(Last Updated On: )
زندگی کا مقصد کیا ہے،ہم یہاں کیوں ہیں،ہمارے وجود کی حقیقت کیا ہے اور ہماری منزل کیا ہے، کیا مسرت کوئی مقرونی حقیقت ہے۔ معنویت کو کوئی استناد حاصل ہے۔ ان سوالات کے جوابات سوائے مذہب و اخلاق کے ہمارے پاس موجود نہیں،اہل مذہب نے جو جوابات دیے ہیں وہ لفظی اور کسی حد تک منطقی ہیں کہ دنیا میں ہر چیز کا ایک مقصد ہے اور کوئی بھی چیز مقصد کے بغیر تخلیق نہین کی جا سکتی،اور ہر چیز کے خالق کے سامنے ایک مقصد ہوتا ہے ورنہ مقصد کے بغہر کوئی چیز معرض وجود میں نہیں آ سکتی،جیسے میز کرسی اور دیگر تمام اشیا کی تخلیق کے پیچھے معمار کا ایک مقصد کار فرما ہے اسی طرح انسان اور کائنات کا بھی کوئی خالق ہے جس نے ایک مقسد کے تحت گیا رہ جہتی کائنات تخلیق کی اور انسان کو اپنی عبادت و پرستش کے لئے خلق کیا انسان کی تخلیق کی یہ مذہبی و اخلاقی توجیہ ہے،جس کو علمی وسائنسی استناد حاصل نہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ مثال ہی غلط ہے کہ چیزوں کے بنانے کے پیچھے مقاصد کارفرما ہیں۔اشیا کی تخلیق کے پیچھے مقاصد نہیں بلکہ ضروریات پوشیدہ ہوتی ہیں اور جس مقصد کے لئے چیز بنائی جاتی ہے ضروری نہیں کہ اس کا استعمال بھی درست ہو جیسے کلہاڑی اور چھری کے دونوں منفی اور مثبت استعمال ہو سکتے ہیں،اسلئے چیزوں کی تخلیق میں معمار کا مکمل کنٹرول نہیں ہوتا اور وہ جس مقصد کے لئے بناتا ہے لازمی نہیں اسی مقصد کے لئے کوئی اسکو استعمال بھی کرے۔اس کلچرل مثال کو تکوین کائنات اور تخلیق آدم پر لاگو کرنا ایک غیر طبعی و غیر فطری بات ہے۔بگ بئینگ سے کائنات کی شروعات ہوئیں تو اسے پہلے کیا تھا اور عظیم معمار یا گریٹ ڈیزائنر کا کیا مقصد تھا یہ وہ سوالات ہیں جن کا ہمارے پاس جواب نہیں۔کیونکہ ہماری اس معاملے میں تشریح و توضیح خو د ساختہ ہے۔ثقافتی ضرورتوں کے تحت چیزیں تخلیق کی جاتی ہیں جب ضرورت پوری ہو جائے تو کوئی مقصد باقی نہیں رہتا،اسی طرح خالق کائنات نے سب کچھ جو تخلیق کیا ہے اسکی پیچھے جو مقصد تھا وہ تو پورا ہو گیا اب باقی کیا ہے کچھ بھی نہیں۔اس بنا پر لفظ مقصد بے معنی ہو کر رہ گیا۔مقسد براری کے بعد بے مقصدی کے سوا کچھ نہیں بچتا۔اسلئے کسی بھی چیز کے پیچھے کوئی بھی مقصد کار فرما نظر نہین آتا۔کائنات اور انسان طبعی وفطری قوانین کے تحت چل رہے ہین۔انسان نے اپنی بقا کے لئے قوانین گھڑھے ہوئے ہین،معمار عطیم نے یہ کائنات بنائی بھی ہے تو اسکو تخلیق کرنے کے بعد اسے لاتعلق ہو گیا ہے۔اگر وہ اس کارگہ ہستی میں موجود رہتا تو اتنی نا انصافی اسکو کبھی گوارہ نہ ہوتی۔قدرتی آفات کے زریعے احسن تقویم پر اتنے مظالم نہ ڈھاتا اس نے سب کچھ طبعی قوانین کے تابع کر دیا ہے،جہان انسان کی تماتر اائیڈیالوجیز ٹامک توئیاں مار رہی ہیں۔کیونکہ کسی بھی چیز کے پیچھے کوئی مقصد نہیں ہوتا۔اگر مقصد ہو بھی تو مقصد کے حصول کے بعد وہ اپنی معنویت کھو بیٹھتا ہے۔اس بنا پر کسی بھی چیز میں ہمین کوئی بھی معنی ومقصد نظر نہیں آتا۔اقبال کو بھی مقسد آفرینی سے اسی بنا پر چڑ تھی۔ تو راہ نورد شوق ہے منزل نہ کر قبول۔لیلیٰ بھی ہمنشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
