زندگی کیا ہے اس کو آج اے دوست
سـوچ لـیں اور اداس ہـو جـائـیں
ڈی ایچ لارنس کے رسوائے زمانہ ناول
Lady Chatterley's Lover
کا آغاز اس روح فرسا اعلان سے ہوتا ہے:
Ours is essentially a tragic age, so we refuse to take it tragically. The cataclysm has happened, we are among the ruins, we start to build up new little habitats, to have new little hopes. It is rather hard work: there is now no smooth road into the future: but we go round, or scramble over the obstacles. We’ve got to live, no matter how many skies have fallen."
گزشتہ دس گیارہ برس سے اس پیرے نے اپنے حصار میں لے رکھا ہے. قطع نظر اسکے کہ ناول کے بنیادی موضوع کے پس منظر میں اس پیرے کی کیا معنویت ہے لارنس کے مجموعئ تنقیدی و تخلیقی کام کے پس منظر میں مجھے یہ پیرا بیسویں صدی کے مزاج کے اس پیراڈوکس کا سرنامہ معلوم ہوتا ہے جسکی پشت پر اٹھارہویں اور انسویں صدی کی سائنسی ترقیوں کی بنا پر امید پرستانہ انسانی خوشحالی اور مسرتِ بے پایاں کے ممکنہ خواب تھے مگر جس کے سامنے خوف، یاسیت اور قنوط کے گھمبیر مقدرات آئے. اس آشوبِ آگہی سے بچنے کیلیے اب اسکے پاس شعور کو سُلائے رکھنے اور تعیشات میں پناہ ڈھونڈنے اور کوئ چارہ نہیں.
اس صورتحال کو ٹیکنالوجی کے بےانداز ترقی کے بجائے بیسوی صدی کے بڑے جدید ادب، جس کا آخری اہم ترین اظہار وجودیت کی تحریک اور اس کے نمائندہ ادب میں ہوا؛ اور پوسٹ اسکٹرکچلرازم کے ان فلسفوں کے آئنے میں دیکھا جانا چاہیے جسے کسی بہتر عنوان کی عدم موجودگی میں مابعد جدیدصورتحال کہا جاتا ہے: وہ دور جب انسان حقیقت کی کنہ پالینے کے اپنے سابقہ بے حساب تیقن سے محروم ہوا اور جب انسان اپنی جوانی کے ان خوابوں کی تعبیر سے مایوس ہونے لگا کہ مستقبل کی دنیا انسان کی لامحدود سہانی تمناؤں کا مرکز بن جائے گی، جب بقول کسے انسان مایوسی کے اس مقام پر آگیا ہے کہ دنیا کو جنت بنانے کے خواب تو خیر نصیبِ دشمناں ہوئے ہم اسے جہنم بننے ہی سے بچالیں تو یہی بڑی بات ہے.
امید و بیم نے مارا مجھے دوراہے پر
کہاں کے دیر و حرم گھر کا راستہ نہ ملا.
اب جبکہ انسان کا باطن گھٹاٹوپ گھپاؤں کا نمونہ بن چکا، اس المیاتی شعور کے کرب سے نجات پانے کیلیے اس کے پاس سوائے اس کے اور کوئ راستہ نہیں رہ گیا تو وہ اس دفترِ بے معنی کو غرقِ مے ناب کرنے کی نت نئ تدابیر اختیار کرتا ہے. اب شراب، جنس، نشہ آورادویات، یوگا، کرشماتی روحانیات، جعلی تصوف اور تعیشات کی نت نئے ایجادات ہی اسکی واماندگئ شوق کی پناہیں ہیں.
مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو
اک گونہ بیخودی مجھے دن رات چاہیے
آج لارنس کا یہ پیرا، اور اسکا بھی پہلا جملہ ایک جگہ گفتگو کیلیے مسالہ تیار کرتے ہوئے یاد آیا.
مجھے معلوم نہیں کہ "خاتون چیٹرلی کا عاشق" کا اردو ترجمہ ہوا ہے یا نہیں اور یہ کی محولہ بالا پیرے کا اردو میں کیا ترجمہ کیا گیا ہے، میں نے اپنے طور پر اس یوں ترجمہ کیا ہے:
"ہمارا دور بنیادی طور پر المیاتی ہے، اسلیے ہم اسے قبول کرتے ہوئے المیاتی طور پر انکار کرتے ہیں. انفجارِ عظیم واقع ہو چکا ہے، ہم کھنڈروں میں پہنچ چکے ہیں، نئی چھوٹی چھوٹی امیدوں کے لۓ ہم نئی چھوٹی چھوٹی عادتیں اپناتے ہیں. یہ قدرے ایک مشکل کام ہے: مستقبل کی طرف کوئی ہموار راستہ نہیں جاتا، ہم صرف گول گول گھومتے رہتے ہیں یا رکاوٹوں پر سے گھسٹ گھسٹ کر چلتے ہیں. خواہ کتنے ہی آسمان گریں ہمیں تو بس زندہ رہنا ہے. "
مجھے زیادہ دقت پہلے جملے کے ترجمے میں اور وہ بھی refuse to take it tragically میں ہے.
احباب سے معاونت کی گزارش ہے.
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