میکسیکن افسانہ (ہسپانوی زبان سے )
زندگی ہائے سرحد
(La Frontera Es Un Buen Lugar Para Vivr)
( The Border is a Good Place to Live )
اَگستن کیڈنا (Agustín Cadena)
اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ ، لاہور ، پاکستان
میں، ہر اس بندے کو ، جو یہاں سے گزر کر آتا ہے یا گزرکر پار جانا چاہتا ہے اور مجھ سے پوچھتا ہے تو میں اسے یہ کہتا ہوں کہ یہی رہنے کے لئے اچھی جگہ ہے ۔ یہاں کام ہے اور یہ کہ یہاں مکان سستے ہیں ، کاریں بھی سستی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کو یہاں بوریت کا احساس بالکل نہیں ہوتا جبکہ اندر ’ پروحیبیشن ‘ * ہے ۔ آپ دوسری طرف جاﺅ اور جب وہاں بھی پروحیبیشن لگ جائے تو لوگ یہیں آ جاتے ہیں ۔ میں نے سب باتیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ، اس جوڑے کو بتائیں جو لگ بھگ دو ہفتے تک یہاں رہا ۔
یہ ایک پرانا ہوٹل ہے ، ویسا ہی جیسے سرحد پر رات بھر قیام کے لئے ہوٹل ہوتے ہیں ۔ یہ اچھا ہے ؛ اس میں گاڑیاں کھڑی کرنے کی جگہ پام اور کیلوں کے درختوں سے بھری ہے اور اس کا نہانے کا تالاب بھی بڑا ہے ۔ خیر ، یہ تالاب فی الحال تو استعمال کے قابل نہیں ہے لیکن جیسے ہی ہمارے پاس پیسے ہوئے تو ہم اس کو ٹھیک کرا لیں گے ۔ کمروں میں ٹی وی اور اے سی ہیں ۔ یہاں خاصی گرمی ہو جاتی ہے ؛ گرمیوں میں یہاں کا درجہ حرارت شاذ و نادر ہی 95 سے کم ہوتا ہے ۔اسی لئے بہت سے لوگ ریستوران میں ’ کرونا ‘ * یا ’ بَڈوائذر‘ * پینے کے لئے رُک جاتے ہیں ؛ گرینگو* جو میکسیکو کی سیر کو آتے ہیں ، میکسیکن جو دوسری طرف جا کر خریداری کرنا چاہتے ہیں اور ’بریسیروس‘ * اس تلاش میں ہوتے ہیں کہ کوئی انہیں دوسرے طرف لے جائے ۔
ریستوران کا ماحول خوشگوار ہے ؛ اس کا دروازہ لکڑی کا ہے اور لکڑی کے چوکھٹے والی ہی کھڑکی ہے ، ’ مینیو ‘ شیشے پر لال اور سبز الفاظ میں لکھا ہے ۔ میں بعض اوقات اس جگہ کے بارے میں یوں بات کرتا ہوں جیسے میں اس کا مالک ہوں لیکن میں تو بس اس کا منیجر ہوں ۔ میں یہاں تب سے کام کر رہا ہوں جب میں سترہ سال کا تھا اور اب مجھے یہاں پچیس برس ہو گئے ہیں ۔ اس سارے عرصے میں ، میں نے بہت کچھ دیکھا ہے اور بہت سی کہانیاں میرے سامنے بیتی ہیں ۔ ان میں سے اکثر تو میں بھول چکا ہوں ۔ ۔ ۔ یہ اہم نہیں تھیں ۔ کچھ البتہ مجھے یاد ہیں ، جیسے کہ ’ گرینگا ‘ جو پولیس کی پکڑ سے بچتی نیویارک سے آئی تھی ۔ وہ میکسیکو میں داخل ہو کر خوش تھی ، اتنی خوش کہ اس نے بیس ڈالربخشیش چھوڑی تھی ۔ مجھے وہ بندہ بھی یاد ہے جس کی ایک ٹانگ مصنوعی تھی اور جس نے اپنے آنے کے بعد تیسرے دن ہی اپنے کمرے میں خودکشی کر لی تھی ؛ اس نے اپنی بیوی کے نام بیس صفحوں پر مشتمل خط لکھا تھا اور خود کو گولی مار لی تھی ۔ یہ کہانیاں گرینگوز کے بارے میں ہیں ۔ ۔ ۔ یہ میکسیکن کہانیاں ہیں اور سب ایک سی ہیں ۔ ۔ ۔ یہ ان لوگوں کی کہانیاں ہیں ، جو اس امید میں یہاں آتے ہیں کہ وہ سرحد پار کر سکیں ۔
