"زندگی زنداں دلی کا نام ہے" راولپنڈی مقدمہ سازش کیس کے اسیروں کی سرگذشت ہے۔ اس کیس میں اردو ادب کے درخشاں ستارے اور معروف شاعر فیض احمد فیض نے بھی اسیری کو جھیلا تھا۔ اس لیے یہ کتاب محض ایک کتاب نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے مُلک کی سیاست و ادب کے منظرنامے پر ایک تاریخی گواہی بھی ہے، جس کو مصنف نے اپنے قلم سے بیان کیا ہے۔
یہ واقعہ ہے 23 فروری سن 1951 کا جب میجر جنرل اکبر خان کے گھر پر آٹھ گھنٹوں پر محیط نشست منعقد ہوئی تھی۔ اس نشست میں "حکومتِ وقت" کا تختہ الٹنے کے منصوبے پر غور کیا گیا تھا اور اس میں سہج سہج بولنے والے شریکِ محفل "فیض احمد فیض" بھی شامل تھے۔ یہی واقعہ آگے چل کر "پنڈی سازش کیس" کے نام سے مشہور و معروف ہوا تھا۔
ظفراللہ پوشنی نے انکشاف کیا تھا کہ اُس رات "پنڈی سازش کیس" کے ارکان کسی نتیجے تک نہیں پہنچ پائے تھے۔ فیض اور کامریڈ سجاد ظہیر بھی اس غیر جمہوری عمل کے حق میں نہیں تھے۔ انھوں نے اس کے خلاف دلائل بھی دیے تھے۔
آٹھ گھنٹے کی تند و تیز بحث و تمحیص کے بعد بالآخر جنرل اکبر خان کے پیش کردہ منصوبے کو ناقابلِ عمل سمجھ کر رد کر دیا گیا تھا۔ اسی رات ایک مخبر نے چپکے سے پولیس کو خبر کر دی۔ 9 مارچ 1951 کو وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے اس سازش کو طشت از بام کر دیا، جس کے بعد اس محفل کے دیگر شرکت کنندگان کے ساتھ ساتھ فیض احمد فیض کو بھی گرفتار کر کے قیدِ تنہائی میں ڈال دیا گیا۔
یہ کتاب حیدرآباد جیل میں لکھی گئی تھی۔ اس کے مصنف سابق فوجی اور کیپٹن کے عہدے پر فائز رہنے والے ظفراللہ پوشنی ہیں، جن کا شمار اس کیس کے پندرہ ملزمان کی فہرست میں ہوتا ہے۔ اب صرف آپ ہی ان پندرہ ملزمان میں بقیدِ حیات ہیں۔
اس کتاب میں انہوں نے اپنی قید و بند کی صعوبتوں کا تذکرہ کیا ہے۔ اس کیس کے سبب انہیں قید کے دوران فیض احمد فیض کے ساتھ شب و روز گزارنے کا موقع بھی ملا تھا جس کی دلچسپ روداد انہوں نے تفصیل سے رقم کر دی ہے۔
بنیادی طور پر یہ کتاب ظفراللہ پوشنی کے ان چار سالوں کی روداد ہے جو انہوں نے قید و بند میں گزارے۔ انہوں نے ایام اسیری کے دوران لکھی گئی اپنی "ڈائری" کو بعد میں کتابی شکل دی۔ اس لیے ان کے ساتھی بشمول فیض صاحب بھی اس تخلیق سے واقف تھے۔ لہٰذا کتاب کی پُشت پر ان کی رائے بھی شامل ہے۔
فیض صاحب نے اس کتاب کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ
’’پوشنی کے لکھے ہوئے اس منظرنامے میں آپ کو یہ سارے کردار ایک طرح سے پردہ تصویر پر نظر آئیں گے اور جیل خانے کے وہ سارے ڈراپ سین بھی، جن سے ان کی زندگی عبارت تھی۔ پوشنی نے یہ سب کچھ اتنے چٹخارے لے کر لکھا ہے کہ اسے پڑھ کر کہیں کچھ لوگ یہ نہ سوچنے لگیں کہ اگر سازش ایسی ہی لایعنی اور جیل خانہ ایسی ہی لطف کی چیز ہے تو یہ تفریح ہم بھی کیوں نہ کر دیکھیں"
پوشنی صاحب کی یہ کتاب "ادبی ترقی" کے لیے قائم کردہ حکومتی ادارے "اکادمی ادبیات پاکستان" جسے "پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز" بھی کہا جاتا ہے کی طرف سے "اعزاز یافتہ" ہے. اس کتاب کے اب تک پانچ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اپنی اشاعت کے روز سے اب تک عام قارئین بالخصوص تاریخ و ادب میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب کسی انمول خزانے سے کم نہیں ہے۔
