جب بھی آپ کسی نئے شادی شدہ دوست سے ملیں گے اور وہ اتفاق سے آپ کے قریبی دوستوں میں بھی شامل ہو گا تو عموماً اس قسم کا ایک ڈائیلاگ ضرور سننے کو ملے گا ”یار میں نے اس سے اپنی ساری باتیں شئیر کر لی ہیں، اب میں بہت لائٹ فیل کر رہا ہوں‘‘۔ ضروری نہیں ہے کہ مرد ہی ایسا کرے، خواتین بھی اس قسم کی فیلنگ کا شکار ہو سکتی ہیں۔ یہ اصل میں ہمارے بچپن والی وہ سوچ ہوتی ہے کہ دوست سے کچھ نہیں چھپانا۔ کیوں نہیں چھپانا، اس کی لاجک کوئی نہیں ہے، بس یارباشی کے سنہرے اصولوں والی کتاب میں لکھا ہے کہ دوستوں کو سب کچھ بتا دو اور ہاتھ پیر کٹوا کے بیٹھ جاؤ۔ نیا شادی شدہ جوڑا عموماً اتنا پرجوش، پرخلوص اور بے وقوف ہوتا ہے کہ وہ باہمی رضامندی سے ایک دوسرے کو دوست سمجھتے ہوئے یہ حرکت کرتا ہے اور بعد میں طرفین ٹاپتے پھرتے ہیں۔
ہمیں بچپن سے پرسنل سپیس نامی جانور کے بارے میں کبھی بتایا ہی نہیں جاتا۔ نہ ہمارے پاس اس قسم کا کھلونا رکھنے کی گنجائش ہوتی ہے لیکن‘ مہذب دنیا میں بہرحال پرسنل سپیس اور ڈسٹنس ایسی چیزیں ہیں جن کا علم ہونا اور جنہیں اپنا حق سمجھنا انسان کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ جب آپ تمام ایسی باتیں کہہ چکتے ہیں جو کہنے والی نہیں تھیں اور وہ بھی کہ جو کہنے میں ہرج نہیں تھا تو اس کے بعد جو نقصان سب سے پہلے ہوتا ہے وہ آپ کے ڈسٹنس کا ختم ہو جانا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اگلا شکار آپ کا پرسنل سپیس ہوتا ہے۔
پروکسیمکس وہ علم ہے جس میں سائنسی طور پہ باقاعدہ‘ پرسنل سپیس اور دوسرے انسانی رجحانات زیربحث لائے جاتے ہیں۔ یہ بتاتا ہے کہ پرسنل سپیس وہ ایریا ہوتا ہے جو کوئی بھی انسان ذہنی طور پہ اپنے آس پاس کی جگہ کو سمجھتا ہے۔ جیسے میں اگر گاڑی کی فرنٹ سیٹ پہ بیٹھا ہوں تو میں چاہوں گا کہ میری گود میں کوئی بچہ نہ ٹھونسا جائے، یا میرے ساتھ کوئی اور بندہ نہ چپک کے بیٹھے، تو وہ میرا پرسنل سپیس ہو گا۔ ایسے ہی دماغی طور پہ کچھ چیزیں ایسی ہوں گی جن کے بارے میں بات کرنا مجھے پسند نہیں ہوگا، وہ کچھ بھی ہو سکتی ہیں۔ عموماً کسی سے بہت ذاتی سوالات کرنا بھی پرسنل سپیس میں دراندازی والی بات ہوتی ہے۔ وہ جو ہمارے یہاں پوچھتے ہیں ”آپ کی شادی ہو گئی؟ کتنے بچے ہیں؟ آپ کے شوہر کیا کرتے ہیں؟ ہائے بچہ کیوں نہیں ہوا؟‘‘ تو یہ‘ اور ایسے بہت سے سوال پرسنل سپیس توڑنے والے راکٹ کہلائے جا سکتے ہیں۔ پروکسیمکس ہمیں سمجھاتا ہے کہ اگر کسی انسان کی پرسنل سپیس ڈسٹرب کی جائے گا تو اسے بے آرامی، پریشانی، ناراضی، غصہ… کچھ بھی آسکتا ہے، یا پھر یہ سب چیزیں اکٹھی بھی ہو سکتی ہیں اور ایسا مسلسل ہو تو اچھا بھلا آدمی نفسیاتی مریض بن سکتا ہے۔
