زندگی کا خاتمہ کیسے ہو گا، یہ سوال بہت عام ہے۔ ایک ہی بار اس کا سائنس کے حوالے سے جواب۔
سویڈن کی حکومت نے 1885 میں ایک انعام اس بات پر رکھا کہ کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ نظام شمسی مستحکم ہے یا نہیں۔ مشہور سائنسدان پوئینکارے نے 1888 میں یہ انعام جیت لیا۔ پوئینکارے نے یہ ثابت کیا کہ نہ صرف یہ کہ ہم نہیں جانتے کہ یہ مستحکم ہے یا نہیں بلکہ مستقبل میں بھی کبھی کوئی اس سوال کا حتمی جواب نہیں دے سکتا۔ پوئینکارے کا جواب فزکس کی این باڈی پرابلم ہے۔ اسی کو ذہن میں رکھتے ہوئے سب سے پہلے یہ ڈسکلیمر کہ مستقبل کی کوئی پیشگوئی امکانات کی بنیاد پر ہوتی ہے۔
اب کرسٹل بال میں جھانک کر زمین پر انسانی زندگی کے خاتمے کا طریقہ ہمارے اب تک کے علم کے مطابق دیکھینے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر صرف شماریات سے مدد لی جائے اور یہ سمجھا جائے کہ انسانی نسل میں ہم کوئی خاص مقام نہیں رکھتے اور اپنے آپ کو سائنسی طریقے کے پانچویں اور پچانویں پرسنٹائل کے درمیان سمجھ لیں تو پھر انسانی زندگی کے باقی بچنے والے سال ایک سو سے دو ہزار کے بیچ میں ہیں۔
محض شماریات سے اگر آگے چلیں تو پھر ممکنہ طریقے دیکھ لیتے ہیں۔ اگر اکیسویں صدی انسانی زندگی کے لئے آخری ہوئی تو تین ممکنہ وجوہات ہوں گی۔
اگر انسانی نسل نے ابھی تک اپنے آپ کو ختم نہیں کیا تو اس کی وجہ محض اتفاق ہے ورنہ 27 اکتوبر 1962 ہمارا اس زمین پر آخری دن ہو سکتا تھا۔ سرد جنگ میں نیوکلئیر بحران کے عروج پر ایک غلط فہمی کے باعث روسی آبدوز نے نیوکلئیر ہتھیار لانچ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس فیصلے سے صرف ایک وسیلی آرخیپوف نے اختلاف کیا جو خود پہلے ایک نیوکلئیر حادثے کا شکار ہوا تھا۔ اگر وہ اس روز آبدوز پر نہ ہوتا یا رولز اتفاقِ رائے پر نہ ہوتے تو جو اس بحران سے واقفیت رکھتے ہیں، وہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس ہونے والے حملے کا مطلب کیا تھا اور انسانی زندگی شاید ہی اس روز کے بعد بچ سکتی۔ ایسا ہی واقعہ 25 جنوری 1995 میں پیش آیا تھا جب غلط فہمی کے باعث نیوکلئیر جنگ سے ہم بال بال بچ گئے تھے۔
دوسری ممکن وجہ عظیم عالمی وبا ہے۔ زمین پر اصل حکومت بیکٹیریا کی ہے۔ ہمارے جسم میں بھی یہ کھربوں کی تعداد میں ہیں اور ہماری زندگی ان پر منحصر۔ ہمارے جسم میں جتنے خلیے ہیں، اس سے زیادہ تعداد میں بیکٹیریا ہیں۔ یہ بدل رہے ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ بائیو ٹیکنالوجی ہے۔ کیا کوئی یہ ایسا روپ دھار لیں گے کہ ہمیں اپنی سلطنت سے ہی باہر کر دیں۔ یہ سوال خبروں میں اتنا نہیں مگر بائیولوجی کی کئی طرح کی ریسرچ میں سست رفتاری کا سبب یہ خوف بھی ہے اور یہ خطرہ اصل ہے۔
تیسری وجہ مصنوعی ذہانت ہے۔ اگر ذہین مشینوں کو انسان قابو نہ کر سکا تو ہو سکتا ہے کہ اپنی اس ایجاد کے ہاتھوں ختم ہو جائے۔
اس سے آگے ماحولیاتی تبدیلی آتی ہے۔ اس پر تو تقریبا تمام سائنسدان متقق ہیں کہ زمین کا موسم بدل رہا ہے جس کی وجہ سے زندگی بڑے پیمانے پر متاثر ہو گی اور یہ عمل مسلسل بڑھ رہا ہے۔ خیال ہے کہ اس صدی کے آخر تک بہت زمین کے بہت سے علاقے جو آج گنجان آباد ہیں، رہائش کے قابل نہیں رہیں گے۔ کیا یہ تبدیلی اتنی بڑی ہو جائے گی کہ کل زندگی کا خاتمہ ہو جائے، خارج از امکان نہیں۔
شہابیے زمین پر گرتے رہے ہیں اور رہیں گے۔ اس سے قبل بھی زندگی کو بڑے پیمانے پر متاثر کر چکے ہیں، جو ماضی میں ہوا کوئی وجہ نہیں کہ مستقبل میں بھی نہ ہو اور اس قسم کا شہابیے جس نے ڈائنوسار ختم کئے، پھر ٹکرا سکتا ہے۔ زمین کے قریب کے شہابیوں کے مداروں کی نقشہ بندی کا کام جاری ہے اور ابھی تک ایک چوتھائی نئیر ارتھ آبجیکٹس کے مداروں کی ماڈلنگ ہو سکی ہے۔
