زندگی پارٹ ٹو ۔۔۔۔
گزشتہ روز سائیں بابا زندگی کے بارے میں بات کرتے کرتے رک گئے،اور پھر کسی اور سے ملنے چلے گئے تھے ۔سائیں بابا نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ زندگی کے معانی و مقصد کے حوالے سے دوبارہ بات کریں گے ۔آج صبح سائیں بابا سے پھر ملاقات ہو گئی ۔سائیں بابا تو خوش دیکھائی دیئے ،لیکن میں اداس تھا ۔بابا نے کہا شبیر میاں اداس کیوں ہو ،پریشان مت ہو،وہ مل جائے گی،کہیں نہیں گئی ادھر ہی ہے ،میرے اور تمہارے ساتھ ،یہ دیکھو وہ تمہیں اداس دیکھ کر پریشان ہورہی ہے،مسکراؤتاکہ وہ بھی شرارتی ہنسی ہنس دے۔ اور ماحول خوشگوار ہوجائے ۔سائیں بابا کی اس بات پر میں مسکراپڑا ،بابا نے ایک بنچ کی طرف اشارہ کیا ،دیکھو ،وہ مسکرارہی ہے ۔سائیں بابا کی اس بات پر میرا قہقہہ پھربلند ہوا ۔میں نے کہا بابا ،آپ بھی کمال کرتے ہیں ۔بابابھی مسکرائے اور کہا ،اچھا زندگی کے معانی و مقصد کے حوالے سے کچھ مزید باتیں کرتے ہیں ،شاید گزشتہ روز کی بات چیت ادھوری رہ گئی تھی ۔میں نے پوچھا بابا اصل میں ہو کیا رہا ہے؟کیا یاد رکھا جائے اورکیا چیز ہے جسے بھلا دیا جائے؟بابا نے کہا ،تم انسان بھی کمال ہو ،دانشوروں اور فلسفیوں کی باتیں یاد رکھتے ہو ،فلاں دانشور اور فلسفی نے یہ کہا تھا اور فلاں نے یہ ۔لیکن تم انسانوں کویہ معلوم نہیں کہ تم کیا ہو؟ اپنی بات کرنے سے گھبراتے ہو ۔جب تک خود کچھ نہیں بولو گے ،زندگی کے معانی و مقصد کو کیسے پا سکتے ہو ؟دوسروں کے علم و فکر اور نظریات و خیالات کو دفع کرو ،خود زیادہ بہتر انداز میں تخلیقی بات کرنے کی کوشش کرو ،کوئی نیاتخلیقی خیال سامنے لاؤ۔یہ جو تمہارا دماغ ہے اس میں دوسروں کے خیالات و نظریات جمع ہیں ۔ان کا اجتماع ہے،ہر وقت تم انسانوں کے دماغوں میں بڑے بڑے پیشواؤں کا جلسہ ہورہا ہوتا ہے ۔یہ بند کرو۔یہ جو سب نظریاتی فلاسفر تھے یہ غیر تخلیقی تھے ،ان کو تخلیق کی کیا ضرورت ،یہ تو بس تم انسانوں کو غلام بنانے کے لئے نام نہاد علم و فکر کی ڈرامہ بازی کرتے تھے ۔یہ سب ٹوپی ڈرامہ تھا اور تم انسان ابھی تک اس ٹوپی ڈرامے کا ھصہ ہو ۔میں نے کہا بابا ہمارا اصل میں مسئلہ کیا ہے؟بابا نے کہا ،آج کے انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ صرف تماشائی کی حد تک محدود ہو کر رہ گیا ہے ۔یہ انسان اخبار پڑھتا ہے،کتابیں پڑھتا ہے،فلم دیکھتا ہے،کرکٹ اور فٹبال میچ کا تماشائی ہے ۔ٹی وی کا تماشائی ہے ۔آج کا انسان صرف تماشائی بنکر رہ گیا ہے ۔وہ 24 گھنٹے تماشائی رہتا ہے۔یہ انسان بے حرکت اور تاثرات سے عاری ہے ۔ وہ صرف دیکھ رہا ہے ۔تماشائی کبھی بھی زندگی کے معانی و مقصد کو نہیں جان سکتا ۔محبت محبت کرتے ہو ،لیکن صرف محبت کو دیکھتے رہتے ہو ،محبت کرتے نہیں ہو ،یہی انسان اور انسانیت کا سب سے بڑا ایشو ہے۔ہر انسان کو کھیل کا حصہ بننا ہوگا ،دنیا و محبت کے کھیل میں ملوث ہونا ہوگا ،تب ہی زندگی کے معانی و مقصد کو جانا جاسکتا ہے ۔حصہ دار بنو ،شریک ہو جاؤ،شامل ہو جاؤ،زندگی کے کھیل میں ۔اس کے لئے کوئی بھی رسک لینا پڑے لے لو ۔میں نے کہا بابا وہ کیسے ؟بابا نے کہا ،بھیا اگر انسان رقص کو جاننا چاہتا ہے ،تو اسے ڈانس یا رقص کرنا بھی چاہیئے ۔رقص کرنا سیکھو ۔اگر کچھ جاننا ہے تو اس میں شامل ہو جاؤ،یہی سچ ہے زندگی کا اور یہی زندگی کو جاننے کا بہترین انداز اور طریقہ کار بھی ہے ۔زندگی کا ایک مقصد نہیں ہوتا ،اس کے ہزاروں لاکھوں مقاصد و معانی ہیں ۔