زندگی صحرا
از سبیغ ضو(عظمی اختیار)
کراچی
بینر: مایا مریم (کراچی)
شام کے ساۓ گہرے ھورھے تھے..تمام پنچھی جلد از جلد اپنے ٹھکانوں پر پُہنچنے کے لیے بے تاب تھے.مگر ایک کوئل اپنے آشیانے کی پرواه کیے بغیر بڑھتے اندھیرے سے بے نیاز اسکے صحن میں لگے برگد کے پیڑ پر بیٹھی اسکے غم کی شریک بنی مسلسل اداس گیت کوک رھی تھی…اور وه کوئل کی پرسوز آواز میں کھوئی اپنے درد کا حساب اپنی ذات سے لے رھی تھی…..ساتھ ساتھ تیز ھوا کا چلنا……پت جھڑ کے موسم میں سوکھے پتے ایک ایک کر کےاس کے آنگن میں گرتے تو ان پتوں کی سس ، سس ، کی آواز میں اسے اپنی سسکاری سنائی دیتی ۔
مگر درد تھا بھی ایسا کہ جس کی کوئی دوا نا ھو…اور اس کے دکھ کا درماں تو کہیں تھا ہی نھیں….
ہر طرف اب اندھیرے کا راج تھا ۔ کوئل بھی تھک کر خاموش ھوگئی تھی…مگر پتوں کا گرنا اور اپنی بے وقعتی پر ماتم جاری تھا۔…جیسے تیز ھوا سائیں کرکے چلتی…سوکھے پتے یکلخت اس شجر سے علیحده ھوجاتے, جس نے اپنی بساط تک انھیں کبھی سبز ھی رکھا تھا….
کچھ زمین بوس ھوکر چرمراجاتے.کچھ ھوا میں ڈولتے پھرتے… آخر کار انکا مقدر بھی پیروں میں آکر سسکاری سی بھر کر اپنی شناخت کو کھونا ھی تھا….
وه کافی دیر تک یه تماشه دیکھتے ھوۓ اپنی زندگی کا مقابله سوکھے پتوں سے کرتی رھی….آخر کار تھک کر چارپائی پر لیٹ گئی….اوپر آسمان کی گود تاروں سے بھری ھوئی تھی..وه جگ مگ کرتے آسماں کو دیکھنے لگی…ایسے ماحول میں اپنے دل کو سنبھالنا اس کے لیے بُہت مشکل ھوتا.اپنی ذات کا ادھورا پن اسے کسی پل چین نہیں لینے دیتا تھا…..
سندھ کے کنارے آباد یه چھوٹی سی بستی صحرا کے قریب ھی پڑتی تھی…
ایک عرصه گزرنے کے بعد بھی اس بستی میں کچھ تو نھیں بدلا تھا.ویسی ھی جھونپڑیاں…وه ھی تنکوں سے بنی دیواریں اور ان ھی تنکوں اور گھاس پھوس سے بنی کمزور سی چھت….جو بارش کے دنوں میں ھر طرف سے ٹپکتی رھتی.مگر تب بھی وھاں کے لوگوں کے لیے بارش رحمت تھی.
اسکی ایک ھی غگسار تھی..مائی تاجاں….
جانے مائی تاجاں سے اسکا کیا رشته تھا مگر ان کی تمام محبت صرف سانولی ، یعنی اس کے لئےتھی…وه سانولی کو بیٹی کی طرح چاھتی اور ھر وقت اس کا خیال رکھتی…
ان کی محبتوں کے باوجود سانولی کی وحشت ختم ھونے کا نام نہ لیتی…مائی تاجاں اسے یوں خود سے بیزار دیکھتی تو دھل جاتی.
انھیں بھی معلوم تھا که اتنا عرصه گزرنے کے باوجود سانولی اپنی زندگی سے سمجھوته نہیں کرپائی تھی ۔
سانولی کون تھی؟
یه تو اپنے نام کی متضاد گوری چٹی سانولی بھی نھیں جانتی تھی که وه تھی کون ۔
بس اسے لگتا جیسے وه جلتا ھوا ایسا دیا ھے جو ھوا کے تھپیڑوں سے خود کو بچا نھیں پاتا….اور ظالم ھوا اس سے جینے کا حق چھین لینا چاھتی ھو……
جب دل کا درد حد سے بڑھ جاتا تو پھر وه بُلھے شاه کے اشعار اس سوز میں پڑھتی که پتھر دلوں کو بھی رُلا دیتی۔مگر سماجی بے حسی کا کیا کیجیے…که لوگ اس کی اس کیفیت کا شدت سے انتظار کرتے..
اکثر وه بستی کے قریب صحرا میں ننگے پیر بھاگتی نظر آتی..سورج کی تپش سے جلتے صحرا میں برھنه پا وه اس وقت تک دوڑتی رھتی جب تک پاؤں میں آبلے نا نہ بن جاتے….وه اپنی ھر سانس کو درد کا خراج دیا کرتی تھی.