زمین کے اپنے اندر کا لاوا انسانی زندگی ختم کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ توبا آتش فشاں اس سے پہلے ایسا کرنے کے قریب تھا۔ انیسویں صدی میں انڈونیشیا میں ماؤنٹ تمبورا کا آتش فشاں پھٹنے سے پوری زمین کا موسم بدل گیا تھا اور ایک سال گرمیوں کا موسم ہی نہیں آیا اور پوری دنیا میں فصلوں کی ناکامی کی وجہ سے بے شمار ہلاکتوں کا باعث بنا۔ بڑی آتش فشانی کئی جگہ سے ہونا ممکن ہے۔ امریکہ میں اگر ییلوسٹون پارک کے مقام پر سپروولکینو ویسے پھٹا جیسے سات لاکھ سال قبل پھٹا تھا تو امریکہ کے بڑے حصے کا خاتمہ کر دے گا۔ اسی طرح آنے والے وقتوں میں کوئی ان سے بڑا آتش فشانی عمل زندگی کا خاتمہ کر سکتا ہے۔
بڑے فلکیاتی جسم سے ٹکراؤ جو زمین کو یا مدار سے نکال دے یا توڑ دے، اس سے زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا۔
پڑوس میں ہونے والا کوئی سپرنووا جس سے زمین پر آتا گاما رے برسٹ ایک اور قاتل واقعہ ہو سکتا ہے، اس کے بعد اینڈرومیڈیا کہکشاں سے ٹکراؤ میں کوئ ایسا واقعہ ممکن ہے جو زندگی ختم کر دے۔
اس امکانات کے علاوہ ایک چیز جو ہم جانتے ہیں، وہ یہ کہ سورج خود گرم ہوتا جائے گا اور پھر زمین کو نگل لے گا۔
آخر میں پھر کائنات کا اپنا خاتمہ ہے۔
یہ سب امکانات ساتھ کی ڈایا گرام میں ممکنہ ٹائم سکیل کے ساتھ لکھے ہیں۔
کائنات کے خاتمے کے علاوہ ہمارے پاس ان میں سے ہر چیز سے بچنے کا علاج موجود ہے۔ اپنے ہاتھوں اپنی موت کو ذمہ دارانہ رویوں سے روکا جا سکتا ہے۔ موسموں کی بدلتی حالت سے ہونے سے بچنے کے طریقے ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔ شہابیوں سے بچنا ناممکن نہیں۔ بڑے تصادم کو پہلے سے جان لینا اور اس کا رخ موڑ دینا بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ سورج کی بدلتی ایکٹیویٹی سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ ہر چھ ہزار سال بعد زمین کا مدار بدلنے کی ضرورت ہو گی جو سائنس فکشن نہیں، قابلِ عمل ہے اور آسٹرائیڈز کو قابو کر کے گریوٹیشنل فورس کے ذریعے کیا جا سکتا ہے اور اس عمل سے زمین کو چھ ارب سال تک قابلِ رہائش رکھا جا سکتا ہے۔ سورج کی موت کے بعد شاید کچھ اچھوتے خیالات درکار ہوں۔
زندگی کے خاتمے کی امید و یاس کی تصویر یہ بتاتی ہے کہ ہمارے اجتماعی مستقبل کے تعین میں سب سے اہم ہمارا اپنا رویہ ہو گا۔ زمین پر بڑے پیمانے پر زندگی کا خاتمہ پہلے ہو چکا ہے۔ ہم اگلے بڑے خاتمے کا باعث بھی بن سکتے ہیں اور اگلا بڑا خاتمہ روک بھی سکتے ہیں۔ جب پینسٹھ ملین سال قبل زمین سے آسٹرائیڈ ٹکرایا تھا تو اس نے زمین پر زندگی کا بڑے پیمانے پر صفایا کر دیا تھا۔ اس وقت زمینی زندگی اپنے بچاؤ کے قابل نہیں تھی۔ اگلے کسی ایسے تصادم سے قبل ہم اس قابل ہو سکتے ہیں کہ نہ صرف زمین پر اپنی بلکہ تمام دوسری زندگی کی حفاظت کر سکیں۔
اس سب میں زمین کو چھوڑ کر کسی اور جگہ جانے کا ذکر نہیں۔ ہم شاید دوسرے سیاروں تک پہنچ جائیں مگر یہ ویسا ہی ہو گا جیسے ماؤنٹ ایورسٹ سر کی جاتی ہے۔ ہماری فطرت ہے کہ جو ممکن ہو، ہم کر کے ہی رہتے ہیں۔ مگر جیسے ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنا ایک اعلان اور سمبل ہے اور وہاں رہا نہیں جا سکتا ویسے ہی ہمارا مستقبل ہمیشہ کے لئے اس زمین سے ہی وابستہ ہے۔ ہماری طاقت ہمیشہ اجتماعی رہی ہے اور اس زمین پر ہمارے مستقبل کا انحصار اس پر ہو گا کہ ہم آپس میں کس طرح تعاون اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہم اس حوالے سے بہت ہی خاص دور میں رہ رہے ہیں جہاں اگلی کچھ دہائیوں میں کئے جانے والے فیصلے اربوں برس کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ اکیلے فرد کی حیثیت اس میں کچھ نہیں، نہ عدد کے اعتبار سے اور نہ وقت کے اعتبار سے لیکن اربوں انسانوں کے نیٹ ورک کی اکائی یہی ایک فرد ہے اور انہی پر آنے والے مستقبل کا انحصار ہے۔