زمین پر زندگی کی تاریخ میں کئی دلچسپ اور اہم موڑ آئے ہیں لیکن ان میں سے ایک واقعہ ایسا نایاب ہے جو چار ارب سال میں صرف ایک بار ہوا ہے۔
زندگی باہر سے بہت مختلف نظر آتی ہے لیکن خواہ ایک درخت ہو، یک خلوی پیرامیشئم، ایک مور یا پھر ہم خود، بنیادی طور پر تمام پیچیدہ زندگی جو یوکاریوٹ ہیں، وہ اندر سے ایک ہی طرح کی ہے۔
زندگی کا آغاز ہوئے پونے چار ارب سال ہوئے لیکن اس میں ایک ارب سال سے زیادہ یوکاریوٹ نہیں تھے۔ زندگی کی صرف دو ہی ڈومین تھیں۔ بیکٹیریا اور آرکیا۔ یہ دونوں خود بہت مختلف تھے۔ اربوں سال میں انہوں نے طرح طرح کی شکلیں بدلیں۔ نئی سے نئی انواع آتی رہیں لیکن یہ کبھی بڑے نہیں ہوئے اور ایک خلیے تک محدود رہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ یہ اتنی توانائی اکٹھی کر ہی نہیں سکتے تھے۔
زندگی کی توانائی کی کرنسی اے ٹی پی ہے۔ اس کے ایک سکے سے کوئی کام کیا جا سکتا ہے۔ مثلا، ڈی این اے کو کاٹنا ہو یا خوراک کو توڑنا، اس کے لئے کرنسی کا یہ سکہ استعمال ہو گا۔ سکے ختم تو کھیل ختم۔
لیکن آرکیا اور بیکٹیریا یہ توانائی کے سکے صرف اپنی سطح کی ممبرین پر بنا سکتے ہیں۔ اگر زیادہ توانائی چاہیۓ تو اپنا سائز بڑھانا بڑے گا لیکن اس سے والیوم بڑھ جائے گا اور اس کے لئے توانائی کی ضرورت بھی۔ اگر ایک بیکٹیریا کا قطر 25 گنا زیادہ ہو جائے تو وہ 625 گنا زیادہ توانائی بنا سکتا ہے لیکن اس کے حجم میں 15000 گنا اضافہ ہو جائے گا اور اسے پھر پروٹین بھی اسی حساب سے درکار ہو گی۔ بیکٹیریا اور آرکیا اربوں سال تک اس بیرئیر کو کبھی عبور نہیں کر سکے۔
لیکن پھر وہ انوکھا موڑ آیا۔ اربوں سال میں صرف ایک بار ہونے والا نایاب موڑ۔ ایک آرکیا کی ایک بیکٹیریا سے ٹکر ہوئی، آرکیا نے بیکٹیریا کو نگل لیا۔ اور پھر اس آرکیا نے اس بیکٹیریا کو ہضم نہیں کیا بلکہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اسی طرح رہنے لگے۔ ایک باہمی فائدے کے رشتے کے طور پر۔ یہ اینڈوسمباوسز کی ابتدا تھی۔ اس وقت جنتی بھی زندگی ننگی آنکھ سے نظر آتی ہے، یہ اسی واقعے کا نتیجہ ہے۔
اس تعاون کی سبب بیکٹیریا اپنے جینوم کا بڑا حصہ ختم کرنے میں کامیاب ہوا۔ اپنی خلیاتی مشینری بند کر دی اور اپنی توجہ صرف ایک چیز پر مرکوز کر دی۔ توانائی کی کرنسی اے ٹی پی کی تیاری پر۔ یہ پہلا مائیٹو کونڈریا تھا۔ یہ توانائی کے حساب سے ایک زبردست فائدہ تھا۔ فاضل اے ٹی پی بننے لگے۔ اس کا مطلب یہ کہ اس کے اپنے اندر کئی جدتیں آنا شروع ہو گئیں۔ فاضل توانائی کا مطلب نئے تجربوں کی آزادی کی صورت میں نکلا۔ پھر انہوں نے مل کر دوسرا بیکٹیریا ہضم کیا جس سے فوٹوسنتھیسز شروع ہوا اور پھر پودوں کی بنیاد پڑی۔ پھر جیلی فش، صنوبر کے درخت، پینگوئن،کیکڑا، کینگرو سبھی اسی فاضل توانائی کی وجہ سے ممکن ہوئے۔
ہمارا ایک خلیہ ایک سیکنڈ میں ایک کروڑ اے ٹی پی استعمال کر سکتا ہے۔ ہمارے جسم میں ایک وقت میں صرف ساٹھ گرام اے ٹی پی ہے لیکن ہم ایک روز میں اپنے وزن کے برابر اے ٹی پی استعمال کر لیتے ہیں۔ یہ سب ری سائیکل ہو رہا ہے اور یہ مائٹوکونڈریا کا کام ہے۔ اے ٹی پی کی ری سائکلنگ کے لئے بہت بڑی تعداد میں مائیٹروکونڈریا مل جل کر مسلسل کام کرتا جس کے لئے بڑی مقدار میں مائیٹروکونڈریا چاہیے۔ اگر ان کو کھول کر ایک سیدھ میں رکھ دیا جائے تو ایک کرکٹ سٹیڈیم کے محیط سے زیادہ ان کی لمبائی ہو گی۔
ہمیں کیسے پتہ کہ یہ ہوا تھا؟ ان کا جینوم ہمارے اندر ہی موجود ہے۔ ویسا ہی جیسا پروکارئیٹ کا ڈی این اے ہوتا ہے اور ہماری اپنی جینز میں سے ایک تہائی بیکٹریا اور آرکیا سے مشترک ہے اور ہم اس تعلق کو آسانی سے ڈھونڈ سکتے ہیں۔
یہ دنیا جس میں بیکٹیریا اور آرکیا کا تصادم ہر روز کے ہر منٹ میں جاری ہے، ان کے باہم اشتراک سے یوکاریوٹ کے ابتدا کا واقعہ بس ان اربوں برس میں ایک ہی بار ہوا جس نے توانائی کی وجہ سے لگی پابندیاں توڑ ڈالیں اور زندگی کے اگلے ابواب کو ممکن بنایا۔
آرکیا کیا ہیں
https://www.facebook.com/groups/ScienceKiDuniya/permalink/1057725001062702/
جم لیک کا ریسرچ پیپر
http://rstb.royalsocietypublishing.org/cont…/…/1678/20140321
یہ معلومات زیادہ تر اس ویڈیو سے
تفصیل سے دیکھنا ہو تو یہاں سے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