فطرت کی سب سے خوبصورت تخلیق بلا شبہ زندگی ہی ہے۔۔۔کائنات کے جبر وقہر کی تہزیبی وسعتوں میں زمیں اسکا حسین ترین نوزائدہ بچہ ہے ۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پوری کائنات کے ازلی اسرار اور بے کراں لامنتہائی وسعتوں کا مقصد زمین کی تخلیق ہی تھا۔ اور اب ساری کائنات کے بکھرے وجود کا ہر حصہ اسے جھولے میں ڈالے اسکی دلداریاں ،لاڈ چاؤ پورے کر رہا ہے۔ فلک کا دست شفقت، تاروں بھری اوڑھنی چاند کا بالا سورج کی حیات پرور تمازت ۔۔درخت پھول ۔پرندے گیت ابشاریں چشمے، سمندر ۔بادل بارشین ،پہاڑ اور جنگل غرضیکہ حسن و فن کے تمام لطف و سرور زمیں کو سونپ دیئے۔ اس دھرتی کا سارا حسن اور سارے سنگھار جب عروج پر پہنچ گئے تو دھرتی کے ارتقائی سفر کی تخلیقی جوہر نے زندگی کو جنم دیا جسکا آغاز ایک تنہا زرہ (unicell) سے ہوا جس نے لاکھوں اربوں سالوں کے سفر کے بعد اس دھرتی پر زندگی نے لاکھوں زمینی ،فضائی،ابی روپ اختیار کئے ایک سے بڑھ کر ایک زندگی کا حسین ڈائنو سار سے لیکر دیو ہیکل وہیل مچھلی تک۔ ہمنگ چڑیا سے لیکر تتلی تک ۔جب زمین حیات کی رنگا رنگی کی فطرت کے ساتھ یک جہتی مکمل ہوئی۔ اربوں سالوں کے سفر زندگی کے خوب سے خوب تر روپ بدلتا ہوا بالا آخر آنسانی زندگی پر منتج ہوا ۔ اور حضرت انسان بلا شبہ فطرت کے ارتقائی سفر کا مکمل تر ،حسین ترین ۔ جوہر تخلیق کا حامل کامل وجود قرار پایا ۔ اور قدرت کے اس واحد وارث نے ایک طرف دھرتی کے حسن میں سائنس ادب اور آرٹ سے بے پایاں اضافہ کیا اور دوسری طرف فطرت سے ہی جدل شروع کر دیا جو مسلسل جاری ہے اور فطرت بقول اینجلز کے کبھی شکست قبول نہیں کرتی بلکہ بدلہ لینے پر تل جاتی ہے ۔انسانی زندگی کے۔عقل شعور اور فہم و ادراک نے اسے دھرتی پر تمام نباتاتی و حیواناتی زندگیوں کی حکمرانی کا تاج پہنا دیا اور دھرتی کا سارا حسن اور اثاثے اسکے قدموں میں نچھاور کر دیئے ،سورج کی تمازت سے لیکر جگنو کی ٹھنڈی چمک ۔جھومتی بل کھاتی کہکشاؤں سے لیکر درختوں کے سائے میں پگڈنڈیاں
بارشوں کی تال پر رقص کرتے پھولوں تک انسانی زندگی کی ناز برداریوں پر مختص ہیں۔ قدرت نے اپنے تخلیقی جوہر بھی حضرت انسان کو ودیعت کر دیئے .آج کا موضوع اس لحاظ سے تمام تر علمی وسعتوں میں بنیادی اہمیت کا حامل ۔اگر کائنات کے ارتقائی تخلیقی جوہر کا آخر زندگی ہے ۔ زندگی کے انواع اقسام کا مرکز انسانی وجود ہے ۔ اس انسانی وجود کی مرکزی حیثیت زندگی ہے اور زندگی کا سارا حسن اسکی خوشی مسرت ۔کی کیفیت کو حاصل ہے ۔ (( آج کے مضمون میں ہم اس راحت مسرت خوشی کی سائنس کے فقط ایک داخلہ پہلو کا تعارف کروائیں گے ۔)) جبکہ اسکے اور بھی خارجی اور داخلی عوامل کم اہمیت کے نہیں ۔یوں انسان بھی اس دھرتی کو خوب سے خوب تر بنانے کے فطری عمل کا سانجھے دار بن گیا ۔حضرت انسان کی زندگی سکھ ،سکون ، خوشی راحت کی محتاج ہے ۔افسوس کہ انسان نے فطرت سے جنگ چھیڑ کر اپنی حاکمیت کے تکبر کی سرشت نے حیوانوں بلکہ انسانوں کو بھی غلام بنا کر ازلی مسرت کھو دی ہے ۔اور آج کے انسان نے زمینی حسن ،ماحولیات ۔زمین پر حیات تک کو خطرے میں ڈال دیا ہے ۔ جبکہ انسانی نسل کو بھی معدومیت کے خطرات سے دوچار کر دیا ہے
یوں تو ہر جاندار جبلتی طور اپنی زندگی کو پر مسرت طریقے سے گزارنے کے لئے ہر لمحہ کوشاں ہے۔حضرت انسان بھی۔ھم نے تو بلکہ زمین کی تمام حیات کو اپنی بقا کے تابع کر لیا ہے بلکہ بے جان مادے کو بھی اپنی ایجاد کردہ ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنا غلام بنا لیا ہے۔جس طرح قدرت کی تخلیق اعلی حضرت انسان فطرت کے وجود و حسن کے در پہ ہے ۔ایسے ہی ھمارے ہاتھوں کی بنائی ہوئی مشین ھماری زندگی کے حسن کو ختم کرتی جا رہی ہے۔ھماری بے بسی کا اب یہ عالم ہے کہ شبہ روز کی جان لیوہ مشقت کے باوجود صرف سانس چل رہی ہے اور ھم اجتماعی طور پر خود کشی کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں۔ آخر کیوں؟
جسطرح گلاب کی ٹہنی میں نشونما کا اور فنا کا بیک وقت جوہر موجود ہے جو اسے دلکش پھول بھی دیتا ہے اور اسے فنا بھی کرتا ہے۔اسی طرح ارتقا کےابتدائ مراحل میں ہی یہ دونوں جوہر انسانی سرشست کا لازمی حصہ بن گئے۔ اک طرف اسنے جنگلی حیات کے خلاف دھوکہ طاقت اور قبضہ کے ذریعے غلبہ حاصل کیا اور دوسری طرف باہمی تعاون و انحصار ۔ ایثار و محبت اور دوسروں کیلئے جزبہ قربانی کے ذریعے اپنی طاقت کو بڑھایا ۔تحفظ کو یقینی بنایا نیز اپنی مسرت اور بقا کی ضمانت بھی حاصل کی۔زمین پر فتح حاصل کرنے کے باوجود غلبے کی فطرت حتم نہیں ہوئ بلکہ انسانوں کے اک چالاک اور طاقتور گروہ نے دوسرے انسانوں کو غلام بنانے کے لئے اسی جوہر کا استعمال کرنا شروع کر دیا اسی غلبے کی جبلت نے قدرتی وسائل اور اشیائے تصرف پر قبضہ کرکے اپنی طاقت اور دولت کی ترقی کیلئے صارفیت یعنی خرچ کرنے کی رواجی تہزیب (consumerism) کا کلچر پیدا کر دیا ہے ۔ انسان خود بھی اک چیز بن کر رہ گیا ہے ۔جسمیں آج انسانیت دم توڑ رہی ہے۔