وہ اپریل میں آئے تھے ، یہ سال کا وہ وقت تھا جب سورج اپنی حدت محسوس کرانے لگتا ہے اور ’ تباچن‘ * کے لال پھول دہکنے لگتے ہیں ۔ اور جیسا کہ میں نے دیکھا ، ان کے پاس بہت کم سامان تھا اور پیسے بھی کم تھے ۔ جب انہوں نے رجسٹر پر اندراج کیا تو میں نے لڑکی کا نام نوٹ کیا ، لڑکے کا میں بھول گیا ۔ وہ ’ کولیما ‘ * کے کسی قصبے سے سارا راستہ بسیں بدل بدل کر آئے تھے ۔ مجھے اس بات کا یقین اس لئے ہے کہ میں جانتا ہوں ، یہاں سے وہاں تک کوئی سروس براہ راست نہیں ہے ۔ میں نے انہیں پہلی منزل کے کمروں میں سے اس حصے میں ایک کمرہ دیا جس کا رُخ پارکنگ ایریا کی طرف تھا ۔ وہ اوپر گئے اور میرا خیال ہے کہ انہوں نے اپنا سامان کھولا ، نہائے اور آرام کیا ۔ شام میں وہ لڑکی نیچے لابی میں آئی اور اس نے پانی کی ایک بوتل اورسفری سائز کا شیمپو خریدا ۔ تب میں اسے اچھی طرح دیکھ سکا ۔ وہ لگ بھگ بیس برس کی تھی لیکن توانا ، مضبوط اور بھرے جسم کی وجہ سے وہ ایک بھرپور عورت لگتی تھی ۔ اس کا رنگ صاف اور کولہے چوڑے تھے ۔ لیکن اس میں مجھے اس کا چہرہ سب سے زیادہ بھایا ۔ وہ قدرتی طور پر ملائم ، صاف تھا جیسا ایسی عورتوں کا ہوتا ہے جو کریمیں اور چہروں پر لیپ استعمال کرتی ہیں ۔ میں نے سوچا کہ وہ ، اپنے خاوند ، جس کو وہ ساتھ لائی تھی ، کے لئے کچھ زیادہ ہی اچھی تھی ۔ وہ خوش تھی ، وہ مسکرائی اور میں نے اس سے پوچھا کہ کیا ان کے کمرے میں سب کچھ ٹھیک تھا ۔ اس نے مجھے جواب دیا کہ کمرے میں گرم پانی نہیں ، لیکن انہیں اس کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ موسم ویسے بھی گرم تھا ۔
” میں کل پہلا کام یہ کروں گا کہ اس مسئلے کو حل کر دوں ۔“، میں نے اسے کہا ۔
وہ وہاں سے جا رہی تھی لیکن اس نے میری نظروں کو اپنی پشت پر محسوس کر لیا اور وہ مڑی ۔ اس کی افسردہ آنکھوں نے میری ، کچھ کہتی نظروں کو خاموش کر دیا ۔
میں بعد میں بھی اس کے بارے میں سوچتا رہا اور جب کلرک اپنی شِفٹ کے لئے آیا تو میں اپنی اس خواہش پر قابو نہ پا سکا کہ اس کے کمرے کے پاس سے گزروں ۔ اس طرف لوگ نہیں ٹھہرے ہوئے تھے لہذٰا ان ، دونوں کے علاوہ مجھے وہاں دیکھ کر کوئی حیران نہیں ہوسکتا تھا ۔ میں آواز پیدا کئے بغیر، نیچے جھکا آگے بڑھا تاکہ پارکنگ ایریا کی روشنیاں ان کی کھڑکی پر میرا سایہ نہ بنا سکیں ۔ پردے گِرے ہوئے تھے لیکن ان میں ایک درزتھی ۔ میں نے اس میں سے اندر جھانکا ، میں بستر تو نہ دیکھ سکا لیکن مجھے دیوار کا ایک حصہ ٹی وی کی جھلمل جھلمل کرتی روشنی سے روشن نظر آیا ۔ میں البتہ آوازیں سن سکتا تھا ۔اور میں نے ’ ارینی ‘ کو ایک بیمار بچے کی مانند مدہم آواز میں بلکتے سنا ۔ میں نے اسے وہ سب کہتے سنا ، جو ایسے لمحات میں سارے مرد سننا پسند کرتے ہیں ۔ ٹی وی کی آواز اتنی اونچی نہ تھی کہ اس کے سِسکنے کی آواز کو دبا دیتی ۔ میں تب تک وہاں کھڑا رہا جب تک میری ٹانگیں جھکے رہنے کی وجہ سے سُن نہ ہو گئیں ۔
اگلی صبح وہ ناشتے کے لئے جلدی ہی نیچے آ گئے ۔ وہ اکٹھے بیٹھے اور انہوں نے ایک سا ناشتہ منگوایا ۔ ایسا لگتا تھا جیسے ان میں بہت پیار ہو ۔ خاوند نے ویٹریس سے پوچھا کہ وہ کسی ایسے سے کس طرح رابطہ کر سکتا تھا جو انہیں سرحد کے پار لے لے جاتا ۔ اُس نے اسے میرے پاس بھیج دیا ۔ پہلے تو میں نے اسے یہ بتایا کہ میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا ، لیکن پھر۔ ۔ ۔ ارینی کی خاطر، اس کے لئے نہیں ۔ ۔ ۔ میں نے اسے ’ لوس ڈوراڈوس ‘ بار میں جانے کو بولا اور یہ بھی کہا کہ وہ وہاں اس وقت تک انتظار کرے جب تک کوئی اسے اپنی خدمات پیش نہ کر دے ۔ اس نے مجھ سے یہ بھی پوچھا کہ ان دونوں کو سرحد پار لے جانے پر کتنے پیسے خرچ ہونے تھے ۔ میں نے اسے کہا کہ یہ مجھے معلوم نہیں ۔ ارینی ، میز کے پاس بیٹھی ہمیں دیکھتے ہوئے انتظار کرتی رہی ۔ میں نے ، پھر ، انہیں سارا دن نہ دیکھا ۔ کون جانتا ہے کہ اگر انہوں نے کھانا کھایا تھا تو کہاں کھانا کھایا ۔ اس رات میں ایک بار پھر ان کے کمرے کی طرف گیا اور ان کی آوازیں سنیں ۔ ۔ ۔ ارینی کی آواز ۔
ناشتے پر میں اس کے خاوند سے یہ پوچھنا نہیں چاہتا تھا کہ اس کے ساتھ کیا بیتی ۔ مجھے اس طرح کی مدد کرنا پسند نہیں تھا ۔ ۔ ۔ یہ بہت خطرناک کام ہے ۔’ وہ ‘ آپ کو اُن کا ساتھی سمجھ سکتے تھے ۔ اس نے مجھے صرف اتنا بتایا کہ وہاں اسے ’ پولیرو‘ * نہیں ملا ، بس اتنا معلوم ہو سکا کہ وہ کب کب ’ لوس ڈوراڈوس ‘ بار میں آتا تھا ۔ وہ صبح ، انہوں نے ، گندے پانی والے تالاب کو دیکھتے ہوئے ، ہوٹل میں ہی گزاری ۔ میں انہیں استقبالیے کی کھڑکی میں سے یوں دیکھتا رہا کہ وہ مجھے دیکھ نہ پائیں ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ اس کی گود میں بیٹھ گئی ۔ ۔ ۔ وہ بہت چھوٹی لگ رہی تھی ۔ ۔ ۔ اور پھروہ ایک دوسرے کے بوسے لینے لگے ۔
