زندگی شناش فلمسٹار عرفان خان
کچھ عرصہ قبل معلوم ہوا کہ میں نیورواینڈوکرن کینسر (neuroendocrine cancer) میں مبتلا ہوں۔
میرے ذہن کی لغت میں یہ ایک بالکل نیا نام تھا۔ مزید معلوم ہوا کہ یہ بیماری ہی نایاب ہے، یعنی کم معلومات اور زیادہ خدشات اس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔۔۔
گویا میں اس 'Trial and Error' کھیل کا حصہ بن چکا تھا۔
میں تو کسی اور سمت گامزن تھا۔ ایک تیز رفتار ریل پر سوار۔۔۔ جس میں میرے پاس خوابوں، توقعات، منصوبوں، خواہشوں جیسا سامان تھا۔۔۔ لیکن اچانک ٹی سی نے پیچھے سے آکر میرا کاندھا تھپتھپا کر کہا؛
" آپ کی منزل قریب آ چکی ہے، اترنے کی تیاری کیجیے!"
میں بوکھلا سا گیا، میری سمجھ میں کچھ نہ آیا؛
"نہیں نہیں۔۔۔ ابھی میرا اسٹیشن نہیں آیا!"
"نہیں، اس ریل کا یہی اصول ہے، اگلے اسٹیشن پر ہی اترنا ہوگا!"
اور پھراسی لمحے مجھے اچانک احساس ہوا کہ ہم کسی بے وزن کارک کی طرح انجان سمندر میں بے سمت لہروں پر بہہ رہے ہیں، اس غلط فہمی میں کہ ہم ان لہروں پر مکمل اختیار رکھتے ہیں۔
اس بدحواسی، ہڑبڑاہٹ اور ڈر میں گھبراکر میں اپنے بیٹے سے کہتا ہوں؛
" میں فقط اتنا چاہتا ہوں کہ میں اس ذہنی کیفیت کو، اس ہڑبڑاہٹ، ڈر، بدحواسی کی حالت کو اپنے اوپر طاری نہ ہونے دوں۔ مجھے کسی بھی صورت میں اپنے پاؤں چاہئیں، مجھے دکھ تکلیف رنج و الم کو اپنے اعصاب پر راج نہیں کرنے دینا!"
میری تو بس یہی خواہش تھی، یہی ارادہ تھا!
کچھ ہفتوں کے بعد ہاسپٹل میں بھرتی ہو گیا۔ بے انتہا درد میرے وجود میں تھا، اس کا تو اندازہ تھا ہی لیکن اس کی شدت سے واقفیت ابھی ہوئی۔
سب کچھ بے سود رہا۔۔۔ نہ کوئی تسلی نہ دلاسہ۔۔۔ یوں کہ جیسے پوری کی پوری کائنات نے درد کا روپ دھار لیا ہو۔ درد جو اس لمحے خدا سے بھی زیادہ عظیم محسوس ہوا۔
میں ناتواں، بے کس، بیزار حالت میں جس ہسپتال میں پہنچا وہاں اسی بے پروائی کے عالم میں معلوم ہوا کہ میرے ہسپتال کے بالکل سامنے لارڈز اسٹیڈیم ہے۔ میرے بچپن کے خوابوں کا مکہ! اسی درد کے حصار میں ہی گھرے ہوئے میں نے دیکھا کہ وہاں ووین رچرڈس کا مسکراتا پوسٹر ہے جس کی جھلک میرے اندر کوئی بھی احساس پیدا نہ کر سکی۔ یوں کہ جیسے وہ دنیا کبھی میری تھی ہی نہیں، میں بالکل اس سے بے نیاز ہوں۔
اسی درد کی گرفت میں جب میں اپنے ہسپتال کی بالکنی میں کھڑا تھا تو یہ احساس ہوا۔۔۔ جیسے موت اور زندگی کے اس کھیل کے درمیان صرف ایک سڑک کا فاصلہ ہے، سڑک کے اُس پار کھیل کا میدان ہے اِس طرف ہسپتال ہے، میں ہوں کہ ان میں سے کسی ایسی چیز کا حصہ نہیں جو متعین ہونے کا دعویٰ کرے۔ نہ ہاسپٹل اور نہ اسٹیڈیم۔۔۔
دل بول اٹھا؛
"صرف بے ثباتی کو ہی ثبات ہے۔"
اسی احساس نے مجھے سپردگی اور بھروسے کے لئے تیار کیا۔ اب چاہے جو بھی نتیجہ ہو، یہ چاہے جہاں لے جائے، آج سے 8 مہینوں کے بعد، یا آج سے 4 مہینوں کے بعد، یا پھر 2 سال۔۔۔ فکر رفتہ رفتہ معدوم ہونے لگی اور پھر میرے دماغ سے جینےمرنے کا حساب نکل گیا۔
پہلی بار مجھے لفظ " آزادی" کا احساس ہوا، صحیح معنی میں! ایک کامیابی کا احساس۔
اس کائنات کا یہ سچ میں میرے یقین کو کامل کرگیا اور اس کے بعد لگا کہ وہ یقین میرے جسم کے ریشے ریشے میں بھر گیا ہے۔ وقت ہی بتائےگا کہ وہ ٹھہرتا ہے کہ نہیں! فی الحال میں یہی محسوسکر رہا ہوں۔
اس سفر میں دنیا بھر سے لوگ میرے صحت مند ہونے کی دعا کر رہے ہیں، میں جن کو جانتا ہوں اور جن کو نہیں جانتا، وہ سبھی الگ الگ جگہوں اور ٹائم زون سے میرے لئے عبادت کر رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کی دعائیں بھی مل کر ایک بڑی طاقت میں تبدیل ہوگئی ہیں۔۔۔ جو کہ تیز رفتار زندگی کی روح کی مانند میرے دھڑ سے ہوتے ہوئے سر سے پھوٹنے لگی ہے۔
یہ پھوٹھنے لگی ہے کبھی کوئی کلی بن کر، کبھی کسی پنکھڑی کی طرح، کبھی ٹہنی اور کبھی شاخ کی طرح!
میں ایک حسین اور پُرلطف احساس کے تابع انہیں دیکھتا ہوں۔ لوگوں کی نیک خواہشات، پرخلوص الفاظ سے پھوٹتی ہر ٹہنی، ہر پتی، ہر پھول میری زندگی کو حیرتوں، خوشیوں اور تجسس سے سرشار کیے جاتی ہے۔
اب احساس ہوتا ہے جیسے ضروری نہیں کہ لہروں پر تیرتے کارک کا ان پر اختیار بھی ہو!
یہ تو یوں ہے کہ جیسے آپ فطرت کی آغوش میں جھول رہے ہوں!
—–
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