سائنس کے مطابق زندگی کی تعریف چند خصوصیات پر مبنی ہے۔ کسی بھی شے میں زندگی ہو گی اگر اس میں بڑھنے کی صلاحیت ہو، اپنی نسل بڑھانے کی صلاحیت ہو، ماحول کا اثر محسوس کرنے کے صلاحیت ہواور اس میں ایسا کیمیائی عمل کرنے کی صلاحیت جس سے خوراک کو توانائی میں تبدیل کیا جا سکے اور اس عمل سے اُسے اوپر موجود تمام خاصیتوں کو برقرار رکھنے کا عمل جاری رہ سکے۔
انسانوں سے لیکر یک خلوی جاندار سبھی زندہ شمار ہوتے ہیں۔ ایک انسان کا جسم بھی کھانا کھا کر پیچیدہ نظامِ ہضم کے عوامل سے اسے گزارتا ہے اور انسانی خلیوں کو توانائی فراہم کرتا ہے، ایک بیکٹریا بھی خوراک حاصل کر کے اسے کیمیائی طور پر توڑتا اور توانائی حاصل کرتا ہے۔ ایسے ہی ایک انسان بھی ماحول سے متاثر ہو کر اس پر ردعمل ظاہر کرتا ہے جیسے کہ اگر سردی بڑھ جائے تو آپکا جسم خون کی گردش اُن اعضا میں زیادہ کر دیتا یے جو آپکے زندہ رہنے کے لیے اہم ہیں جیسے دماغ، پھیپھڑے وغیرہ۔ اسی لیے سخت سردی میں آپکے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو سکتے ہیں۔ ایسے ہی ایک بیکٹریا بھی ماحول کی تبدیلی جیسے کہ جس سلوشن یا مائع میں وہ یے وہاں کی تیزابیت کے بدلاؤ سے اپنے اندر موجود عوامل کو تیز یا آہستہ کر سکتا ہے۔ ایک انسان بھی بچے جن کر اپنی نسل اور جینز اگلی نسلوں کو منتقل کرتا ہے، ایک بیکٹیریا بھی خود کو تقسیم کر کے اپنی نسل بڑھاتا یے۔ ایسے ہی انسان بھی بچپن میں چھوٹا اور بعد کی عمر میں بڑا ہوتا ہے۔ایسے ہی بیکٹریا بھی اپنا سائز کچھ نہ کچھ بڑھاتا ہے اور پھر تقسیم ہو جاتا یے۔
زمین پر زندگی کی کڑی ایک ہے۔ماخذ ایک ہے۔ آپ کو تمام جاندار میں انسانوں جیسی خصوصیات ملیں گی۔ بکری سے لیکر گائے تک تمام جانوروں میں ویسے ہی اعضا اور ان اعضا کا ویسا کی مقصد ملے گا جو انسانوں میں ملتا ہے۔ بکری کا بھی دماغ اسکے جسم کو کنٹرول کرتا ہے، گائے کا دل بھی خون کی گردش کے لیے دھڑکتا ہے اور اونت کا معدہ بھی خوراک ہضم کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہی سب انسانں میں بھی ہوتا ہے۔ ایسا تو نہیں کہ اپکا دل خون کی ھردش کرتا ہو اور بکری کا دل جسم کنٹرول کرتا ہو۔ تو ایسا کیوں ہے؟ اسکی کیا وجہ ہے؟ اگر آپ ارتقاء کے عمل سے وجود میں نہیں آئے تو اپکے یہ تما۔۔اعضا ویسے اور اسی طرح سے کام کیوں کرتے ہیں جسیے دیگر جانوروں کے؟
تما۔ جاندار اس زمین پر بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اور خود کو ماحول کے مطابق بدل کر اس جنگ کو جیتنے کی کوشش میں ہیں۔ انسانی نے بھی ایجادات اسی طور بنائی ہیں۔ گرمی لگے گی تو اے سی آن کر دیا، پیاروں کی یاد ستائی تو فون ایجاد کر لیا ۔ سردی لگی تو ہیٹر، بھوک لگی تو چولہے، محفوظ ہونا ہوا تو گھر بنا لیے۔
