سورج کی سنہری کرنیں شفاف پانی کے قطروں پہ رقص کررہیں تھیں .
جھیل کے بہتے پانی کی مدھر سی موسیقی ماحول کو نغمگی عطا کر رہی تھیں .
اس نے اپنے سامنے بیٹھے شخص کو محبت سے دیکھا.
یہ شخص اس کی زندگی میں کوئی بھی نہیں تھا اور آج سب کچھ تھا.
نکاح کے دو بولوں میں کتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ ایک انجان شخص کو آپکے لئے سارا جہاں بنا دیتے ہیں.
وہ بہت عام سی لڑکی تھی لیکن ملک کے نامور مصور کی بیوی بن کر اسے احساس ہوا کہ اس کی کوئی نیکی خدا کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت پاگئی ہے.
اس نے گردن میں پڑے سنہری لاکٹ کو ہاتھ سے چھوا اور پیشانی پہ آئی زلف کو پیچھے کرنے کی جان بوجھ کر ناکام کوشش کی.
وہ اس کی طرف ہی دیکھ رہا تھا لیکن شاید متوجہ نہیں تھا.
"موسم کتنا اچھا ہے ناں ؟" وہ اس کی توجہ حاصل کرنے کو بولی.
"ہوں … ہاں ! " وہ جیسے کسی خواب سے جاگا تھا.
یہ شخص جتنا اچھا مصور تھا اتنا ہی کم گو بھی تھا لیکن عاشی ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی محبت میں پور پور ڈوبتی گئی.
ہنی مون کا دورانیہ کب ختم ہوا پتہ ہی نہیں چلا .
نعمان بہت اچھا بیٹا تھا.اس نے سنا تھا کہ جو اچھا بیٹا ہو وہ اچھا شوہر بھی ثابت ہوتا ہے .اس سنی سنائی بات پر تنہائی میں وہ محبت کے اتنے ثبوت خاموشی سے رقم کرتا کہ عاشی اپنے آپ کو ہواؤں سے بھی ہلکا محسوس کرتی.
اسے خاموشی چبھتی لیکن ثبوت اسے بولنے کی مہلت نہ دیتے.
عاشی کے آشیانے میں ننھی سی پری کا اضافہ ہوا تو اسے لگا کہ شاید خاموشی کے سمندر میں ارتعاش پیدا ہو لیکن اس نے عاشی کے ہاتھوں پہ اتنی عقیدت سے اپنا ماتھا ٹیکا کہ وہ کوئی شکوہ نہ کرسکی.
زندگی نے نیا رنگ دکھایا
ان کی زندگی میں آرزو آئی
.
وہ کسی شاعر کی غزل جیسی تھی لیکن تھی ایک مصورہ…..
نعمان اکثر اس سے باتیں کرت
ا.عاشی اس کی آواز کو حسرت سے سنتی .
گزرتے گزرتے اپنی سماعتوں میں محفوظ کر لیتی.
آرزو گھر آتی تو اسے حسرت سے دیکھتی اور اس کی تعظیم میں جھک جاتی.منہ سے کچھ نہ بولتی اس کا روم روم جھکا ہوا نظر آتا.
ان دونوں مصوروں کو آرٹ گیلری میں کوئی پراجیکٹ ملا تھا.
بے چاری بیوی کلستی رہتی اور وہ مختلف تصورات کے بارے میں تبادلہ خیالات کرتے رہتے.
عاشی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو آگیا.
وہ کہنا چاہتی تھی لیکن کچھ کہہ نہیں سکتی تھی اس کے پاس انگلی اٹھانے کے لئے کوئی خاص بات نہ تھی.
اگر وہ کہتا کہ یہ کاروباری گفتگو ہے ضروری ہے مجبوری ہے تو وہ کیا کرتی ؟
شرمندگی کا بوجھ کیسے ڈھوتی؟ اگر وہ کہتا یہ عبادت ہے محبت ہے تو وہ قیامت کو کیسے اپنے آنگن پہ ٹوٹتے دیکھتی؟ ..
