مرزا غالب کی زمین میں موج سخن کے عالمی آن لاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے بتاریخ ۲۰ اگست ۲۰۲۰ کے لئے میری طبع آزمائی
زندگی کی تلخیاں سب راحتِ جاں ہوگئیں
’’ مُشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں ‘‘
کشتیٔ عمرِ رواں کو دیکھ کر اُس میں مری
سخت جانی سے مری موجیں پریشاں ہوگئیں
آج کورونا وائرس سے ہیں سبھی وحشت زدہ
اِ س کے آگے سب وبائیں طاقِ نسیاں ہوگئیں
کررہے ہیں لوگ ہجرت یوں قطار اندر قطار
شہر ویراں ہوگئے سُنسان گلیاں ہو گئیں
پارکوں اور نَرغزاروں میں نظر آتی تھیں جو
اِن دنوں کافور وہ سب رنگ رلیاں ہوگئیں
اجتماعی فاصلے پہلے ہی تھے سوہانِ روح
لاک ڈاؤن سے سبھی قومیں پریشاں ہوگئیں
غُنچہ و گُل کہہ رہے ہیں یہ زباں حال سے
راحتِ جاں تھیں جو کلیاں دشمنِ جاں ہوگئیں
درس عِبرت ہے یہ منظر نامہ عہدِ رواں
دیکھ کر غالب کی آنکھیں بھی جو حیراں ہوگئیں
طرحی غزلیں لکھ رہا ہوں اِن دنوں جو فی البدیہہ
وہ کتابِ زندگی کا میری عنواں ہوگئیں
لرزہ براندام ہیں برقی سب اقوامِ مِلل
اپنی طاقت پر جو نازاں تھیں وہ نالاں ہوگئیں