طبعی و فطری قوانین کے تحت جسطرح ہر شے اپنے مقصد سے عاری ہے بلکہ اپنی بقا کے لئے ایک دوسرے کی فطرت کے اندھے قانون کے تحت معاون بنی ہوئی ہے جسے یہ سلسلہ کائنات چل سو چل رہا ہے۔گریٹ ڈیزانر غائب ہے صرف اسکے قوانین چل رہے ہیں۔اسی طرح ہم نے ہیرو کو بھی اپنا مقدس آقا بنایا ہوا ہے۔ہیرو کی تخلیق بھی کلچرل ہے اصل میں یہاں کوئی ہیرو نہیں ہے۔ہیرو عوام کا دشمن ہے جو عوام کی مداری کی طرح وقتی طور پر آنکھیں بند کر دیتا ہے۔بقول غالب مانا کہ اک بزرگ ہمیں ہمسفر ملے۔انسان کی مسرت اسکی تسکین میں پوشیدہ ہے خالی واعظ نفس مطمنہ پیدا نہیں کر سکتے۔زات وشخصیت کی تکمیل بھی اک واہمہ سے کم نہیں۔تکمیل کبھی ہوتی ہی نہیں۔انسان اپنی نامکمل شخصیت سے بھی انجوائے کر سکتا ہے،اسکو موازنہ کر نے کی ضرورت نہیں۔لازمی نہیں کہ کوئی آئن سٹائن بنے یا شیکسپئیر کی طرح لکھے۔زندگی کو طبعی قوانین کی طرح گزارنے میں ہی مسرت حاصل ہو سکتی ہے۔اقدار وروایات کی پاسداری بے چینی کا سبب بھی بنتی ہے۔کلچر اضافی ہے حقیقی نہیں۔اسی طرح زندگی کے مقصد کے بارے میں ہر انسان کی مختلف رائے ہے۔بقول ہائیدیگر انسان ایک تردد ھے،نہ ہی یہ اپنے ہونے کی توجیہ بیان کر سکتا ہے اور نہ ہی مقسد حیات لیکن بامعنی زندگی بقول اسکے انفرادیت میں ہے نہ کہ اجتماع و قو میت پسندی میں۔ وسیع فلسفیانہ تناطر میں با مقصد اور بے مقصد ،با معنی اور بے معنی زندگی اپنے آخری نتیجے میں ایک جیسی ہی ہوتی ہے یہ ہماری جبلت اور سوچ اسکو کلچر کے زیر سایہ بامعنی بنانے پر زور دیتی ہے۔مقصد خود اندر سے گھڑا ہوا ہوتا ہے،خارج سے منتقل نہیں ہوتا۔نیکی،نالج حسن پرستی بامعنی ہیں مگر اسے زیادہ کچھ نہیں،مسرت دو دھاری تلوار کے مانند ہے،یہ لمحاتی کیفیت کا نام ہے۔یہ زہر بھی ہے تریاق بھی۔منشیات کے استعمال سے مسرت حاسل کی جا سکتی ہے،مگر اسکی قیمت صحت کی صورت میں ادا کرنی ہوتی ہے۔بشری ضروریات وتقاضے جنسی عمل،شکم سیری و تندرستی میں بھی مزے لوٹے جا سکتے ہیں،مگر یہ ادنیٰ درجے کی مسرت ہے،برتر مسرت تخلیق و تحقیق،موسیقی سے انجوائے کرنا،پڑھنا،شاعری و آرٹ سے تعلق قائم کرنا،انسانیت کی خدمت وفلاح،آزادی پرستی ومہم جوئی سے کمال درجے کا آدمی لطف اٹھا سکتا ہے۔بقول جان اسٹارٹ ملَ۔ایک مطمئن سور کے مقابلے میں ایک غیر مطمئن انسان ہونا بدرجہا بہتر ہے اور بطور سقراط غیر مطمئن ہونا بہتر ہے بجائے ایک مطمئن احمق کے۔،،ارسطو ایک متوازن و معتدل فلسفیانہ قضایا میں بسر کی ہوئی زندگی کو پرمسرت ومطمئن زندگی قرار دیتا ہے۔اہل مذ ہب واخلاق خالق کائنات کے ذکر میں نفس مطمنہ حاصل کرتے ہیں۔ جیرمی بینتھن ۰۳۸۱ میں اپنی محبوبہ کو لکھے گئے خط مین کہتا ہے،ہر طرح کی خوشی تخلیق کرو جو تم کر سکتی ہو،ہر طرح کی تکلیف رفع کرو جو تم کرسکتی ہو۔ہر دن اور ہر گھڑی تمہیں اجازت دے گی کہ دوسرے کی خوشی میں اضافہ کرو،یا انکے غم میں تخفیف کا باعث بنو۔اور تھوڑے پر خوش ہونا ہی مسرت ہے۔،،نفس مطمنہ ہی مسرت وخوشی کا با عث بنتا ہے بد امنی و انتشار ایک غیر مطمئن زہن کی پیداوار ہوتا ہے۔لیکن سماجی انساف کے بغیر مسرت کا حصول ناپید بھی ہو جاتا ہے۔جہاں وسیع طبقاتی تفریق ہو وہاں مسرت وخوشی کا جھونکا بھول کر بھی انکی کھڑکیوں سے نہیں گذرتا۔میر تقی میر کی ہی آخر سن لیتے ہیں۔دنیا میں غمزدہ رہو یا شاد رہو۔ایسا کچھ کر کے چلو کہ بہت یاد رہو۔علیٰ ھذا لقیاس مار کسسٹ،مسلم،عیسائی اور دیگر مذ اہب کے ماننے والے زندگی کا مقصد و منزل کا حصول اپنے نظریے پر عمل پہرا ہونے میں ہی تلاش کرتے ہیں اور یہ خواب اکثر و بیشتر شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا۔مقصد براری کے لئے انکی زندگی اسی کشمکش میں گذر جاتی ہے۔مقصد کا حصول ایک واہمہ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔۔جبکہ فلسفی مطلق صداقت کی تلاش میں رہتا ہے۔مطلق صداقت اور معنی کی باز یافت اک سراب اور خواب وخیال پر ہی جا کر منتج ہوتا ہے مگر اسکی تلاش اک گونہ مسرت کا باعث ضرور بنتی ہے۔مگر وہ لوگ جو امید پر زندہ رہتے ہین انکے لئے زندگی اتنی مایوس کن نہیں ہوتی۔ قرانی تعلیمات کے مطابق یہ دنیا کی زندگی اک گھاٹے کا سودا ہے،اصل دائمی زندگی مرنے کے بعد شروع ہوتی ہے۔اس تصور نے امید ویقین کو جنم دیا۔ اگر ہر آدمی فلسفیانہ بنیادوں پر زندگی بسر کرنا شروع کر دے تو زندگی اسکے لئے عذاب بن جائے۔اسلئے عام شخص کے لئے زندگی کا مقصد اور مسرت کا حصول تعلیم میں کامیابی، بہترین نوکری کا حصول،فیملی اور کمیونٹی کیساتھ ہم آہنگی،دوسروں کو کچھ دینا اور خوشیاں بانٹنے تک محدود ہوتا ہے۔اسی میں وہ کامیابی اور مسرت سمجھتا ہے،مگر اسکے لئے بھی بنیادی طور پر صحت و تندرستی کا ہونا ضروری ہے۔اگر عام فرد عالمگیر محبت۔انسان دوستی۔مطالعہ کائنات اور خوف و عقیدت سے آزاد ہو کر زندگی بسر کرنا شروع کر دے تو اسکی مسرت دو آتشہ ہو جاتی ہے۔بقول مولانا رومی ہم اس دنیا میں رہ نہیں رہے ہیں بلکہ گذر رہے ہیں۔جیمز واٹسن فلسفہ ارتقا کے پیش نظر کہتا ہے۔میرا نہین خیال کہ انسان کسی مقصد کے لئے بنایا گیا ہے،ہم صرف ارتقائی عمل کا نتیجہ ہیں،،زندگی بسر کرنے اور مسرت کے حصول کے ان گنت فلسفے ہیں مگر ہر فرد کے لئے ضروری ہے کہ وہ عقل اور احساس زمہ د اری کیساتھ زندگی بسر کرے۔ انسان عالمی رو اور کشمکش کی کیفیت سے دوچار ہے،اسکو قانون و اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے پر مسرت زندگی گزارنے کے لئے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرنا چایئے۔ عالم سوز ساز میں وصل سے بڑھ کر ہے فراق۔وصل میں مرگ اارزو ہجر میں لذت طلب