باہمی انحصار ۔اجتماعی وجود کی انفرادی وجود پر فوقیت۔ ecology and coextence۔۔ ایثار و قربانی۔اور beautifying فطرت کے بنیادی قانون ھیں ۔جو زرہ سے لیکر کائنات کی وسعتوں تک یکساں کار فرما ہیں۔انسانی تشکیل شدہ تہزیب کے consumer culture میں یہ نیکی و خیر۔اخوت و ایثار۔حسن و محبت کے جذبے ھماری سرشست سے تقریباً معدوم ھوتے جا رہے ہیں ۔جس سے ھم مسرت وخوشی۔امنگ ترنگ۔سرشاری و مستی ھنسی اور مسکراہٹ کی حیات افروز جذبات و کیفیات سے محرم ہوتے جارہے ہیں۔جو ھماری صحت زندگی اور بقا کی ضمانت ہیں۔
یاد رہے فطرت کبھی یکطرفہ شکست قبول نہیں کرتی۔اسی لئے اک طرف فطرت کے سر بستہ راز کھلتے جارہے ہیں اور دوسری طرف اسباب پیدا ہو رہے ہیں کہ انسان اس شکست و ریخت کے دور سے نکل کر فطرت سے ھم آہنگی کے بعدالوہی مسرتوں سے ھمکنار ہو کر محو رقص ہو جائے ۔اس نقطے کی وضاحت کے سائنسی علوم کی روشنی میں توجیہات کیا ہیں ۔یہی آج کی تحریر کا بنیادی مقصد ہے کہ ہم گم ہوتی ہوئی دائمی حیات افروز مسرت کی نشاندھی اور نشونما کی سائنسی حقیقت کیا ہے ۔۔اسکے ساتھ ہی ساتھ عارضی خوشی ،لذت پرستی جسکا پورا معاشرہ شکار ہو چکا ہے یا بذریعہ میڈیا صارفی معاشرہ کی نشونما کیلئے کر دیا گیا ہے ۔اسکے ہماری زندگیوں پر منفی زوال پرست اثرات کیا ہیں۔
ذندگی کا اگر بنیادی حا صل۔ مسرت اور خوشی ہے جو زندگی کی (thriving and flourishing) نشونما اور فروغ پزیر جبلت کی بنیاد ہے۔نفسیاتی سائنس کی لغت میں خوشی دو قسم کی ہے (hedonic and eudemonic happiness )
Hedonic happiness۔۔کو ہم آسانی کی خاطر عارضی۔ خوشی کا نام دے لیتے ہیں۔اس خوشی کی بنیاد consumerism۔یعنی صارفی معا شیت پر ہے۔جب بھی ہم کوئ چیز ، جائیداد،۔عہدہ ڈگری۔۔ طاقت یا intellectual property حاصل کرتے ہیں ۔جنکا حصول ہمیں فرط و انبساط ک کیفیات و احساسات دیتی ہیں ۔ اس کیفیت کا دورانیہ عارضی ہوتا ہے جسکے کے بعد یہ خوشی خود بخود ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔اور جلد ہی ہم اس خوشی کی کیفیت سے نکل جاتے ہیں ۔ اورہمارے ذہن میں محرومی کا خلا سا پیدا ہو جاتا ہے ۔جو اسی چیز کی مزید مقدار اور معیار کی طلب پیدا ہوتی ہے ۔ جو اک ہیجان و اضطراب پیدا کر دیتی ہے ۔اسی خلا کو پر کرنے کیلئے
