آپ سہانا خواب دیکھ رہے ہیں کہ اٹھنے کا وقت ہو گیا۔ سپنا ادھورا رہ گیا اور آپ بغیر کسی بیرونی عمل کے اٹھ بیٹھے۔
کسی پھولوں کے باغ میں جائیں تو وہاں پر پھیلی خوشبو دن کے ہر حصے میں فرق طرز پر ہو گی۔ ہر طرح کا پھول دن کے خاص حصے پر ہی خوشبو دے گا
پرندے سال کے ایک بالکل ٹھیک وقت میں ہی ہجرت کرتے ہیں۔
آبی حیات کے انڈے دینے کا تعلق چاند کی تاریخوں سے ہے۔
ہر سال ایک خاص وقت پر پودے اپنے پتے جھڑتے ہیں۔
سائنوبیکٹیریا دن کے ایک حصے میں اپنے بڑھنے کا عمل تیز کرتے ہیں۔
ایسا کیوں ہے؟ اس قسم کے سوالوں کے جواب جاننے کا علم کرونو بائیولوجی ہے۔۔ خواہ انسان ہو یا دوسرے جانور، نباتات یا بیکٹیریا، زندگی کے کئی عوامل کا تعلق وقت کے چکر سے ہے۔ ان میں سے سب کا تعلق زمین کی اپنے محور اور مدار میں گردش سے ہے۔
اس علم کا ایک پہلو سراکیڈئین ردھم ہے۔ بائیولوجیکل گھڑی زندگی کے بہت سے عوامل کو چوبیس گھنٹے کے سائیکل پر سیٹ کرتی ہے۔ اس کا پہلا مشاہدہ اٹھارہویں صدی میں کیا گیا تھا جب فرانسیسی سائنسدان ڈی میراں نے مشاہدہ کیا کہ پودوں میں پتوں کی حرکت روز کے حساب سے ہے اور انہیں اگر دھوپ سے دور بھی کر کے اندر بھی رکھ دیا جائے تو بھی ان کی حرکت ویسے ہی رہتی ہے لیکن اس پر باقاعدہ تحقیق نصف صدی پہلے فروٹ فلائی پر شروع ہوئی۔ سب سے پہلے یہ علم ہوا کہ اس گھڑی کا تعلق بیرونی عوامل سے نہیں بلکہ یہ گھڑی جانداروں کے اندر ہی ہے اور اگرچہ کہ بیروںی عوامل اس کو ایڈجسٹ کر سکتے ہیں لیکن اس کا کنٹرول اندرونی ہے اور اس کا اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے کا طریقہ بھی زبردست ہے۔ یعنی کہ بڑھتے گھٹتے درجہ حرارت، کم یا زیادہ روشنی یا دیگر بدلتے عوامل کے باوجود یہ گھڑی ہر جاندار کے لئے اپنے آپ کو درست رکھتی ہے، حالانکہ اس قسم کے بیرونی عوامل زندگی کے لئے دوسرے پراسسز کو متاثر کرتے ہیں۔
میٹابولزم، ہارمونز کی تبدیلیاں سبھی اس گھڑی سے جڑی ہیں۔ یہ گھڑی نہ صرف مرکزی لیول پر ہے یعنی کسی جاندار کے لئے ایک بلکہ خلیاتی لیول پر بھی ہے۔ یک خلوی جانداروں کے اس گھڑی سے تعلق کا اندازہ تو پہلے سے ہی تھا لیکن حال میں سب سے حیران کن مشاہدہ اس کا ہوا کہ جب جگر، پھیپھڑے یا دوسرے ٹشوز کو لے کر الگ کیا گیا اور انہیں کلچر ڈش میں رکھا گیا تو بھی ان کا چوبیس گھنٹے کا سائیکل ویسا برقرار رہا یعنی دماغ کے سپراکیاسمک نیوکلئیس (جہاں مرکزی گھڑیال لگا ہے) سے جدا ہو کر بھی یہ سائیکل نہیں ٹوٹا۔
انسانوں کی صحت مند زندگی کے لئے یہ سائیکل نہائت اہمیت کا حامل ہے۔ وہ لوگ جو جہاز پر لمبے سفر کرتے ہیں یا شفٹوں میں کام کرتے ہیں، وہ جانتے ہوں گے کہ اس سائیکل کا نئے وقت پر ایڈجسٹ ہونا وقت لیتا ہے۔
کس ڈی این اے سیکوئینس کا تعلق ہمارے جسم کی اس گھڑی سے ہے، اس کا علم ہمیں اب ہوا ہے۔ سب سے پہلے پیریڈ نامی جین کی شناخت ہوئی جو کہ پر نام کی پروٹین پیدا کرتی ہے۔ روسباخ اور ہال نے دریافت کیا کہ ہر خلیے میں یہ پروٹین رات کو بڑھتی ہے اور پھر دن کو ٹوٹتی ہے۔ ینگ نے ٹائم لیس نام کی جین دریافت کی جو ایک پروٹین پیدا کرتی ہے جو پر کے ساتھ ملتی ہے اور اسے خلیاتی نیوکلئیس میں داخل ہونے میں مدد کرتی ہے جہاں ڈی این اے پایا جاتا ہے۔ یہاں پر یہ دونوں پروٹینز پیرئیڈ جین سے انٹرایکٹ کر کے مزید پر پیدا کرنے سے روک دیتی ہیں۔ یہ چکر نیگیٹو فیڈ بیک لوپ ہے یعنی ایک عمل کی اپنی آؤٹ پٹ ہی اس عمل کو سست کر دیتی ہے۔ ینگ نے ڈبل ٹائم نامی ایک تیسری جین ڈھونڈی جو اس عمل کے لیے سوئچ کا کام کرتی ہے کہ زمین کی محوری گردش سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔ یہ جینز ملکر جسم کی باقی تمام جینز کے ساتھ ان کی حرکات کی رفتار کو کنٹرول کرتی ہیں جس سے ہمارا جسم دن رات کے چکر سے مسلسل مطابقت میں رہتا ہے۔
اس دریافت پر اس برس ان تینوں سائنس دانوں کو فزیالوجی میں نوبل پرائز ملا ہے۔ ابھی کرونوبائیولوجی کا علم ابتدائی مراحل میں ہے۔ امید ہے کہ ہم زندگی اور زمین کے اس زبردست رشتے سے بتدریج بہتر واقفیت حاصل کرتے جائیں گے۔