شام میں انہوں نے ریستوان میں ’ چچرون ‘ * اور ’ چوریزو بری توس ‘ * کا آرڈر دیا تاکہ اپنے کمرے میں لے جا سکیں ۔ پھر وہ اکیلا نیچے اترا اور چلا گیا ۔ مجھے ارینی کا خیال آیا ۔ میرا دل کیا کہ میں اس سے گپ لگاﺅں اور اس کی زندگی کے بارے میں جانوں ۔ لیکن میں ایک اجنبی عورت کے بارے میں خیالی پلاﺅ پکانا نہیں چاہتا تھا ۔ مجھے اندازہ تھا کہ اس طرح کرنا مناسب بھی نہیں تھا کیونکہ ہمارے ہاں پہلے ہی کم مہمان ٹھہرے ہوئے تھے ۔ میں نے سب کچھ کلرک کے حوالے کیا اور خود سیر پر نکل گیا ۔ میں شہر کے پرانے حصے کی طرف گیا اور ایک عمارت کے پاس ایک بینچ پر بیٹھ گیا تاکہ ’ پاپولر ‘ اور ’ پام‘ کے درختوں کی ٹھنڈک سے لطف اندوز ہو سکوں ۔ ایک ’ پییسانو‘ * نے مجھ سے کچھ پیسے مانگے ۔ وہ تکلیف سے چل رہا تھا ، لیکن اس کا چہرہ ابھی بھی لال تھا کیونکہ ’ وہ ‘ تب سے اس کے تعاقب میں تھے ، جب وہ سرحد پار کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ میں نے اسے کچھ نہ دیا ، میرے پاس پیسے تھے ہی نہیں ۔ میں ہوٹل واپس آ گیا ۔
اس رات میں ان کی جاسوسی نہیں کرنا چاہتا تھا ؛ مجھے ایسا کرنے سے حسد محسوس ہو رہا تھا ۔ دوسرے یہ بھی تھا کہ گزشتہ دو راتوں کی آوازوں نے مجھے بےقرار کر رکھا تھا ۔ میں اس وقت تک دفتر میں رہا جب تک رات کی ڈیوٹی دینے والا کلرک نہ آ گیا ۔ میں نے ٹیکسی لی اور ’ ریڈ لائٹ ‘ علاقے میں گیا ۔ وہاں میری ایک دوست تھی ۔ وہ اچھی ، خوش مزاج اور صاف ستھری تھی ۔ اس کا ریٹ ، گو اب 250 پیسوس* تھا لیکن وہ مجھ سے 200 ہی لیتی تھی ۔ یہ اس کا وہ معاوضہ تھا جو وہ تب لیتی تھی جب میں نے اس کے پاس جانا شروع کیا تھا ۔ ۔ ۔ میں وہاں سے لطف اٹھا کر ہوٹل واپس آیا اور مجھے یہ خیال بھی نہ آیا کہ میں اوپر ان کے برآمدے میں جاﺅں ۔
اگلے دن وہ مجھے نظر نہ آئے لیکن خادمہ نے مجھے بتایا کہ وہ ہوٹل میں ہی تھے ۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اس کا خاوند رات ، بار سے نشے کی حالت میں لوٹا تھا اور ان میں لڑائی ہوئی تھی ۔’ تو آج ان کی صلح کا دن ہے۔ ‘ ، میں نے سوچا ، میں ایک بار پھر چھپتا چھپاتا اوپر گیا تاکہ انہیں سُن سکوں ۔ میں کھڑکی میں سے صرف یہ ہی دیکھ پایا کہ دیوار کی سفید پٹی پر ٹی وی کی روشنیاں رقصاں تھیں اور گھوڑوں کے ہنہنانے اور گولیوں کی آوازیں آ رہی تھیں ، باقی سب خاموشی تھی ۔
دو ہفتے گزر گئے ۔ ان کے پیسے ختم ہو رہے تھے ۔ وہ کمرے کا کرایہ تو روز کے روز چکا دیتے لیکن اب وہ ریستوران میں نہیں جاتے تھے بلکہ سٹور سے ہی چیزیں لا کر کمرے میں ہی انہیں کھا پی لیتے ۔ اُن دنوں ، مجھے ارینی کے لئے درد محسوس ہوا ، میں نے دیکھا کہ اس کی مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی ۔ مجھے اس کی آنکھوں میں آنسو نظر آتے ۔ ایک صبح وہ اس لئے رو رہی تھی کہ اس نے ’ میونیز‘ کی ایک بوتل خریدی تھی اوروہ اس کے خاوند کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گئی اور ساری میونیز فرش پر پھیل گئی تھی ۔ وہ کچھ ایسی ہی تھی ۔ میں نے بہت سی عورتوں کو رونے کا ڈرامہ کرتے دیکھا ہے لیکن یقین کریں ارینی کا رونا بالکل بھی ڈرامہ نہیں تھا ۔ ۔ ۔ یہ اصلی رونا تھا ۔ وہ اس ظالم دنیا کے لئے نہیں بنی تھی وہ بہت نازک تھی ؛ وہ اس ستم ظریفی کو سہہ نہ پائی تھی ۔
ایک دن ، بالآخر ، اس کا خاوند ، اکیلا ہی سرحد پار کر گیا ۔ ارینی ، جب مجھے یہ بتانے کے لیے آئی تو وہ بوکھلائی ہوئی نہیں بلکہ شانت تھی ۔
” کیا تم میرے کمرے میں آنا چاہو گے ؟ “ ، اس نے پوچھا ۔ مجھے حیرت ہوئی ۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ اسے کیا کہوں ۔ اس نے ایک طرح سے میری مدد کی ۔؛
” کیا تم چاہوگے ، کیا ایسا نہیں ہے ؟ “
میں صرف اتنا ہی کہہ سکا ، ” ہاں ۔ “
” میرے پاس واپس جانے کے لئے پیسے نہیں ہیں ۔“ ، اس نے وضاحت کی ، ” گھر واپسی کے لئے 800 پیسوس کی ٹکٹ چاہیے ۔“
” میں سمجھتا ہوں ۔“ ، میں نے جواب دیا ۔ مجھے یہ معلوم نہیں کہ کیوں ، لیکن اس بات نے مجھے خود میں شرمندہ کر دیا ۔
ارینی اپنے کمرے میں گئی ۔ میں نے دراز سے ساری رقم نکالی ۔ ۔ ۔ یہ 470 پیسوس تھے ۔ ۔ ۔ اور میں دس منٹ بعد اس کے پاس تھا ۔
مجھے خود کو خوش قسمت سمجھنا چاہیے تھا اور اس بچے کی طرح خوش بھی ، جسے، اسے اس کا پسندیدہ کھلونا مل گیا ہو جو اس کے والدین اس کے لئے خرید نہ پائے تھے ۔ لیکن میں تب اداس ہو گیا جب ارینی نے کمرے کی بتی بجھائی اور اپنے کپڑے اتارے ۔
میں ساری رات سو نہ سکا اور سوچتا رہا ۔ میں ارینی کو ساتھ لیٹا محسوس کرتا رہا ، میں نے اسے اپنے بازوﺅں میں لیا ، اس کے جسم کی خوشبو سونگھی جسے میں نے پہلے دور سے ہی سونگھا تھا اور یہ چاہا تھا کہ وہ میری بانہوں میں ہو ۔ قصہ مختصر ، میں اچھا محسوس نہ کر سکا اور میں یہ سوچنے سے خود کو روک نہ سکا کہ واقعات یوں نہ ہوتے ، بلکہ زیادہ بہتر ہوتا کہ یہ مختلف انداز میں وقوع پذیر ہوتے ۔ لیکن پھر میں نے خود کو سمجھایا کہ یہ سب کچھ اتنا بھی بُرا نہیں ؛ ارینی نے یہ تو نہیں کہا تھا ، ” یہ سب تمہیں مہنگا پڑے گا ۔“ ، وہ طوائف نہیں تھی ۔ وہ عارضی طور پر ضرورت مند تھی ۔ میں اس کی مالی مدد کر رہا تھا اور وہ اسے اُسی طریقے سے سراہ رہی تھی جو اس کے بس میں تھا ۔ گو ، یہ ایسا ہی تھا ، میں جو کچھ بھی سوچتا رہا لیکن اپنی اداسی کو نہ تو ختم کر سکا اور نہ ہی کم کر پایا ۔ میں نے اسے اپنے دماغ میں اپنے ساتھ لیٹے سانس لیتے ہوئے ، کروٹ بدلے اور خود کو اسے دیکھتے ہوئے ہی پایا ۔