نشے کی طرح ھم ا سے مزید حاصل کی پہلے سے ذیادہ مقدار کے طالب ہو جاتے ہیں۔ جیسے موٹر سائکل کار کی اور کار پھر بڑی اور مہنگی کار کی ۔مہنگی کار کاروں کے فلیٹ کی طلب پیدا کرتا ۔اور آگے پھر اور آگے ۔یہی عمل دیگر حصول ضروریات سے نکل کر حصول خودنمائی اور تعیش پرستی میں داخل ہو جاتا یعنی گھر ،عہدہ ۔افتدار ۔دولت ، ہم میں مقابلہ بازی ۔۔زر پرستی سے حاکمیت اور غلبہ کی ہوس سے ہوتا ہوا بے حسی و بے رحمی ۔۔غرور و تکبر ۔ظلم و جبر تک وسعت پذیر ہو جاتا ہے ۔اور یہ عمل اک ایسا vicious circle یعنی گھن چکر بن جاتا ہے۔جس کی دلدل میں پھنس کر اور گہرائی میں اترتے جاتے ہیں ۔یوں ہماری جسمانی اور روحانی ذات consume.خرچ ہونا شروع ہو جاتی ہے اور ہم انفرادی اور معاشرتی سطح پر فنا کے تکلیف زدہ سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں ۔جو ھماری جسمانی ،جذباتی اور نفسیاتی صحت کو تباہ و برباد کر دیتا ہے
۔
جبکہ حقیقی مسرت
( eudomonic happiness)
تو زندگی کیلئے(thriving and )(flourishingھوتی ہے یعنی ہمیں فروغ پزیر ہونے اور پھلنے پھولنے کا موقع دیتی ہے۔۔۔جبکہ hedonic happiness کی بنیاد خود غرضی خود پرستی ۔لالچ اور طمع پر منحصر ہونے کیوجہ سے یہ اسکی جبری ضرورت بن جاتی ہے کہ وہ اپنی ذات سے باہر کے انسانوں کی زندگیوں سے ،ماحولیاتی تقاضوں سے ، فطرت کی ضرورتوں سے کوئی سروکار نا رکھے ۔سو اسکا زندگی کی ضمانت اسکی نشونما یا معاشرتی ترقی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ ہے،۔بلکہ الٹا انکے لئے مسائل پیدا کرتا ہے ۔ مثلاً planet ecology. (ماحولیاتی نظام )اور آنیوالی نسلوں کی تباہی کا باعث بنتا ہے ۔وسائل پر قبضہ عسرت بھوک بیماری کا سبب بنتا ہے ۔اقتدار اور حاکمیت کی خصلت نا انصافی ۔ظلم جبر ۔۔اسلحہ کی دوڑ اور جنگوں کی بنیاد بنتی ہے ۔اس عارضی خوشی hedonic pleasure حاصل کرنے کے لئے
پیدا ہونے والی ہوس کی بے چینی و اضطراب ہمارا کارٹیسول (cortisole) ہارمون بڑھا دیتا ہے جس سے ھمارے اندر inflammation ( سوزش)پیداہوتی ہے ۔جو دور حاضر کی بہت سی ذیابیطس،ارتھرائٹس۔دمہ،ڈپریشن۔دل کا عارضہ جیسی بیماریاں پیدا کرتی ہے اور قوت مدافعت کمزور کرتی ہے۔جسکی حقیقت سائنسی طور پر مسلم ہے (جسکی تفصیل علیحدہ مضمون کی متقاضی ہے) سو آپ اکثر دیکھتے ہیں کہ ایسے لوگ انگزائٹی ۔ڈیپریشن ۔بلڈ پریشر کے شکار رہتے ہیں یہی بظاہر کامیاب لوگوں میں خودکشی کا تناسب فنکاروں ۔درویشوں ۔قناعت پسندوں اور ہمدرد انسانوں کی مطمئن زندگی کے بر عکس بہت زیادہ ہوتا ہے