"زندگی زنداں دلی کا نام ہے" کی پہلی اشاعت اپریل 1976 میں ہوئی تھی۔ شہرِ کراچی میں اس کتاب کی تقریبِ رونمائی کی صدارت فیض احمد فیض نے کی تھی۔ یہاں ہم اپنے پرھنے والوں کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کتاب کی تقریبِ رونمائی کے دعوت نامے کی تصویر بھی شامل کر رہے ہیں۔
اب ہم مختصر طور پر ظفر اللہ پوشنی صاحب کی زندگی کے بارے میں اہم معلومات سے پڑھنے والوں کو آگاہ کریں گے۔
ظفر اللہ پوشنی پانچ مئی 1926 کو امرتسر کے ایک کشمیری خاندان میں پیدا ہوئے۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے مارچ 1945 میں برطانوی ہند آرمی جوائن کر لی۔ تقسیم ہند کے بعد جب برطانوی ہند آرمی کے Equipments کو بھی دونوں ملکوں میں تقسیم کیا گیا تو انہوں نے پاکستان کا رخ کیا۔ 1951 میں پنڈی سازش کیس میں غداری کے جرم میں دوسرے ساتھیوں کے ساتھ انہیں بھی قید کر لیا گیا۔ چار سال کے بعد انہیں جب اس کیس سے رہائی ملی تو انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے لا کالج میں داخلہ لے کر ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا۔ بحیثیت وکیل آپ پریکٹس کا آغاز نہیں کر سکے کیونکہ Security Act کے تحت دوبارہ سے آپ کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ تقریباً چار ماہ قید اور کچھ جرمانے کے بعد فروری 1959 میں اپنی سزا ختم ہونے کے بعد آپ رہا تو ہو گئے لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ وکالت کے شعبے میں اپنا کیریئر نہ بنا سکے۔ ظفر صاحب کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا آدرش تھا اس لیے انہوں نے "مین ہٹن ایڈورٹائزنگ ایجنسی" میں کاپی رائٹر کے طور پر کام کا آغاز کیا۔
ظفر اللہ پوشنی صاحب گزشتہ ساٹھ سالوں سے اسی ایڈورٹائزنگ ایجنسی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ شروع کے پانچ سال کے مختصر عرصے میں ایجنسی نے انہیں Creative Director کی اہم ذمہ داری سونپ دی اور پھر اگلے 35 سال تک وہ اسی حیثیت سے اپنی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ رواں صدی کے آغاز میں انہیں "ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن" مقرر کر دیا گیا لیکن اس اہم عہدے پر فائز ہونے کے باوجود آپ ابھی تک "پروف ریڈنگ" اور "ٹرانسلیشن" میں Creative Department کی معاونت کر رہے ہیں۔ Creative Director کے طور پر انہوں نے کئی نمایاں اشتہارات اور جنگلز بھی تیار کیے جنہیں دیکھنے والوں نے بیحد سراہا تھا۔ 1980 کے اوائل میں ISPR کے اشتہار کے طور پر افواجِ پاکستان کے لئے تیار کیا گیا مشہور عسکری نغمہ ’’ہر گھڑی تیار کامران ہیں ہم، پاکستانی فوج کے جوان ہیں ہم‘‘ کے خالق بھی ظفر صاحب ہی ہیں۔ گذشتہ برس ISPR نے اس مشہور نغمے میں علی حیات رضوی کے اضافہ شدہ اشعار کے ساتھ میوزک ویڈیو کو مُلک کے مشہور پاپ سنگرز کی آواز میں ریمیک بھی کیا تھا۔
جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ "مین ہٹن ایڈورٹائزنگ ایجنسی" سے ظفر صاحب کی وابستگی کو ایک عرصہ بیت چکا ہے۔ کچھ سال پہلے غالباً 2016 میں اس ادارے میں اپنی پیدائش کے نوے سال کی سالگرہ کا کیک کاٹتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ
’’مجھے 'مین ہٹن' میں خدمات سر انجام دیتے ہوئے 57 سال ہو گئے ہیں اور اگر میری صحت نے اجازت دی تو میں چاہوں گا کہ اپنی ڈائمنڈ جوبلی بھی یہیں مناؤں"
یہاں میں اس بات کی بھی نشاندہی کرنا چاہوں گا کہ
پاکستان میں کام کرنے والی ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں میں سب سے پرانی ایڈورٹائزنگ ایجنسی "مین ہٹن انٹرنیشنل پرائیویٹ لمیٹڈ" ہی ہے۔
“