یونان سے کہیں زیادہ امیرکبیر یعنی رِچ ہے۔
اردو کو قومی زبان کے طور پر نافذ کردینے کا فقط ایک ہی فائدہ مقصود تھا کہ چاروں پانچوں صوبوں کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کی بات سمجھ سکیں۔ لیکن خود اس عمل کی اتنی زیادہ شدید ضرورت کبھی نہیں رہی جتنی زیادہ ضرورت ان کی اپنی زبانوں کو بچانے کی تھی۔ مثلاً مجھے پوری زندگی میں ایک بار ایک بلوچی سے ملنے کا اتفاق ہوا اور چند بار کسی سندھی سے۔ یہی حال سب کا ہے۔ ہمیں بین الصوبائی مواصلات کے لیے اردو کی ضرورت تھی تو اِسے آپشنل زبان ہونا چاہیے تھا۔
دراصل بنیادی غلط فہمی اس وقت ہوئی جب اردو کو اسلامی زبان سمجھ لیا گیا۔ اسلام کسی ایک زبان کا مذہب نہ تھا اور نہ ہے۔ حتیٰ کہ عربی کا بھی نہیں۔ عربی کو ضرور یہ برتری تو حاصل رہیگی کہ قران عربی میں ہے لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہ ہوگا کہ دنیا بھر کے مسلمان ملکوں میں عربی بطور مرکزی زبان کے داخل کردی جائے۔ اور پھر اردو کو عربی کے مترادف سمجھا ہی کیوں جاتارہا؟ یہ کب ہوئی عربی کے مترادف۔ یہ تو ہندی جملے کے اندر رکھ دیے جانے والے چند عربی اور فارسی الفاظ کی وجہ سے وجود میں آجانے والی ’’نئی ہندی‘‘ زبان ہے۔ اس کو عربی کے مترادف اور پھر عربی کی وجہ سے اسلام کی زبان کا درجہ دیتے ہوئے پاکستان میں رائج کردیا جانا میری دانست میں ایک ناکام تجربہ تھا۔ وہ اس لیے کہ ہم جو جو بولیاں اپنے گھروں میں دن بھر بولتے ہیں جب کچھ لکھنے بیٹھیں تو ان بولیوں میں نہیں لکھ سکتے۔ ہم جب بچے تھے تو گھروں میں جو زبان بولتے تھے سکولوں میں، ہمیں ہمارے حصے کا علم اُن زبانوں میں نہیں دیا جاتا تھا بلکہ اردو میں دیا جاتا تھا۔ چونکہ اس وقت وہ ہمارے لیے اجنبی تھی اس لیے ہم علم حاصل نہ کرسکتے اور رٹّہ لگا لیتے ۔ اس طرح ہم رفتہ رفتہ ذہنی طور پر نااہل ہوتے چلے گئے۔ یہ ہوا نقصان۔
(جاری ہے)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“