مہینے میں ایک بار لوگ اسے بستی سے کافی دور ایک بازار میں بے چینی سے ٹہلتے ھوۓ دیکھتے.
مہینے میں ایک دن ایسا ضرور آتا تھا جب وه بڑی سی کالی چادر اوڑھے اس بازار میں سجاول کی دکان کے آس پاس ٹہلتی نظر آتی.
سجاول جوکه یه نہیں جانتا تھا که سانولی کون ھے, اس کی غلافی آنکھوں کا اسیر تھا.
سجاول نے کئی بار سانولی کو اپنی جانب متوجه کرنے کی کوشش کی مگر وُہ نہ جانے کن خلاؤں میں گم رھتی تھی.بہرحال سجاول یه ضرور جانتا تھا که وه اس کم عمر لڑکے کو دیکھنے کے لیے اسکی دکان کا چکر لگاتی ھے, جو ھر ماه اس کی دکان میں مہینے بھر کا راشن لینے آتا تھا.
وه لڑکا سجاول کی دکان میں جیسے ھی داخل ھوتا، سانولی کی آنکھیں چمکنے لگتیں….لیکن وه قریب ھونے کے بجاۓ زرا اور دور کھڑی ھوجاتی…بڑی سی کالی چادر میں منه کو چھپاۓ مسلسل اسے دیکھتی رھتی.یہاں تک که وُہ مہینے بھر کا راشن خرید کر کسی تانگے میں ڈالتا اور واپس مڑجاتا..
سجاول جو ھر ماه کی تین تاریخ کو یه منظر دیکھتا تھا, کبھی اس اسرار کو سمجھ نھیں پایا ، نہ اس کی ہمت ہُوئی که سانولی ہی سے کوئی سوال کر لے…سانولی بظاھر سپاٹ چہرہ لیے اس کی دکان سے مڑتی مگر اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں مچلتا سمندر اسے بھی بےچین کردیتا…یه گم سم سی لڑکی کبھی کبھی سجاول کے حواس پر چھانے لگتی….ان نین کٹوروں کا آنسوؤں سے بھرجانا. …
اور پھر ان موتیوں کو بے مول ھونے سے بچانے کے لیے وه اپنی سیاه گھنیری پلکوں کو بار بار جھپکتی اور پھر تیزی سے اس کی دکان سے مڑ جاتی..سجاول کو اب سانولی سے ایک لازوال سی محبت کا وہم ھونے لگا تھا…
سجاول اسے جاننے کی جستجو میں رھتا مگر اسے وه بُہت پراسرار لگتی…..کہاں سے آتی کہاں جاتی…اب تک وه سانولی کے بارے میں کچھ نہیں جان پایا تھا.
اور سانولی….وُہ تو خود بھی اپنےپیدا ہونے کا مقصد جاننے کی کوششوں میں مگن تھی.مگر ھر بار زندگی کے رخسار پر اس سوال کی الجھی ھوئی لٹ لہرانے لگتی که وه کیوں پیدا ھوئی….
وقت کا پرنده یُونہی بے مقصد محو پرواز تھا که ایک دن انہونی بیت گئی .
____________________________
اس دفعه جب سانولی اس لڑکے کے انتظار میں سجاول کی دکان پر کھڑی اس کے جذبات سے بے خبر یونہی بے مصرف چیزوں کی قیمت پوچھ رھی تھی که وه لڑکا آگیا.
سانولی چونکی…..پھر بری طرح چونکی..اس لڑکے کے ساتھ آج ایک لڑکی بھی تھی.سانولی سجاول کو پہلے سے کچھ ذیاده مضطرب نظر آئی..اس کا جسم ھولے ھولے کانپ رھا تھا…وه خود کو سنبھالنے سمیٹنے کی کوششوں میں تھی….اچانک اس لڑکی کی نظر بھی سانولی پر پڑی..اچانک سجاول کو وه بھی کچھ سراسیمه سی لگی…چہرے پر شناسائی کی چمک…پھر وحشت…..ادھر سانولی شائد اپنا ضبط کھوچکی تھی,سسکتے ھوۓ اس لڑکی سے لپٹ گئی..لڑکا چونکا….کچھ غور سے سانولی کو دیکھا…دوباره دیکھا..یکلخت اس کے چںھرے کا زاویه بگڑا…..پھر اپنے ساتھ آئی لڑکی کو کھینچنے لگا…
"چلو…فورا چلو"
وه اپنے ساتھ آئی لڑکی کو اب گھسیٹنے لگا تھا..
