پہلے ایک کہانی بحری سفر کی۔ 1928 میں سمندری زندگی کا مطالعہ کرنے والا ایک بحری جہاز انٹارٹیکا کے قریب جزیرہٰ بووے پہنچا۔ یہ ایک دور افتادہ جزیرہ ہر قسم کی آبادی سے دور الگ مقام پر تھا۔ یہاں پر مچھلی پکڑتے ہوئے ایک عجیب مچھلی ہاتھ آئی جسے آئس فش کہا جاتا ہے۔ اس مچھلی کی سب سے عجیب بات یہ تھی کہ اس کا خون بے رنگ تھا۔ اس مچھلی کا جب 1950 میں مطالعہ کیا گیا تو پتہ لگا کہ اس میں کوئی ریڈ بلڈ سیل نہیں۔ دنیا میں یہ واحد جاندار تھا جو ایسا تھا۔ اس کا خون نناوے فیصد پانی تھا۔ سردی میں خون گاڑھا ہوتا ہے اور ٹھیک بہتا نہیں، ایسا پتلا خون اس کے لئے فائدہ مند تھا۔
اب ایک نظر زمین کی تاریخ پر۔ انٹارٹیکا پہلے باقی زمین کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ جنوبی امریکہ سے یہ اکتالیس ملین سال قبل الگ ہوا اور سرد پانی کا کرنٹ یہاں کی خاصیت ہے جسے انٹارکٹک سرکمپولر کرنٹ کہتے ہیں۔ انٹارٹیکا کے سرد ہونے کی وجہ یہی تھی اور اسے ڈریک پیسج کہا جاتا ہے۔ اس عمل میں درجہ حرارت بیس ڈگری فارن ہائیٹ تک گر گیا۔ اس عمل نے خود لاکھوں برس لیے۔ گرنے والے درجہ حرارت سے کچھ مچھلیوں کی نسلیں ختم ہو گئیں، کچھ گرم پانیوں میں چلی گئیں اور وہ جن کی جینیات میں وہ میوٹیشن ہوئی تھی جس میں گلوبن بنانے والی جین کا بند ہونا تھا، وہ یہاں پر باقی رہ گئ اور یہ مچھلی آئس فش تھی۔
آئس فش کی کہانی اس سے زیادہ دلچسپ ہے لیکن سوال یہ کہ اس کہانی کا سراغ کیسے پتہ لگا اور یہ کہانی ہے زندگی کے ہر خلیے میں۔
آج سے بیس سال پہلے ہمارے پاس کل جینیاتی ریکارڈ اتنا تھا کہ اسے لکھیں تو ایک ضخیم ناول کے سائز پر پورا آ جائے۔ اس کے مقابلے میں آج یہ ریکارڈ اتنا ہے کہ اگر اس سے لکھے ناول ایک دوسرے کے اوپر رکھے جائیں تو دنیا کی سب سے اونچی عمارت برجِ خلیفہ سے ڈھائی گنا اونچا مینار بن جائے۔
زندگی کا آرکیٹکچر اور ڈیزائن جینیات میں ہے اور اس کے ڈیٹا میں نہ صرف زندگی کی کہانی چھپی ہے بلکہ وہ زمین کی اپنی کہانی سے انتہائی مطابقت رکھتی ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ کونسی جین کس نے کب کھوئی، کب پائی اور کب بدلی گئی۔
آئس فش کے ڈی این اے میں کیا فرق ہے، وہ ریکارڈ اس میوٹیشن کا بتاتا ہے اور وہ میوٹیشن گلوبن بننے والی جین میں تھی۔ وہ جو کسی اور ماحول میں نقصان دہ تھی، وہ اس ماحول میں فائدہ مند تھی۔ میوٹیشن فائدہ مند ہے یا نقصان دہ، اس کا تعلق زمین کے اپنے حالات کے ساتھ ہے۔
لیکن زندگی کی سب سے بڑی اور اہم تبدیلیاں اس کھیل سے ہیں جسے ہم بچپن میں کھیلتے آئے ہیں یعنی چھپن چھپائی۔ شکار کا چھپنا اور شکاری کا ڈھونڈنا۔ اس پر ایک نظر چوہے اور چیل کے اس کھیل سے۔
