یہ دو مناظر ہیں جو ان دنوں، الیکٹرانک میل کے ذریعے، گردش کررہے ہیں۔ ایک بہت بڑی قاب ہے، قطر جس کا فٹوں میں نہیں، گزوں میں ماپا جاسکتا ہے۔ اس میں بریاں گوشت کے انبار کے انبار ہیں۔ گوشت بادام، کشمش ، چلغوزوں اور دیگر میوہ ہائے خشک میں گندھا ہوا ہے۔ کہیں کہیں پلائو اور انڈے بھی نظر آتے ہیں۔ پیش کرنے اور تناول کرنے والے حضرات لباس سے مشرق و سطیٰ کے لگتے ہیں۔ پھر اشتہا انگیز کھجوروں کے ڈھیر ہیں اور قہوے کے دور چل رہے ہیں۔ دوسرے منظر میں صدر اباما ایک چھوٹی سی میز کے سامنے بیٹھے ایک مختصر سا برگر کھارہے ہیں ۔
اس موازنے پر اعتراض بھی کیے جاسکتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے لوگ جس خوراک کو کھاتے دکھائے گئے ہیں وہ ایک نہیں، بہت سے لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جب کہ ایک برگر ایک ہی شخص کھا سکتا ہے۔ لیکن سبق اس موازنے میں جو پوشیدہ ہے، وہ اور ہے۔ غالباً یہ فقرہ سب سے پہلے سعدی نے لکھا تھا اور پھر ہمارے بزرگوں نے اسے قاعدہ کلیہ بنایا۔ خوردن برائے زیستن است نہ زیستن برائے خوردن۔ کھانا اس لیے کھایا جاتا ہے کہ زندگی برقرار رہے، زندگی اس لیے نہیں دی گئی کہ کھانے ہی میں گزار دی جائے اور یہ بات ہوسکتا ہے ہماری سماعتوں پر گراں گزرے اور دلوں کو صدمہ پہنچائے لیکن سچ یہ ہے کہ یہ قاعدہ کلیہ اقوام مغرب نے اپنا لیا
ہے اور ہم نے اسے ان بہت سی تعلیمات کی طرح پس پشت ڈال دیا ہے جو ہمارے مذہب نے اور ہمارے بزرگوں نے ہمیں دی تھیں۔ ہم صرف ان کا تذکرہ کرتے ہیں اور درخشندہ ماضی پر چمکتے ہوئے ستاروں کی طرح ٹانکتے رہتے ہیں لیکن اس پر عمل پیرا ہونے والے ہم نہیں، دوسرے ہیں۔
یہ 2006ء کا ذکر ہے۔ پاکستان سے ایک اعلیٰ سطح کا وفد واشنگٹن جاتا ہے۔ اس میں بلند مناصب پر فائز بیوروکریٹ شامل ہیں وفد کا سربراہ بلند تر عہدے پر ہے۔ واشنگٹن میں امریکی حکومت اس وفد کے لیے رسمی عشائیے کا اہتمام کرتی ہے اور متعلقہ محکمے کا اعلیٰ منصب دار میزبان کے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ یہ عشائیہ کسی ایوان یا کسی پانچ یا سات ستارہ ہوٹل میں نہیں، بلکہ ایک عام ریستوران میں منعقد ہوتا ہے۔ عشائیے کے وقت اس ریستوران میں عام گاہک بھی موجود ہیں۔ ہاں، ’’تقریب‘‘ کے لیے ایک گوشہ، بڑے ہال ہی میں، مختص کردیا گیا ہے۔ سارا عشائیہ تین اجزا پر مشتمل ہے۔ پہلے ایک ایک پلیٹ سلاد کی مہمانوں کو پیش کی جاتی ہے۔ پھر انہیں کہا جاتا کہ دوچیزوں میں سے ایک پسند کرلیں۔ مرغی کا گوشت یا مچھلی، پاکستانی مہمانوں کی اکثریت مچھلی کا انتخاب کرتی ہے چنانچہ ایک ایک پلیٹ مچھلی کی سب کے آگے رکھی جاتی ہے۔ تیسرے اور