صبح ہونے پر جیسے ہی اس نے آنکھیں کھولیں تو میں نے اسے بتایا کہ میں رات بھر سوچتا رہا تھا ؛ ” یہیں رکو اور میرے ساتھ رہو ۔ یہاں تمہیں کسی شے کی کمی محسوس نہیں ہو گی ۔“
اس نے مجھے گھورا ۔ پھر وہ اچانک مڑی اور میری طرف پشت کرکے رونے لگی ۔ اس کا رونا کچھ دیر تک جاری رہا پھر وہ اٹھی اور نہانے چلی گئی ۔ میں بستر سے ہی چلایا اور وہی کہا جو میں پہلے بھی اسے اور اس کے خاوند کو کہہ چکا تھا ؛
” سرحد رہنے کے لئے ایک اچھی جگہ ہے ۔“
جب وہ تولیہ لپیٹے باہر واپس آئی تو وہ مسکرا رہی تھی ۔
وہ میرے پاس رُک گئی ۔
وہ چار ماہ تک دن رات میرے پاس ہی رہی ۔ اسے معلوم تھا کہ وہ مجھے کیسے خوش رکھ سکتی تھی ۔ اس نے ہوٹل کے معمولات میں میری مدد کی ، میرے لئے کولیما میں بننے والے کھانے بنائے ۔ اور رات میں اس کی گلابی چھاتیوں کے سر ِ پستان میرے منہ اور خوابوں کو بھر دیتے ۔
جب ہمیں ساتھ رہتے ہوئے ایک ماہ ہو گیا تو میں نے اس کے لئے عارضی ویزہ حاصل کیا اور اسے لئے سرحد کے پار گیا اور اسے کپڑے دلائے ۔ اس کے بعد ہم کئی دفعہ اُدھر گئے ۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہم عالمی پُل* پار کرتے تو اس کی زلفیں دریائی ہوا سے اٹکھیلیاں کرتیں ۔ وہ مطمئن ہوتی ، لیکن شاید حقیقی طور پر خوش نہیں ، بس مطمئن اور ہاں جیسے شانت ہو ۔ وہ ان باتوں پر پریشان نہ ہوتی جو سرحد کا معمول تھیں ۔ اس نے انگریزی کے کچھ الفاظ بھی سیکھ لیے تھے ۔ ایسا لگتا تھا کہ ہم ہمیشہ ساتھ رہنے والے تھے اور یہ کہ سب یونہی رہنا تھا ۔
اور پھر ایک صبح اس کا خاوند آ گیا ۔ وہ ایک اچھی خبر لایا تھا ؛ اسے وہاں نوکری مل گئی تھی ۔ ۔ ۔ اور اسے کاغذات بھی مل گئے تھے ۔ وہ ارینی کے لئے واپس آیا تھا ۔ ارینی نے مجھے ایک نظر دیکھا ۔ میں کچھ فیصلہ نہ کر پایا ۔ پھر مجھے سمجھ میں آیا ، اس نے ہم دونوں سے کہا تھا ؛
” میں اپنی چیزیں اکٹھی کر لوں ۔ “
اس کا خاوند انتظار کرنے کے لئے ریستوران میں جا بیٹھا اور اس نے اپنے لئے بیئر منگائی ۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ مجھے دیکھے ؛ ایسا ہوتا تو وہ میرے کانپتے ہاتھ دیکھ سکتا تھا اور یہ بھی کہ غم مجھ پر کس شدت سے حاوی ہو رہا تھا ۔
ارینی اپنا سامان لیے الوداع کہنے کے لئے آئی؛
” ہر چیز کے لئے شکریہ ۔ “ ، اس نے کہا ۔
ایسا لگتا تھا جیسے اسے بھی اچھا نہیں لگا تھا اور شاید اسے بھی افسوس تھا ۔ لیکن یہ بات سب سے واضح تھی کہ وہ خوش تھی ، اس کے چہرے پر اس مرد کے لئے محبت دمک رہی تھی ۔
” کچھ پیسے لے لو ۔“ ، میں نے اسے کہا ۔
” تم پہلے ہی مجھے بہت کچھ دے چکے ہو ۔“