چونکہ انسانوں کی زندگی محدود ہے یعنی اوسط عمر 70 سے 74 برس کے درمیان تو ہم انسانی جسم میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو نسل در ظاہری آنکھ سے دیکھ نہیں پاتے۔ مگر بیکٹریا چونکہ بہت جلدی ایک سے دو ، دو سے چار اور چار سے آٹھ میں تقسیم ہوتا ہے اور دنوں میں کئی بلین بیکٹریا ایک بیکٹریا سے بن جاتے ہیں لہذا ان کا تجزیہ کر کے سائنسدان ان پر مختلف ادویات کا اثر اور ماحول کا اثر جان کر ادویات ، ارتقاء اور ارتقاء کے اُصولوں کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ آج دنیا میں لاکھوں لیبارٹروں میں ہزاروں سائنسدان بیکٹریاز اور ارتقاء کے عوامل کو سمجھ رہے ہیں۔ اس سے کئی نئی طرح کی ادویات بن رہی ہیں جو انسانوں کو بیماریوں سے بچاتی ہیں جیسے کہ اینٹی بائیٹکس جو آپ میں سے کم و بیش ہر کسی نے کبھی نہ کبھی استعمال کی ہونگی۔
ایسے ہی انسانوں سے مماثلت رکھنے کے باعث دیگر جانوروں پر بھی ابتدائی ادویات اور سرجری کے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ انہیں پری کلیکنکل ٹرائلز کہتے ہیں۔ انکا مقصد انسانوں کے لیے بنائی جانے والی ادویات کو محفوظ بنانا ہے۔ ان ادویات کا اثر ان جانوروں پر کیا جاتا ہے جیسے کہ چوہے جو کہ ممالیہ جانور ہیں ویسے ہی جیسے انسان۔ اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے؟ کہ گرم خون رکھنے والے ممالیہ جانوروں پر دوائی کتنا اور کیا اثر کرے گی۔ ایسے ہی آج ہم جدید لیبارٹریوں میں جانوروں پر تجربات کر کے بنائی جانے والی ادویات سے عمر میں اضافے پر کام دیکھتے ہیں۔یہ اینٹی ایجنگ کی فیلد ہے۔
سو انسانوں اور جانوروں میں فرق محض عقل کا ہے۔ انسانی عقل قدرت کا تحفہ ہے جسے ہم جتنا استعمال کریں گے اتنا ہی دنیا اور کائنات کا تصرف حاصل کر سکیں گے۔ جدید دنیا میں وہ اقوام کو عقل کی کسوٹی پر معاشروں کے مسائل سلجھاتی ہیں، ترقی کی راہوں پر اور انسانوں کی فلاح و بہبود کے سفر پر گامزن ہیں۔ آج آپکے ہاتھ میں ایک سمارٹ فون ہے کل آپکے پاس بٹن والا موبائل تھا۔ اس سےمءض دو دہائیاں پیچھے جائیں تو ڈائل والا لینڈ لائن فون۔ دنیا جس تیزی سے بدل رہی ہے اس تیزی سے اگر ہم زمانے کے ساتھ نہیں چلیں گےاور ماضی کی روایات اور تصورات میں اُلجھے رہیں گے تو راستہ معدوم ہوتا جائے گا بلکہ ہو رہا ہے۔
باقی آپ خود کو احمقوں کی جنت میں رکھنے پر مُصر ہیں کہ باہر کے ممالک میں خاندانی نظام نہیں یا سکون نہیں تو یہ بلی کو خواب میں چھیچھڑے والی بات یے۔ آپ خود بجلی ک بل ڈبل آنے سے بلڈ پریشر کے مریض بن جاتے ہیں تو آپکا سکوں کہاں غارت ہو جاتا ہے؟ کیا اُس وقت آپکو یہ تمام فلسفیانہ باتیں یاد رہتی ہیں۔ آپکے بچوں کی تعلیم ، آپکے گھر کا کھانا ، آپکی صحت یہ سب پیسے سے آتی ہیں۔ اور پیسہ کہاں سے آتا ہے؟ مادی ترقی سے، نت نئی ایجادات سے، تحقیق سے۔ جو قومیں امیر ہیں انکے پاس پیسہ ہے تو وہ یہ تمام مسائل حل کر رہیں ہیں جبکہ ہم اب تک روٹی کپڑا مکان کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے ہیں۔ مادی ترقی سے ذہنی سکون ملتا ہے کیونکہ اس سے جسمانی سکون ملتا ہے اور ہم اس دنیا میں رہتے اور یہیں کے مسائل سے روز مرہ نپٹتے ہیں۔ وہ جو آپکے اوپر ہیں آپکو افیم کی گولیاں چٹا کر صبر کرواتے ہیں اور آپ دہائیوں سے یہ گولیاں چاٹ کر اپنی ہی بھوک، افلاس ، غربت اور جہالت کی حفاظت خود کر رہے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...