عموماً دوست یار یا میاں بیوی ایک دوسرے کی پرسنل سپیس کا تیا پانچہ یہ سوچتے ہوئے کرتے ہیں کہ میں چونکہ اس بندے کے سب راز جانتا ہوں/جانتی ہوں‘ اس لیے مجھے حق ہے کہ میں اس کے ہر مسئلے کا غبارہ اپنی ناک سے پھوڑوں۔ کیا کوئی انسان، کسی وقت بھی، کہیں بھی، بلاشرکت غیرے، کچھ سوچنے کا حق نہیں رکھ سکتا؟ کیا اس پہ فرض ہے کہ وہ اپنا دکھ، درد، خوشی، راز، تکلیف یا آئیڈیا کسی دوسرے کو ضرور بتائے؟ کیا اسے کچھ دیر کے لیے اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا؟ تو بس یہ تین سوال جس وقت جھلّا کے انسان اپنے آپ سے کرے گا، وہ انڈیکیٹر ہوگا کہ بابو، اب پرسنل سپیس برابر چاہیے۔ اب جھلاہٹ بڑھ رہی ہے، سکون کی تلاش ہے اور وہ اکیلے بیٹھ کے ہی ملے گا۔
ٹرین، بس یا جہاز کے سفر میں بھی یہ حرکت بہت ہوتی ہے۔ ”جی آپ کہاں جا رہے ہیں؟‘‘ سے شروع ہونے والی گفتگو پڑوسیوں کے بچوں کی شکایتوں پہ ختم ہوتی ہے۔ کبھی ساتھ والا جواب نہ دے تو وہ اکھڑ، بدمزاج، مغرور اور نجانے کیا کیا کہلاتا ہے۔ بھائی، کیا ضروری ہے کہ وہ بھی اسی ریلیکس حالت میں ہو جس میں آپ سفر کر رہے ہیں؟ تو اس کی سپیس برقرار رکھنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔ اوّل تو بات کرنے کی ضرورت نہیں، اگر کیجئے بھی تو مختصر جواب سننے پر منہ نہ بنائیں، بس کوئی بھی دوسرا کام پکڑ لیں اور سمجھ جائیں کہ سامنے والا اپنا فاصلہ مینٹین رکھنا چاہتا ہے۔
یہ مسئلہ سب سے زیادہ دو نئے دوستوں کے درمیان پایا جاتا ہے اور سوشل میڈیا پہ بھی موجود ہے۔ کمیونیکیشن کی تاریخ میں سب سے اہم چیز ٹیلی فون کی ایجاد تھی، وہی آج بھی ہے۔ جب انسان کو ضروری کام ہوتا ہے تو وہ کسی دوسرے کو فون کرتا ہے، یہ ایک عام سی بات ہے۔ گپ شپ، حال چال پوچھنے کے لیے یا کوئی صلاح مشورہ کرنا ہو تو میسیج یا وٹس ایپ وغیرہ پہ کیا جاتا ہے۔ اب جو پرانے دوست ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ فلاں آدمی کی ترجیحات کیا ہیں۔ وہ میسیج یا وٹس ایپ کا جواب جلدی دے گا یا شام کو گھر جا کے فارغ ٹائم میں یہ سارے کام کرے گا۔ نیا دوست یہ نہیں جانتا۔ یہیں سے زندگی کی نئی چخ چخ شروع ہوتی ہے۔ نیا دوست آپ سے پوچھ سکتا ہے ”کیا مطلب؟ تم میسیج کا جواب کیوں نہیں دیتے؟ تم نے میرا پیغام دیکھ کے ریپلائے کیوں نہیں کیا؟ دوستی زیادہ اہم ہے یا باقی سارے کام؟ میری بات کا جواب دینا اہم ہے یا تمہاری مصروفیات؟‘‘ تو یہ بھی پرسنل سپیس پر ڈاکہ ڈالنے کی ایک قسم ہے۔ ایک بندہ اگر یہ سمجھتا ہے کہ جسے ضروری کام ہو گا وہ فون کرے گا اور میسیج وغیرہ کو دیکھنا یا جواب دینا ہر وقت ضروری نہیں سمجھتا، تو یہ اس کے پرسنل سپیس کا معاملہ ہے۔ یہاں تک کہ فون یا گھر کی ڈور بیل اگر تین چار بار بجنے کے بعد نہیں سنی جاتی تو اصولی طور پہ مشن سے پیچھے ہٹ جانا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ آدمی کسی ذاتی کام میں مصروف ہو۔ کسی بھی وقت یہ پیچھے ہٹنا جو ہے، یہ سپیس دینا کہلاتا ہے۔
ہم پرسنل سپیس سے اس لیے بھی واقف نہیں ہوتے کہ ہم مشترکہ خاندانی نظام میں پیدا ہوتے ہیں۔ وہاں ایک بندے کا مسئلہ سارے خاندان کا مسئلہ ہوتا ہے اور اسے پورے خشوع و خضوع سے مزید بگاڑنا سب کا مشترکہ فرض سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ڈرامے، فلمیں، پاپولر ادب، سب کچھ ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ الگ تھلگ رہنے والے آدمی اچھے نہیں ہوتے، وہ گھٹن کا شکار ہوتے ہیں، جتنی جلدی ہو سکے انہیں گھریلو دائرے میں لے کر آنا ہم سب کا فرض ہے۔
قبائلی سوچ ہمیں یہ سکھاتی تھی کہ اکیلا انسان غیر محفوظ ہے، حفاظت کے خیال سے اکٹھے رہنا شروع کیا گیا، سمجھ میں آتا ہے۔ پھر محفوظ ہوتے ہوتے بات یہاں تک پہنچی کہ ایک گھر میں دس کمرے بنے، ان میں دس بھائیوں کی شادیاں ہوئیں، پھر سب کے بچے ہوئے اور ماں باپ کے دمِ رخصت چالیس افراد کا کنبہ ان کے سرہانے موجود ہوتا تھا۔ یہ ماں باپ یا ساس سسر کی ایک بہت بڑی کامیابی تصور ہوتی تھی کہ سب اکٹھے رہتے ہیں۔ دوسری طرف یہی اکٹھے رہنا پرسنل سپیس کے موجود نہ ہونے کی بنیادی وجہ تھی۔
اس ساری کشمکش سے گزرنے کا نقصان بہرحال یہ ہے کہ اس تحریر کو بھی جھک مارنا سمجھا جائے گا۔ سوچا جا سکتا ہے کہ پرسنل سپیس جیسے معاملے پر اتنی لائنیں گھسیٹنے کی ضرورت کیا تھی۔ ضرورت تھی اور ضرورت ہے۔ یہی بحث ہمیں سکھاتی ہے کہ باپ بیٹی کے کمرے میں بھی جائے تو پہلے دروازہ کھٹکھٹائے، والدین کے کمرے میں بھی یہی تکلف ملحوظ رہے اور اجنبیوں سے بھی ایک ایسا فاصلہ رکھنا بچپن سے سکھایا جائے جو ادب آداب کے دائرے میں تو آتا ہی ہو، بچوں کو دراز دستی کے امکانات سے محفوظ بھی رکھ سکے۔ اپنا پرسنل سپیس قائم رکھنا اور بچوں کو اس کی تربیت دینا اب نئے معاشرتی نارمز میں شامل ہے، جلد یا بدیر اسے قبول کرنا ہی پڑے گا۔ تھوڑے لکھے کو بہت جانیے، السلام علیکم۔