اکثر ذکر ہوتا ہے کہ ٹوٸٹر پر غمگین شاعری کی محفل سجی رہتی ہے اور رونے دھونے والی تحریریں لکھی جاتی ہیں ،میرا ماننا ہے کہ اردو کو زندگی عطا ہوئی ہے ٹوٸٹر کی وجہ سے ورنہ گذشتہ کچھ عرصہ سے ہم اردو لکھنا ہی بھول چکے تھے، میری اولاد کو اردو لکھنا نہیں آتی وہ رومن اردو لکھتے ہیں، ہمارے بچوں کو پنجابی سندھی کی شاعری کا اتہ پتہ نہیں اور فارسی تو اب زبان غیر ہوچکی، شاہ لطیف کی شاعری کا ترجمہ پڑھیں تو انسان جھوم اٹھتا ہے تو اصل زبان میں کیا لطافت ہو گی جسے سمجھنے سے ہم محروم ہیں شکر ہے ابھی پنجابی ادب کو پڑھنے اور سمجھنے والے کچھ لوگ ہیں ورنہ یہ بھی قصہ پارینہ ہوچکی ہوتی بلکہ پنجابی کو زندہ رکھنے میں ہندوستان کا کردار زیادہ ہے پشتو زبان کا ادب تو کوئی جانتا ہی نہیں مگر پشتو بھی بہت وسیع زبان ہے اور شاعری مختصر الفاظ میں گہری بات قافیہ ردیف کے ساتھ کہنے کا طریقہ جو اب عرف عام میں ٹویٹ کہلاتی ہے مگر ٹویٹ اور آج کی شاعری قافی ردیف سے آزاد ہےاور کسی بھی زبان کے زندہ رہنے کے لیۓ ضروری ہے کہ عصر حاضر کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ خود کو ڈھالتی جاۓ جیسے کہ انگلش، اردو نے بھی خود کو بین الاقوامی سطح پر ثابت کیا ہے اور اب ٹوٸٹر کی بدولت اردو زبان کو تازہ خون مل رہا ہےزبانیں انسانوں کے ساتھ زندہ رہتی ہیں اور احساس کمتری کی وجہ سے ہم اردو اور پنجابی کی بجاۓ بچوں سے انگلش میں بات کرتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ انگلش تو بچوں نے گھر سے باہر قدم رکھتے ہی سیکھ لینی ہے مگر ارود سندھی بلوچی یا پنجابی صرف والدین ہی سیکھا سکتے ہیں، زبانیں کسی بھی علاقے کی روایات اور کلچر کو زندگی عطا کرنے کے لیے روح کی حیثیت رکھتی ہیں جو بھی زبان ہمارے علاق کی ہو کوشش کریں کہ اگلی نسل تک ضرور پہنچاٸیں۔
****
تحریر: عترت آبیار