Eudemonic happiness.جسے ھم نام دیتے ہیں دائمی مسرت کا۔ جسکی بنیاد خیر برائے فطرت ،زندگی ۔ دھرتی ،کائنات ، حسن پرستی .پیار محبت ۔سچ انصاف ۔۔فنون لطیفہ ،اعلی مقاصد حیات ہے۔اس احسن طرز حیات سے ملی خوشی میں ہم کچھ مادی طور پرحاصل کرنے کے برعکس بعض اوقات ہم کچھ خرچ یا دان بھی کرتے ہیں۔مثلاً پیسہ ،وقت،طاقت، صلاحیت و ہنر ،وسائل علم و آگہی وغیرہ وغیرہ ۔۔اس سے (bliss,ecstasy,serenity )طمانیت، قلبی سکون،آسودگی،شکرگذاری ،فرحت و مسرت ،تفاخرو اعتماد تکمیل ذات جیسی ہمیں بے شمار حیات پرور احساسی کیفیات ملتی ہیں ۔ان کیفیات کا دورانیہ عارضی نہیں ہوتا۔بلکہ جب بھی آپ اس نیکی خیر اور ایثار کے واقع کو یاد کریں گے یا آپ انجانے میں خود بخود خیال پڑے گا۔۔اپ انہیں دائمی مسرتوں سے ہمکنار ہونگے جو انکے عمل کے وقت ملی تھیں
ان کیفیات سے ہماری بائیو کیمسڑی جو اثر لیتی ہے اس سی اچھی جسمانی اور روحانی صحت نصیب ہوتی ہے۔سماجی طور پر ھمدرد اور سچے دوست ملتے ہیں جو مالی آسودگی اور سماجی تسکین کا باعث بھی بنتے ہیں۔ قوت مدافعت (immune system )بڑھ جاتی ہے جو ہماری صحت کی ضامن ہر اور بیماریوں کے خلاف ڈھال کا کام کرتی ہے ۔ جس سے عمر لمبی ہوتی ہے۔ یہی وہ مسرت ہے جو ہمیں جینے کی لذتوں سے ہمکنار بھی کرتی ہیں ۔کچھ دے کر۔دان کرکے۔موجودہ لغت میں کچھ خرچ کر کے شوق و رضامندی سے روحانی خوشی یا دائمی مسرت حاصل کرنے کاشعوری وصف صرف حضرت انسان کا ہی مقدر ٹھہرا ہے۔ جبکہ جبکہ لاشعوری یا جبلتی طور پر پوری کائنات۔ درخت ،چرندپرند ۔بلکہ ژندہ اجسام کے سیل تک میں اسکا جوہر طور پر موجود ہوتا ہے ۔۔جسکے بے شمار ثبوت سائنس حاصل حاصل کر چکی ہے ۔اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم فیشن ۔پروپیگنڈہ ۔غیر محسوس ترغیبات ۔سٹیٹس سمبل کے غلط معیا ر اور کنزیومرازم کے جبری پیدا کئے کلچر کے زیر اثر عارضی خود نمائی ،لذت پرستی ۔اور آنا کی تسکین کی خاطر عارضی خوشی hedonic pleasure کے راستے پر چلتے ہیں ۔یا فطری اور سائنسی حقائق کی روشنی میں اپنی روحانی اور جسمانی زندگی کی صحت و مسرت کے ساتھ ساتھ انسانی معاشرے اور فطرت کے سہولت کار بنتے ہوئے دائمی مسرت eudomonic happiness کے راستے کا انتخاب کرتے ہیں ۔یہ آپکے شعور ،علم،ارادے کی اور ہوس زر و صارفی نظام کے کلچر کی طاقت کے درمیان جنگ سے ۔کیا آپ یہ جنگ جیتنا چاہتے ہیں اپنی ذات ۔معاشرہ و مظاہر فطرت کی بقا کی خاطر تو آغاز کیجئے علم و شعور ،خود آگاہی ،اور حکمت عملیوں کے وسائل جمع کرکے یا خود پر نظام زر کے فروغ پزیر کلچر کے زیر اثر خود بخود راہ فنا پر چلتے جائیے ۔ مرضی آپکی ۔اختیار آپکا
تمھارے نام آخری خط
آج سے تقریباً پندرہ سال قبل یعنی جون 2008میں شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے ’اثبات‘ کااجرا کرتے ہوئے اپنے خطبے...