ایریزونا میں پیناکاٹے لاوا فلو میں زمین پر کئی رنگ ہیں جو بہنے والے لاوا کی وجہ سے ہیں۔ یہاں پر کئی قسم کے روڈنٹ ہیں اور ہر جگہ پر روڈنٹ زمین کے رنگ کا ہے۔ ایک ہی روڈنٹ میں ہر جگہ پر میوٹشنز ہوئیں۔ جو زمین کے رنگ سے ہم آہنگ ہوئی، وہ چھپ گیا، جبکہ جو فرق رہا، وہ چیل کا نوالہ بن گیا اور اس سیلیکشن نے زندگی کو زمین کے مطابق کر دیا۔ جین میں نوع کی تبدیلی کی یہ نشان اور لاوا فلو بہت مطابقت رکھتے ہیں۔ چھپنا زندگی کا راز تھا۔
اس طرح ڈھونڈنے والے کی زندگی کا انحصار اس پر کہ وہ کس طرح اپنا شکار ڈھونڈ لے۔ یہاں پر چیل الٹراوائلٹ سپیکٹرم کو آنکھ سے دیکھ سکتی ہے۔ آنکھ کی ایسی میوٹیشن نقصان دہ ہے مگر اس چیل کے لئے فائدہ مند کیونکہ اس سے وہ اس چوہے کے پیشاب کو دیکھ کر اس کو ڈھونڈ سکتی ہے۔ شکاری اور شکار کے اس باہمی تبدیلی کے ردھم کا راز بھی ڈی این اے میں چھپا ہے۔
ڈی این اے خود 'استعمال کرو یا کھو دو' کی طرز پر چلتا ہے۔ بے فائدہ ڈی این اے میوٹیشنز کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے کیونکہ اس سے توانائی کا خرچ کم ہوتا ہے۔ ایک مثال یہ کہ اتھلے سمندر میں رنگین زندگی ہے کیونکہ رنگ دیکھے جا سکتے ہیں اور گہرے سمندر میں رنگ نہیں کیونکہ روشنی کم پہنچتی ہے۔
ایسی جینز جو پہلے کچھ کام کرتی ہوں لیکن ان کا ایکسپریشن ختم ہو گیا ہو، فوسل جینز کہلاتی ہیں اور زندگی کا آپس میں رشتہ ڈھونڈنے میں بہت اہم ہیں۔
انسان میں بائیس ہزار فنکشنل جینز ہیں۔ لیکن 887 فوسل جینز ہیں جن میں سے 67 ایسی ہیں جو ہومو سپیپین کی تاریخ کے درمیان فوسلائئیز ہوئیں۔
زندگی کا تنوع اور حسن اس تبدیلی کے کھیل میں اور اس کی نشانیاں نہ صرف زمین میں دبی ہیں بلکہ ہر جاندار اپنے خلیوں میں لئے پھر رہا ہے۔
اس پر ارتقائی بائیولوسٹ ڈاکٹر احد ابو حیف کا کہنا ہے۔
The abundance and details of record keeping of history of life is astonishing. It even gives an appearance of purpose. As if, the signs are left for those who ponder and want to understand the real architecture and design of life.
ارتقائی ڈیولپمنٹ بائیولوجی کے تعارف کے لئے
ڈی این اے ایکسپرٹ ڈاکٹر شان بی کیرول کی اس پر لیکچر سیریز دیکھیں یہاں سے۔
پودوں کی پاپولیشن میں علاقے سے کس طرح تبدیلی آتی ہے۔ پاپولیشن جینیٹکس دیکھنے کے لئے
اس پوسٹ کا زیادہ مواد لیا گیا ہے شان بی کیرول کی اس کتاب سے
Endless Forms Most Beautiful : The New Science of Evo Devo