اگر یہ صرف مجبوری تھی تو وہ کیسے آرزو سے باتیں کرتا چائے پینا بھی بھول جاتا تھا؟
وہ کیسے اس کو آرزو کے پسندیدہ نیلے رنگ کی ساڑھی پہننے کا مشورہ دیتا تھا؟
وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر کیوں چور نظروں سے باورچی خانے کی طرف نظر کرتا تھا ؟
کیا اسے واقعی فرار کی ضرورت تھی؟
ایک پراجیکٹ ختم ہوا تو دوسرا شروع ہو گیا.
گھر میں معاشی آسودگی آگئی لیکن خاموشی بڑھ گئی.
عاشی اب ناک تک بھر گئی تھی. پری کو دیکھتی تو دل میں اٹھتے جوار بھاٹے کو دل میں ہی ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتی.
چائے چولہے پر ابلتی رہتی وہ اندر ہی اندر کڑھتی رہتی.
آرزو اپنی گھڑی کو تمکنت سے چھوتی اور ٹک ٹک کرتی چلی جاتی….
عاشی سوچتی کتنی بے قدر ہے… یہ آواز اگر مجھ پہ اس طرح مہربان ہو تو میں تو آنکھوں کے راستے بھی سننے لگ جاؤں.
اب عالمی مقابلہءِ مصوری شروع ہونے والا تھا.
نعمان نے خود کو اپنے مخصوص کمرے میں دن رات کے لئے قید کر لیا.
عاشی کو اس کی فکر ہونے لگی.آرزو کا فون آتا تو سننے لاؤنج میں آتا پھر واپس مقید.
"صحت برباد ہو رہی ہے"عاشی احتجاج کرتی.
"ہونے دو " وہ اطمینان سے کہتا.
"ایسا کیا بنا رہے ہیں؟" اسے تجسس ہوتا.
" زندگی…." وہ یک لفظی جواب دیتا اور واپس چلا جاتا.
اس کی زندگی واقعی زندگی اور آرزو کے فون تک محدود ہوگئی تھی.
تین ہفتوں کی شب و روز محنت کے بعد آخر اس نے اپنا شاہکار تقریباً مکمل کر ہی لیا.
یہ اندازہ اس کے چہرے پر پھیلے اطمینان سے لگایا گیا
آخر عاشی نے فیصلہ کرنے کی ٹھان لی اور بالا ہی بالا خلع کے کاغذات تیار کروا لئے….
وہ نعمان کو بتانا چاہتی تھی کہ اس نے کیا سوچ رکھا ہے لیکن نعمان کا جنون دیکھ کر خاموش رہی کہ کہیں اس فیصلے کا اثر اس کی تخلیق پہ نہ پڑ جائے
محبت کتنی خوش گمان ہے اگر اسے میرے ہونے کی پرواہ نہیں تو نہ ہونے کی کیوں ہو گی…وہ سوچتی لیکن چپ رہی شاید اس نے بھی خاموش رہنا سیکھ لیا تھا
ایک دن نعمان نے پری کو پیار کیا اور پاس کھڑی عاشی کو کہا " زندگی مکمل ہے" .
اپنی سنا کر اس نے نہانے کے لئے غسل خانے میں قدم رکھا
عاشی نے خلع کے کاغذات پری کے سرہانے رکھے
اور
نعمان کی زندگی دیکھنے کے لئے کمرے سے نکل آئی.
دل میں ہزاروں خدشے تھے
دل چاہتا تھا فوراً گھر چھوڑ دے
لیکن
تجسس کے ہاتھوں مجبور تھی.
لرزتے ہاتھوں سے اس نے کینوس پہ لگی تصویر سے کاغذ ہٹایا.
یہ جھیل کنارے بیٹھے اس کی اپنی تصویر تھی جس میں وہ جان بوجھ کر بالوں کو پیشانی سے ہٹانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی.