زندگی کے قہقہوں میں سدا بہار :خانم گوگوش
بلبلِ ایران کہلانے والی خانم گوگوش کا اصل نام فائقہ آتشین ہے ،70کی دہائی کے ایران کی یہ مشہور ومقبول گلوکارہ اور اداکارہ 1979کے ’’ انقلابِ ایران ‘‘ تک 30فلموں میں اپنی ادکاری کے جوہر دکھا چکی تھیں اور ان کے17میوزک البم ریلیز ہو چکے تھے ۔ گوگوش خانم صرف ایران ہی نہیں بلکہ آزر بائیجان اور افغانستان سے لے کر پاکستان تک میں حد درجہ مقبول تھیں ۔ انھوں نے 1975میں پاکستان کا دورہ کر کے یہاں کے لوگوں کے من موہ لیے تھے ۔ خودہم نے اپنے پچپن یعنی اسی اور نوے کی دہائی تک محنت کشوں کی بستیوں کے ہوٹلوں ،چائے خانوں اور حجاموں کی دکانوں میں خانم گوگوش کی تصاویر آویزاں دیکھی ہیں اور بلاشبہ یہ اس زمانے کی مشہور تصویر تھی ۔فروری 1979میں رضا شاہ پہلوی کی فاشسٹ اور سامراج نواز آمریت کے زوال کے بعد جب خمینی اپنے ہمنواؤں اور ہمکاروں کے جلو میں تختِ ایران پر متمکن ہوا تو فسطائی جبر کی ایک نئی تلوار نے صرف ایران کے انقلابیوں کے سروں کو ہی شانوں سے الگ کرنے کی نہ ٹھانی بلکہ یہ رجعت پسندانہ سوچ ادب اور ادیب سے لے کر فن اور فنکار تک پر اپنی مہیب اور سفاک قوت و شدت سے حملہ آور ہوئی ۔یہی وہ دن تھے جب یہ ایرانی مغنیہ لاس اینجلس سے اپنے وطن لوٹی اورخمینی رژیم کے جبر اور ناراو پابندیوں کا شکار ہوئی ۔اس زمانے میں خمینی کے فائرنگ اسکواڈ کے ہاتھوں خانم گوگوش کے سفاکانہ قتل کی خبریں دنیا بھر میں گردش کرنے لگیں کہ اس زمانے کے ایران کا یہ عام چلن اپنے شباب پر تھا ۔1979ء سے لے کر 2000ء یعنی 21سال تک خانم گوگوش کے نغمے، اس کے گیت ،اس کے سُر ایرانی ملائیت کی گھٹن زدہ فضاؤں میں پابندِ سلاسل رہے۔ ایران میں اس کے لیے اپنے فن کا مظاہرہ تو دور کی بات کہ ان دیکھی زنجیروں کی اسیر خانم گوگوش اپنے گھر تک ہی محدود کر دی گئی ، اور اسے ملک سے باہر جانے کی بھی اجازت نہ تھی۔ تاوقتیکہ 2000ء میں ایک بار پھر کینیڈا اور پھر دبئی سے خانم گوگوش کے زمزمے گویااس کے مشہورِ زمانہ گیت ’’ من آمدہ ام ‘‘ ( میں آ گئی ہوں) کے ساتھ بلند ہوئے اور سننے والوں کے بقول ’’ اکیس سال کے بعد واپس آنے والی گوگوش کی آواز پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت اور تواناتھی۔‘‘کہا جاتا ہے کہ دبئی میں خانم گوگوش کو سننے کے لیے تین لاکھ سے زائد لوگوں نے کنسرٹ اسٹیڈیم کا رخ کیا ،اس وقت یہ خبر گرم تھی کہ خانم گوگوش اس دورے کے بعد واپس ایران لوٹ جائیں گی لیکن خانم گوگوش نے ایران جانے کی بجائے ٹورانٹو اور لاس اینجلس میں مستقل قیام کا فیصلہ کیا جہاں سے وہ دنیا بھر کے دورے کرتی ہیں اور اپنے نغمے شائقینِ موسیقی کی سماعتوں کے نذر کرتی ہیں ۔ اس عرصے میں خانم گوگوش کے متعدد میوزک البم آ چکے ہیں ۔زندگی کی قہقہوں میں خانم گوگوش کی سدا بہار جوانی قائم ودائم ہے اور کون جانے کہ کب محنت کار ایرانی عوام کے ہمراہ خانم گوگوش فسطائی جبر کے علمبرداروں کے فرجام پر زندگی سے بھرپور قہقہے لگائے جو گویا نوشتہ ء دیوار ہے۔
مدت ہوئی جب خانم گوگوش کے ساتھ ایران میں ہونے والے جبر سے متاثر ہوا کر سندھی زبان کے ممتاز شاعر حسن درس نے ’’خانم گگوش‘‘ کے عنوان سے اپنی معرکہ آراء نظم کہی تھی جس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے :
خانم گوگوش
نظم : حسن درس
ترجمہ: مشتاق علی شان
خانم گوگوش کی تصویر کے فریم میں
ایک ملک بند ہے
جس کی سرحدوں میں جوانی منع ہے
تاریخ کے سگریٹ کو
تیلی نے بوسہ دیا تو
وقت سلگ اٹھا !
اور ایک طویل کش میں
درد کا سرمئی دھواں
ہوا میں اڑتا چلا گیا
خمینی تُو بھی راکھ کی مانند
اپنی قبر کی ایش ٹرے میں
بے معنی ہو کر بکھر جائے گا
گوگوش خانم کی آنکھوں میں
ایک کربلا چونک کر جاگ اٹھی
اور خوابوں کے حسین
اپنے قتل کی بے واجبی پر
ہر یزید
ہر خمینی کی ابدی موت پھلانگ کر
من کے نئے موسموں کے
نئے عنوان بن گئے !
درد کی اس پرانی جھیل پر
مقامی اور باہر سے آئے پرندے
جب مل کر پرواز کریں گے
اور چمکتی دھوپ میں بھی
پرندوں کا ایک بادل
جھیل پر سایہ فگن ہوگا
تو کروڑوں لڑکے
اور لڑکیاں جوانی کی شاخ پر
زندگی کی کمر میں بانہیں ڈالے
مسلسل قہقہے لگائیں گے
اور ان قہقہوں میں
گوگوش ہمیشہ جوان رہے گی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