الفاظ کی بُنت خیالات کا اظہار ہیں الفاظ آوازوں کا مجموعہ اور تخیل میں تصورات کے محرک ہوتے ہیں لفظ موت حقیقت اور لفظ زندگی ایک سراب کا تصور ابھارتے ہیں
موت کس حقیقت کا ادراک ہے مکمل فنا یا ایک نئے سراب کے پیچھے نئی دُنیا میں داخل ہونے کا عمل ؟انسان کا تمام علم ،فلسفہ،آرٹ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی تگ دو ہے اسی تلاش میں انسان پیراسائیکولوجئ اور میٹا فزکس کے تجربات سے گزرتا ہے جو بے اختیاری نوعیت کے ہوتے ہیں
انھی بے اختیاری تجربات میں ارتقاء کے تکمیلی سفر میں ادھوری رہ جانے والی مخلوقات کا مشاہدہ شامل ہے جو حواس خمسہ کے دائرہ کار سے ماوراء ہیں اور تخیل پر الہام و کشف کے وسیلہ سے حقائق سے پردہ اُٹھاتی ہیں
رات کے پچھلے پہر تاریکی اور سیاہی قلم کے بیچ آنکھ مچولی میں نئے مطالب اور مفاہم قرطاس کے بطن میں اس امید پر پنپتے ہیں کہ ضرور تخیل کی آغوش میں مہکیں گے ۔مگر بے ربط جملوں میں مفاہم کی کوکھ تو بانجھ ہی رہتی ہے حکم ایزدی تھا کہ رہو کھاؤ با فراغت جہاں چاہے اور وجدان کا سر تسلیم خم-
جو مزاج حکم یزداں مگر عقل کہ کوکھ کی بے قراری پر ہمیشگی کی آس لیے امید کا دامن تھامے سایہ شجر کی آغوش میں بیٹھ گئی ۔وجدان کو جدائی کی سزا بول گئی حکم ہوا اُتر جاؤ ۔
داغ مفارقت کیے سینے میں مقام نزول پر ہی سربسجود ہوا کہ پہلا “تَابَ اللہُ علیہ”کا سزاوار ہوا ۔عقل خود اعتمادی کی رہنمائی میں پر پیچ راہوں میں عازمِ سفر ہوئی بھُوگ کی آس کٹھنائیوں، صحراؤں،جنگلوں میں بھٹکاتی پھر رہی تھی کہ قضائے امر ربی تقدیر ہوئی –
وقت کے ساکن دائروں میں زندگی موج در موج بے سمت بڑھتی چلی گئی اور آدم زاد اجتماعی طور پر جدائی کی اطاعت کے عذاب میں مبتلا ہوگیا پھر نوحہ گر کی آہ و زاری طول و عرض میں سنائی دی پر معدود چند بے سود۔آب و آتش اضداد سہی مگر تاثیر میں یکسانیت ہے کہ دونوں پاک کرتے ہیں فیصلہ ہوا کہ نوحہ گر کے آب چشم میں دُنیا غرقاب ہو چند نفوس قدسی آغوش جودی سے پہلی بار حالت جذب کے شاہد ہوئے پھر آدم ثانی زاد ہوا،شاد ہوا ۔۔۔