” کم از کم یہ تو لے لو ۔“ ، دراز میں 200 پیسوس ہی تھے ، میں نے یہ اس کے ہاتھ میں رکھے اور اس کی مٹھی بند کر دی ۔ پھر میں نے خود کو کاغذوں میں گم کر دیا ، میں انہیں جاتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا تھا ۔
اس دوپہر میں سیر کے لئے عالمی پُل تک گیا اور وہاں کھڑا کچھ دیر ان لوگوں کو دیکھتا رہا جو سرحد کے آر پار جا رہے تھے ۔ پانی سورج کی روشنی میں چمک رہا تھا ۔ ۔ ۔ اور دور ، گرینگو کی طرف ، کچھ بچے جھولوں اور سلائیڈوں پر کھیل رہے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* ’ پروحیبیشن ‘ = Prohibition ، شراب پر پابندی کا قانون
*کرونا ‘ = Corona ، میکسیکو میں بئیر کا ایک برانڈ
*’ بَڈوائذر‘ = Budweiser ، امریکی بئیر کا ایک برانڈ
*گرینگو = Gringo ، ایسے بندے ، خاص کر امریکی ، جو ہسپینک یا اطالوی نسل کے نہ ہوں
*’بریسیروس‘ = Braceros ، ایسے میکسیکن جن کے پاس امریکہ میں جا کر کام کرنے کا پرمٹ ہو ۔
*’ تباچن‘ = Tabachine ، میکسیکو میں پایا جانے والا ایک عام درخت
*’ کولیما‘ = Colima ، مغربی میکسیکو کا ایک علاقہ
* ’ پولیرو‘ = Pollero ، ایسا میکسیکن جو لوگوں کو غیرقانونی طور پر سرحد پار کراتا ہو
*’ چچرون ‘ = Chicharron ، سور کی اوجڑی سے بنی میکسیکن ڈش
* ’ چوریزو بری توس‘ = Chorizo burritos ، سور کے قیمے سے بنی ساسجزاور انڈوں و آلوﺅں سے بنی میکسیکن ڈش
*’ پییسانو‘ = Paisano ، ہسپانوی یا اطالوی نسل کا کسان
*پیسو = Peso ، میکسیکن کرنسی
*عالمی پُل = International bridge ، ’ Juarez Lincoln Bridge ‘ جو ان چار پلوں میں سے ایک ہے جوامریکی ریاست ٹیکساس اور میکسیکو کو آپس میں ملاتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَگستن کیڈنا (Agustín Cadena) 1963 ء میں ہیڈالگو، میکسیکو میں پیدا ہوا ۔ وہ شاعر ، ادیب ہے ۔ وہ مترجم اورایک عمدہ صداکار بھی ہے ۔ اس کی شاعری اور افسانوں کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ اس کے دو ناول’ Cadaver alone‘ اور ’ So dark Mexico‘ اور بچوں کے لئے دو کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں ۔ نوجوانوں کے لئے اس کا ناول ’ Giant wings‘ سن 2011 ء بھی سامنے آیا ۔ اس کی شاعری کی کتاب ’ The due offering ‘ بھی اسی برس سامنے آئی تھی جس نے ’ Efrén Rebolledo ‘ انعام حاصل کیا ۔ اس کی کئی کہانیاں بھی انعام حاصل کر چکی ہیں ۔ تاحال اس کی کتابوں کی تعداد پچیس سے زائد ہے ۔ تازہ کتاب ’ Fieras adentro‘ سن 2015 ء سامنے آئی ۔ آج کل وہ ہنگری میں ’ University of Debrecen ‘ میں پڑھاتا ہے ۔
درج بالا افسانہ مصنف کی اجازت سے ترجمہ کیا گیا ہے ۔