ایک انسان صحافی بن جاتا ہے ،یا ڈاکٹر یا انجئینر بن جاتا ہے ،اب بن گیا تو پھر وہ سوچتا ہے اب یہی اس کا کام ہے اور یہی اس کی شناخت بن جاتی ہے ۔پھر ساری زندگی وہ اسی شناخت کے ساتھ رہتا ہے یہاں تک کہ ایک دن وہ مرجاتا ہے ۔لیکن اس دنیا میں کروڑوں کام تھے ۔وہ کارڈز بھی کھیل سکتا تھا ،وہ وائلن بھی بجاسکتا تھا ،وہ نغمے بھی گاسکتا تھا ۔ایک زندگی میں بہت سارے کام ممکن ہیں ۔فوٹو گرافی کرو چاہے آتی ہے یا نہیں ۔شاعری کرو چاہے کتنے ہی بدزوق کیوں نہیں ہو؟جو انسان زندگی میں صرف ایک ٹریک پر چلتا رہتا ہے وہ بور ہوجاتا ہے ۔تھک جاتا ہے ۔پھر وہ صرف زندگی گزارتا ہے زندگی کو انجوائے نہیں کرتا ۔پھر شاید وہ موت کا انتظار کرتا رہتا ہے ۔ایسے انسان کو کیسے زندگی کے معانی و مقصد کا پتہ چل سکتا ہے؟انسان کو زندگی میں بہت ساری دلچسپیاں اختیار کرنی چاہیئے۔ہمیشہ مرتے دم تک بزنس میں رہنے کا کیا مقصد؟بزنس مین کو کھیلنا بھی چاہیئے ،ہنسنا بھی چاہیئے اور پاگل پن کا مظاہرہ بھی کرنا چاہیئے ۔صرف صحافی رہو گے تو بور رہو گے ۔بہت ساری چیزیں کرو تاکہ رنگینی اور دلکشی رہے ۔سقراط جیل میں موت کا انتظار کررہا تھا ،اس کے دل میں اچانک خیال آیا ،جیل کی قید میں اس نے شاعری کی ،نغمے گائے ،موت کے وقت موسیقی اور شاعری اس کے ساتھ ساتھ تھی ۔سقراط نے کہا تھا ،جتنا وہ جیل میں خوش ہے ،ایسے پہلے کبھی نہ تھا ۔وہ کہتا تھا یہ لاجک جس کے لئے اس نے زندگی ضائع کردی ،وہ سب اہم نہ تھا ۔اسے شاعری اور موسیقی بھی کرنی چاہیئے تھی ۔سقراط کہتا تھا وہ ساری زندگی بحث و مباحثے میں الجھا رہا ۔جیل میں اکثر وہ بانسری بجایا کرتا تھا ۔وہ کہتا تھا کہ جب وہ بانسری بجاتا ہے اور جو آواز نکلتی ہے وہ اسے عظیم خوشی سے نوازتی ہے ۔وہ کہتا تھا میں نے کیوں پہلے بانسی نہیں بجائی ۔سقراط کے شاگرد کہا کرتے تھے کہ وہ پاگل ہوگیا ہے ،اتنا بڑا فلسفی بانسری بجاتا ہے ۔لیکن سقراط خوش تھا ۔وہ کہتا تھا اب وہ خود ہے ۔اب وہ اہم ہے اپنے لئے ۔سقراط نے کہا تھا کہ انسان کو کبھی ایک معقول انسان نہیں رہنا چاہیئے ۔صرف عقل وال اور پروفیشنل بنکر نہیں رہنا چاہیئے ۔وہ کہتا تھا کہ انسان اپنی زندگی کو یہ اجازت نہ دے کہ وہ صرف روائیتی،رسمی بنکر رہ جائے ۔ایسے لمحات بھی زندگی میں ہوں جنکی کوئی وضاحت نہ ہو ۔ایسے پراسرار لمحات ہی زندگی کا مقصد ہیں ۔زندگی کسی وجہ سے نہیں گزارنی چاہیئے بلکہ بغیر کسی وجہ کے زندگی کو انجوائے کرنا چاہیئے ۔میں نے کہا بابا پھر مجھے کیا کرنا چاہیئے؟بابا نے کہا ،بھیا وہ جس کے لئے اداس ہو ،اسے ہنساؤ،اس کے ساتھ محبت بھرا رقص کرو،محبت ہو گئی ہے تو اب اس کو انجوائے کرو ،اس کا حصہ بن جاؤ۔اگر ایسا کرتے ہو اور لوگ کہتے ہیں یہ بے وقوف ہے اور پاگل ہے تو اس کی پرواہ مت کرو ۔وہ بھی کیا انسان ہے جو ہمیشہ سو فیصد ہوشمند رہے ،کبھی بہک بھی جانا چاہیئے ،کبھی مستی اور سرور میں بھی رہنا چاہیئے اور کبھی نشے میں پاگل بھی ہوجانا چاہیئے ۔سو فیصد ہوش مند رہنے والا انسان زندہ نہیں مرا ہوا ہوتا ہے ،وہ روبوٹ ہوتا ہے۔جاؤ اور پاگل پن کا مظاہرہ کرو ۔بابا کی باتیں بڑی دلچسپ تھی ۔میں نے کہا اور کچھ بابا ،بابا نے کہا میں تو پاگل پن کا مظاہرہ کرنے جارہا ہوں ،اب تم بھی اٹھو اور جاؤ اس بنچ کی طرف جہاں وہ تمہارا انتظار کررہی ہے ۔میں نے سامنے کچھ دور دیکھا تو وہ بنچ پر بیٹھی مسکرارہی تھی اور ہاتھ کے اشاروں سے مجھے بلا رہی تھی۔اچانک بابا اٹھ کر چلے گئے اور میں اس کی طرف اٹھ کر چل پڑا ۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