آج کا قصہ، زیورچ کے لئے ایک تھوڑا سا ہوم ورک کیا ہوا تھا، نیٹ کی مدد سے، یہاں پر دوستوں نے کچھ مقامات کی نشاندہی بھی کی تھی۔ چلیں اپنے وقت، حالات اور زوق کے مطابق میں نے اپنے زہن میں ایک پروگرام تشکیل دے دیا۔۔سیؤٹزرلینڈ کا کوئی شہر لوزرن نام تھا۔وہاں چلنے کا پروگرام بنایا۔۔صبح ہوٹل سے ناشتہ کرکے ریلوے اسٹیشن پہنچا۔۔جیسا کہ مشین سے ٹکٹ نکالنی مجھے آتی نہیں۔۔وہاں ایک نوجوان کو میں نے درخواست کی، کہ مجھے لوزرن کا ٹکٹ نکال دے۔۔اس نے ایک ریٹرن ٹکٹ نکال دیا، قیمت اچھی خاصی تھی، لیکن سمجھ لیا سوٹزرلینڈ مہنگا ملک ہے۔ پلیٹ فارم کا نمبر پوچھ کر وہاں چلا گیا۔۔پلیٹ فارم پر گاڑی کی منزل کا نام لوزین لکھا ہوا تھا، سوچا ہوسکتا ہے، جرمن زبان میں اسے لوزین کے سپیلنگ میں لکھتے ہوں۔ وقت پر گاڑی آئی۔۔میں بھی بیٹھ گیا۔۔ کھڑکی سے باہر کے مناظر دیکھنے شروع کردیئے۔۔مختلف سٹاپ اور شہر وغیرہ آتے رہے۔۔میں نے نیٹ سے پڑھا تھا، کہ لوذرن کوئی گھنٹہ سوا کا رستہ ہے۔ لیکن جب دو ڈھائی گھنٹے سے زیادہ بیت گے۔تو مجھے کچھ شک ہونے لگا۔۔کہ میں کہیں غلط جگہ پر تو نہیں جارہا۔۔۔اب لوزین کا اسٹیشن آنے ہی والا تھا، کہ میرے سامنے ایک سوس شہری بیٹھا ہوا تھا، اس سے تھوڑی سی انگلش میں ہیلو ہائے ہوئی تھی۔۔اب مجھے یقین ہو چلا تھا۔۔کہ میں کسی انجانی جگہ پر پہنچ رہا ہوں، جس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔۔اور آ بھی بہت دور گیا ہوں۔۔پتا نہیں کونسا شہر ہے، کیا ہے۔ کچھ بوریت اور پریشانی سی ہوگئی۔ ایک لمحہ سوچا۔۔کہ پہلی واپسی گاڑی پر زیورخ واپس پہنچنے میں ہی خیریت ہے۔ چونکہ یہ لوگ کافی مددگار اور خوش باش طبیعت رکھتے ہیں۔ دل میں خیال آیا۔۔میرے ساتھ جو حادثہ ہوگیا ہے، وہ اس شخص کو بتا دوں ، وہ بے چارہ میری کہانی سن کر پریشان ہو گیا۔۔۔کہنے لگا۔۔یہاں سے وہاں تک کی اور پھر ایک ٹرین بدل کر آپ لورزن جا سکتے ہیں۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ وہ تین چار گھنٹے کا رستہ تھا۔۔میں نے کہا، بندہ خدا۔۔۔میں اس بے کار چکر کو وقت اور پیسے کے لحاظ سے افورڈ نہیں کرسکتا۔ اس سے بہتر ہے، میں واپس ہولوں۔ کیونکہ پردیس میں اپنی خیریت اور سلامتی پہلے نمبر پر رکھنی چاہئے۔ میں نے پوچھا یہ شہر کیسا ہے۔ اس نے کہا، کہ یہاں بھی چند اچھی چیزیں ہیں۔ جو آپ کے ٹورازم کا مزہ کرا دیں گی، اس نے بتایا ایک قریبی جگہ ہے، 'سوچی' میڑو سے وہاں جاو، ایک بڑی خوبصورت جھیل ہے، سئوٹزرلینڈ کے بلند ترین پہاڑ کی برف پوش چوٹی کا نظارہا ہے۔ اور پھر ایک شاندار اولپک میوزیم ہے۔۔ہمارے دل کو کچھ حوصلہ ہوا۔۔سوچا آج ایسی منزل پر چلا جائے، جس کا کچھ پتا نہیں۔ مجھے مزید پتا چلا، کہ یہ شہر فرانس کے بارڈر پر ہے۔ چلیں جھیل تک پہنچے۔ واقعی ایک بہت بڑی جھیل پہاڑوں کے سائے تلے چل رہی تھی، چھوٹی بڑی کشتیاں اور بڑے بڑے کروز چل رہے تھے۔چلیں الپس دیکھنے کی حسرت پوری ہوئی۔ پھر اولمپک میوزیم کی طرف ہو لیا، پتا چلا یہ اولمپک کا ہیڈکوارٹر ہے۔۔بس جب میوزیم میں داخل ہوا۔۔۔تو میرے سارے پیسے پورے گے۔۔کمال خوبصورت اور ونڈرفل میوزیم تھا۔۔گھنٹوں پر مشتمل جو ٹرین کا سفر رہا۔۔اس نے میری سوئیٹزرلینڈ دیکھنے کی حسرت بھی پوری کردی تھی۔۔مجھے اس کی لینڈ سکیپنگ دیکھنے کا ہی شوق تھا۔۔جس کے دنیا میں چرچے ہیں۔ گاڑی پہاڑوں اور پہاڑیوں سے گزرتی رہی، جگہ بہ جگہ سرنگیں آ جاتی۔۔بل کھاتی کا منظر بھلا لگتا۔۔کبھی جنگل نظر آتے، کبھی بڑی بڑی جھیلیں۔۔اور سرسبز وشادات حسین وادیاں اور ان کے گاوں۔۔پہاڑوں میں رہنے والے لوگون کی مکمل زندگی کا نقشہ دیکھنے کو مل رہا تھا۔۔ان کے کھیت اور کھلیان دیکھنے والی چیز ہوتی ہے۔ لگتا ہے۔ مختلف رنگوں کے کارپٹ بچھا دیئے ہوں۔ ایک انچ زمین بھی بے کار نظر نہیں آئے گی۔لگتا تھا۔ سڑکوں، پلوں، اور ریل کا اتنی مشکل جگہوں میں جال بچھا دیا ہوا ہے۔ میں نے کوئی 'دہہاتی' علاقہ ایسا نہیں دیکھا، جس میں کوئی بڑی سی انڈسٹری نہ ہو۔۔بڑے وسیع قسم کے کمپنیوں کے شیڈ ہر جگہ دیکھنے کو ملے۔۔گویا انڈسٹری صرف شہروں میں ہی نہیں۔۔انڈسٹری ہر جگہ موجود ہے۔ میں جو سوٹزرلینڈ کو دیکھنا چاہتا تھا، محسوس کرنا چاہتا تھا۔۔اس کی سب سمجھ آ گئی۔ ان لوگوں کی سب سے پہلی چیز محنت ہے۔اپنی زمین ، اپنی زندگی اور اپنی دنیا کو سنوارنا ہے۔۔ میں سوچ رہا ہوں، زندگی کتنی عجیب چیز ہے۔ آپ راہ میں بھٹک بھی جائیں۔۔تو اسے نیا رستہ ہی سمجھیں۔۔ نہ جانے وہاں کیا رکھا ہو۔۔اور وہ آپ کو کہاں لے جائے۔۔ واپس ٹرین پر Bern کے مقام پر چند نوجوان سرخ سفید صحت مند خاص یونیفارم پہنے چڑے۔۔اور میرے ساتھ والی سیٹوں پر بیٹھ گے۔ میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ وہ سویس آرمی ہیں۔۔انہوں نے بئیر کے باکس اٹھائے ہوئے تھے، بیٹھنے ہی بئیر بانٹ کر پینے لگے، مجھے بھی آفر کی، لیکن میرا گلا خراب ہو گیا ہے۔ میں نے معذرت کرلی۔شائد گلا اسلامی جمہوریہ سے باہر نکلنے پر احتجاج کررہا ہے۔۔کہ یہ آزاد فضا کیسے؟ حالانکہ چودہ سو سال کی پیاس کا تقاضہ ہے، وائن اور بئیر سے نہانا تو اپنا حق بنتا ہے۔۔
“