زمین پر زندگی طرح طرح کے رنگ و روپ میں ہے اور رہی۔ سو بیکٹیریا کو اکٹھا کر دیں تو پھر بھی ریت کے باریک ذرے سے چھوٹے رہیں گے۔ بڑے ہوائی جہاز سے بھاری ڈائنوسار، سمندر کی تہہ سے بھی نیچے مائیکروب، ہزار سال کی عمر کے بڑے درخت، باغ میں اُگے پھل دار پودے، کلکاریاں مارتا شیرخوار بچہ سبھی اس کے بہروپ ہیں۔ زندگی خود خلیات کا مجموعہ ہے اور خلیات کی اپنی پہلی بار دریافت سترہویں صدی کی ہے۔ جب ہم خلیہ کو کھول کر دیکھیں تو اس میں پیچیدگی کی اپنی دنیا نظر آتی ہے۔ ڈی این اے ایک جز ہے جو زندگی کے ہر روپ میں ایک ہی طرح کام کرتا ہے۔ رائیبوزوم کو دیکھیں تو یہ خلیے کے اندر پائی جانی والی چھوٹی مشینیں ہیں اور صرف ہمارے جگر کے ایک خلیے میں ان کی تعداد ایک کروڑ تیس لاکھ ہے اور یہ خود کچھ پارٹس سے مل کر بنی ہیں اور کسی فیکٹری لائن سے کہیں زیادہ پریسیژن سے چلتی ہیں اور اس میں کچھ مبالغہ نہیں۔ ایک پروٹین بنانے کے لئے یہ ایک ایک حرف پڑھ کر اسے تیار کرتی ہیں۔ اس کے لئے امینو ایسڈ اکٹھے کرتی ہیں اور انہیں لمبی زنجیروں میں جوڑتی ہیں۔ ایک سیکنڈ میں دس امینو ایسڈ جوڑنے کا کام ہوتا ہے اور اس پورے عمل میں غلطی کا ریٹ دس ہزار میں سے صرف ایک کا ہے جو کسی اعلیٰ معیار کے مینوفیکچرنگ پراسس سے بہتر ہے۔
لیکن سب سے دلچسپ و عجیب چیز جو ہر قسم کی زندگی میں مشترک ہے، وہ اس کے توانائی کے استعمال کا طریقہ ہے۔ یہ عمل اس طرح کام کرتا ہے جیسے پانی سے بجلی بنانے والا ڈیم۔ خلیہ خوراک سے حاصل کردہ توانائی کو پروٹونز کی صورت میں ایک ریزروائر میں دھکیلتا ہے۔ یہ بند خود بائیولوجیکل ممبرین سے بندھا ہے۔ اس کی وجہ سے توانائی کے لیول کی ایک ڈھلوان بنتی ہے جس میں ایک طرف توانائی زیادہ ہے جو کم ہوتے ہوتے دوسری طرف سب سے کم لیول پر ہے۔ اس میں پروٹون اس طرح سفر کرتے ہیں جیسے پانی ڈیم میں بہتا ہے اور مالیکیول کی ٹربائن ان سے توانائی حاصل کرتی ہیں۔ اس طریقے سے پھر زیادہ توانائی والی کمپاؤنڈ تشکیل پاتے ہیں جو باقی خلیات کی ایکٹیویٹی کو قوت دیتے ہیں۔ فزکس کی نظر سے توانائی لینا اور طریقوں سے بھی ممکن تھا لیکن برگد کے درخت سے لے کر مینڈک یا مچھر کے خلیوں کا بھی صرف پروٹون کو دھکیل کر ہی توانائی لینے کا طریقہ ہے۔
اس طرح توانائی کا طریقہ سورج کی توانائی کے مقابلے میں دس ہزار گنا کثافت رکھتا ہے۔ اگر توانائی کا طریقہ یہ نہ ہوتا تو زندگی میں پیچیدگی ممکن نہ ہو سکتی۔ ساتھ لگی پہلی تصویر اس ٹربائین کی ہے جو حرکت کر کے خلیے کو پاور دیتی ہے اور دوسری تصویر اس عمل کی جو پروٹون دھکیل کر توانائی دینے کا راستہ ہے۔
یہ معلومات نِک لین کی کتاب سے لی گئی ہے۔ نِک لین کو اپنی تحقیق پر پچھلے برس فیراڈے پرائز دیا گیا۔ کتاب میں بائیوکیمسٹری، جیولوجی، فائلوجینیٹکس،ایکولوجی اور کوسمولوجی کے شعبوں سے مدد لے کر زندگی کا بتایا گیا ہے۔ آرکیا اور بیکٹیریا سے یوکارئیوٹ بننے کا اور سمبیوسز ہی کیوں زندگی کا سب سے اہم اصول کیوں ہے، اس سب پر بہت اچھی معلومات اس کتاب سے۔
The Vital Question by Nick Lane