"بھائی…بھائی"
سانولی سسکنے لگی تھی.ساتھ آئی لڑکی رونے کے باوجود سانولی سے جان چھڑاتی محسوس ھوئی…سانولی مسلسل روتی بلکتی اس سے لپٹی جاتی اور اس کے ماتھے , گالوں پر…ھاتھ پر بے قراری سے پیار کرتی جاتی..وه لڑکی بار بار سانولی کو خود سے جدا کرتی….
سانولی نے جیسے لڑکے کی طرف بڑھنے کی کوشش کی…وه یوں پیچھے ھٹا جیسے کسی کو سووالٹ کا کرنٹ لگ جاۓ…
وه لوگ سانولی کو یوں دھتکار رھے تھے جیسے وه اچھُوت ھو….
"کیوں…..کیا میں تیری ماں جائی نھیں"
سانولی ہذیانیانداز میں چیخی ۔
مگر وه دونوں یوں بھاگ پڑے تھے جیسے سانولی کوئی آسیب ھے..
سانولی نے ان کے پیچھے بھاگنے کی کوشش کی مگر سامنے پڑے ایک پتھر سے ٹھوکر کھاکر لڑکھڑا گئی…انگوٹھے سے خون رسنے لگا تھا…سانولی نے آسمان کی طرف عجیب درد بھری نظروں سے دیکھا…
سجاول اسے مخاطب کرنے سے اب خود کو روک نھیں پایا تھا…
"کون ھو تم انکی…" سجاول کے اس سوال پر سانولی نے وحشت بھری نظروں سے ادھر دیکھا….پھر زخمی انگوٹھے کی پرواه کیے بغیر بھاگ کھڑی ھوئی_________________
وه بھاگتے بھاگتے آج پھر صحرا کی طرف نکل آئی تھی…آج وه پھر آگ جیسی دھوپ میں اپنا وجود جلانا چاھتی تھی….مگر نھیں معلوم تھا که آج زیست کی قید سے روح کو آذادی ھی مل جاۓ گی__________
وه بغیر رکے صحرا کی گرم ریت پر ننگے پاؤں دوڑتی جاتی تھی….بھاگتے بھاگتے وه اچانک جلتی ریت میں اوندھے منه گرپڑی…یکدم مٹی کا طوفان سا اٹھا, جو اُس کے اوپر مٹی کی تہہ چڑھاگیا….ناک ,کان , منه میں گرم ریت گھسنے لگی….
صحرا کی ھوا…. مٹی کا طوفان…..ریت اڑ اڑ کر اسے گہری چادر اوڑھاۓ جارھی تھی…اور دور دور تک کوئی نہ تھا….
آخر کار وه ریت کی چادر اوڑھ کر صحرا کی گود میں کسی ننھے بچے
کی طرح سماگئی…..اور کچھ ھی لمحوں میں زیست کو خیر باد کہہ دیا__________________
اگلے دن ھوا پھر چلی تھی اور سانولی کی لاش لوگوں کے سامنے تھی…پوری بستی میں یکدم شور اٹھا تھا…, صحرا میں بلاوجه بھاگنے والی دیوانی کو آخر کار صحرا نے نگل ھی لیا تھا.. سب لاش کے اردگرد جمع تھے…مائی تاجاں بھی دھڑکتے دل کے ساتھ اندیشوں کو بار بار جھٹکتی جلتے صحرا میں پںھنچ ھی گئی….
قریب آکر جو اپنے اندیشوں کو حقیقت کے روپ میں دیکھا تو دل تھام کر بیٹھ گئی….زاروزار روتے ھوۓ سینے پر دوھتھڑ مارا اور سانولی کی میت کا نوحه پڑھتے پڑھتے اس کی زندگی کے المیے پر بھی بین کرتی چلی گئی.. مائی تاجاں کے بین سے لوگوں پر انکشاف ھوا که سانولی کا شمار تو ان میں ھوتا ھی نھیں…وه تو تیسری جنس ھے..جس کا کوئی مہذب نام نھیں…جس کا ھر نام گالی ھے…..وه خواجه سرا ھے…..جسے گھر والوں نے بھی دھتکار دیا که اس کا وجود ان خون کے رشتوں کے لیے بھی ناقابل برداشت تھا که وه ان کی طرح شناخت نھیں رکھتی تھی..,
یه سننا تھا که لوگوں کا ہجُوم چھٹنے لگا….محبت کا وہمی سجاول نفرت سے بھاگنے والوں میں سب سے آگے تھا…اب نہ کوئی لاش کو اٹھاکر لے جانے والا تھا نا غسل دینے والا , نہ کفن دفن کرنے والا….سانولی کی لاش کھلے آسمان کے نیچے یوں پڑی تھی جیسے اپنے سوھنے رب سے کہہ رھی ھو..
" نا میں پتر ,نا میں دھی آں
نا میں دھرتی, نا میں بی آں
ربا میں وی تیرا جی آں….
تو اے مینو دس میں کی آں.!!
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1741011499498883/