آپ کے سامنے پانی کا گلاس رکھا ہے۔ اگر یہ صاف پانی ہے تو اس میں ایک کروڑ بیکٹیریا موجود ہیں۔ ہر بیکٹیریا کے اپنے اندر ایک دنیا آباد ہے۔ اسقدر چھوٹے سکیل کا مشاہدہ اور مطالعہ ہم کیسے کریں، یہ آسان نہیں۔ ان کا سائز ہمارے لئے مسئلہ رہا۔ پہلے یہ مشاہدہ ایکسرے کرسٹولوگرافی یا پھر الیکٹرون مائیکروسکوپ سے ہوتا تھا مگر اب کرائیو الیکٹرون مائیکروسکوپی نے زندگی کے حیرت کدے کے مطالعے کے نئے دروازے کھول دئے ہیں جو ہر قسم کی زندگی کے بنیادی عوامل سمجھنے میں ہماری مدد کر رہے ہیں۔
روایتی الیکٹرون مائیکروسکوپ سے خلیاتی سٹرکچرز کا مطالعہ تو کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے کام کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ الیکٹرونز کی طاقتور شعاع اس چیز پر ڈالی جاتی ہے جس کا مشاہدہ کرنا ہو اور اس عمل سے اس کی تصویر بنتی ہے۔ زندگی کے مادے کے ساتھ ایسا کرنے میں مسئلہ یہ ہے کہ نامیاتی مادے کو نقصان پہنچتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس مشاہدے کے لئے بڑے اچھے ویکیوم کا ہونا ضروری ہے ورنہ گیس کے آوارہ مالیکیول مشاہدہ خراب کر دیں گے۔ لیکن اس خلا میں بائیولوجیکل مالیکیولز کا پانی بخارات میں بدل جاتا ہے اور خلیہ اپنی شکل کھو دیتا ہے۔
اس مسئلہ کا حل تین سائنسدانوں نے ملکر نکالا۔ ہنڈرسن نے ایک کمزور الیکٹرون بیم سے مشاہدے کا طریقہ نکالا جس سے خلیہ کو کوئی نقصان نہ ہو۔ اس کمزور شعاع سے خلیہ شکل برقرار رکھتا ہے مگر تصویر کی ریزیلیوشن کم ہو جاتی ہے۔ ہنڈرسن نے دوسرا طریقہ مشاہدہ کئے جانے والے مادے کی گلوکوز سے حفاظت کا نکالا۔
اس تکنیک سے لیے جانے والی تصاویر دھندلی تھیں۔ فرینک نے طریقہ ڈھونڈا کہ کیسے اس طرح لی گئی بہت سی دھندلی تصاویر لیکر انہیں جوڑ کے زبردست ریزولیوشن کا تھری ڈی ماڈل تیار کیا جا سکتا ہے۔ فرینک نے اس تکنیک کا کمپیوٹر پروگرام بھی تیار کیا۔
اس کا آخری بڑا مرحلہ ڈوبوشے نے حل کیا۔ یہ خلیہ سے پانی نکل جانے کا مسئلہ تھا۔ کم درجہ حرارت پر پانی جم جاتا ہے اور خلیے سے نہیں نکلتا لیکن یہ جما ہوا پانی مشاہدے کو خراب کر دیتا ہے۔ ڈوبوشے نے مائع نائیٹروجن اور انتہائی سرد ایتھین کی مدد سے برق رفتاری سے ٹھنڈا کر کے برف کی وہ شکل بنا لی جو امورفس سالڈ ہے۔ یہ برف کی سولہ مختلف شکلوں میں سے ایک شکل ہے جو زمین پر نہیں پائی جاتی بلکہ خلا کی وسعتوں میں ہی ملتی ہے۔ یہ برف کرسٹل کی شکل میں نہیں ہوتی۔ اس میں سے الیکٹران اسی طرح گزرتے ہیں جیسے کہ پانی سے لیکن اس طرح خلیہ ویکیوم میں بھی اپنی حالت برقرار رکھتا ہے۔
ان تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے ہم خلیہ کی ممبرین اور اس کو پروٹینز کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ وائرس کو بہتر سمجھ سکتے ہیں اور زندگی کے عوامل سے واقفیت بہتر حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سے ہونے والا مطالعہ ایک نینومیٹر سے بھی کم سائز رکھنے والی چیزوں کا کیا جا سکتا ہے۔
یہ تینوں سائنسدانن سائنسی ترقی میں اپنے اس حصے پر اس سال کیمسٹری کے نوبل انعام کے حقدار بنے۔ اس تکنیک سے ہم کس قدر قریب سے زندگی کو دیکھ سکتے ہیں، اس کی مثال منسلک تصویر ہے جو کہ کرائیو الیکٹرون مائیکروسکوپ استعمال کر کے الکحل آکسیڈیز نامی انزائم کی لی گئی۔