آخری نمبر پر سویٹ ڈش کے طورپر پنیر کا کیک پیش کیا جاتا ہے۔ کچھ مہمان اس کے بجائے چاکلیٹ کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ ہے عشائیہ جو دنیا کی طاقت ورترین حکومت سرکاری ضیافت کے طورپر ایک اعلیٰ وفد کو پیش کررہی ہے لیکن زیادہ عبرت ناک منظر عشائیے کے اختتام پر ہے۔ مہمان وفد کا سربراہ میزبان کو تحائف دیتا ہے۔ پاکستان سے وفد کا سربراہ اپنے ایک نہیں ، کئی
معاونین ساتھ لے کر آیا ہے۔ چھوٹا معاون بڑے معاون کو تحفہ پکڑاتا ہے۔ پھر بڑا معاون وفد کے سربراہ کے ہاتھ میں دیتا ہے۔ اس کے برعکس میزبان وفد کے سربراہ کا کوئی معاون
نہیں۔ وہ تحفے ہاتھ میں لے کر اپنی میز پر رکھتا جاتا ہے ۔عینی شاہد بتاتا ہے کہ تحائف ، تین یا چار، جاتے ہوئے وہ خود ہی دونوں ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے ہے خودہی گاڑی کھولتا ہے، اس میں رکھتا ہے اور پھر خود ہی گاڑی چلاتے ہوئے چلا جاتا ہے۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ ایسا ہی وفد پاکستان میں آئے تو اسے صرف تین اجزا پر مشتمل عشائیہ پیش کیا جائے گا؟ ہماری سرکاری ضیافتوں میں اسراف و ضیاع کے جو مکروہ مناظر دکھائے جاتے ہیں اور احساسِ کمتری کے مارے میزبان جس طرح لاکھوں کروڑوں روپے لٹاتے ہیں، اس کا مہمان مضحکہ اڑاتے ہیں۔ گزشتہ سیلاب کے موقع پر عالمی شہرت یافتہ اداکارہ انجلینا جولی پاکستان آئی اور سابق وزیراعظم اور ان کے خاندان نے اس کے اعزاز میں انواع واقسام پر مشتمل جس عالی شان ضیافت کا اہتمام کیا اس کا، واپس جاکر اس خاتون نے افسوس اور حقارت سے تذکرہ کیا۔ اس کی یہ تحریر کروڑوں افراد نے پڑھی ہوگی۔ اور اہل پاکستان کی ذہنی پختگی کو داد دی ہوگی۔ ارشاد احمد حقانی مرحوم نے سارک کے ایک وفد میں بھارت یا
غالباً سری لنکا کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ضیاء الحق نے ضیافت پر سرکاری خزانے کی رقم پانی کی طرح بہائی۔ مشہور ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے واشنگٹن میں دعوت دی تو پرندوں کا گوشت پاکستان سے منگوایا گیا اور خصوصی باورچی بھی جہازوں میں بیٹھ کر گئے۔ ہنری کسنجر مہمان خصوصی تھا۔ کہتے ہیں کہ اس میز تک گیا ہی نہیں جہاں یہ خصوصی ڈش رکھی گئی تھی۔ اس نے قریب ترین میز سے کھانا لیا، مسلسل باتیں کرتا رہا، کھانے کے اجزا پر توجہ ہی نہیں دی اور مختصر ترین وقت میں پیٹ بھر کر چلا گیا۔ ہوسکتا ہے یہ واقعہ اس طرح رونما نہ ہوا ہو جس طرح اس کالم نگارنے سنا ہے ۔ لیکن ہماری سرکاری ضیافتیں ہوں یا نجی دعوتیں ، ولیمے کی تقاریب ہوں یا دوسرے سماجی مواقع، جس وحشیانہ افراط کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور جس غیرمہذب انداز میں افراتفری اور نفسا نفسی کے ساتھ کھانے کھائے جاتے ہیں، اس سے ہماری ترجیحات کی بخوبی وضاحت ہوتی ہے۔ دوسری طرف کروڑوں افراد پیٹ بھر کر کھانا کھانے سے محروم ہیں۔ خالص خوراک عنقا ہورہی ہے۔ معصوم بچوں کا دودھ تک ملاوٹ کے جرم کی نذر ہورہا ہے۔ یہی تضادات ہیں جو معاشرے کو دیمک کی طرح کھارہے ہیں اور ہمیں دن بدن غیرمہذب بنارہے ہیں۔