پاکستان سے کل ایک کمینٹ میں یہ پوچھا گیا کے “اگر زندگیاں ہیں ہی روحانی تو پھر جسمانی زندگیاں کیا ہیں ؟” میرا سیدھا سادھا جواب تھا اور ہے ، کے کچھ بھی نہیں ۔ میں جب کراچی کے ساحل پر علی الصبح واک کرتا تھا تو اکثر shell لہروں کے ساتھ زمین پر آئے ہوتے تھے جن میں کچھ گوشت ہوتا تھا جو چیلیں اور کوے کھانے چلے آتے تھے ۔ موت کے وقت اکثر کہا جاتا ہے کیا فلاں زندہ ہے ؟ جسم تو واقعہ ہی موجود ہوتا ہے ، دراصل روح کا پوچھا جارہا ہوتا ہے ۔ ہم جب کراچی سے ہی چین میں seafood کی ایکسپورٹ کا کام کرتے تھے تو اکثر لوگ پوچھتے تھے کے کیا جیلی فش میں زندگی ہوتی ہے ؟ جی بلکل ، جیلی فش کوئ سمندر کا پتھر نہیں۔ ویسے پتھروں میں بھی وائبریشن ہوتی ہے اور باقاعدہ earth energy ۔ ہمارا زندگی کا فلسفہ ہی بہت غلط ہے ۔ جو ہمیں حکمران ، شہنشاہ یا مولوی اور پادری نے بتایا ہم نے مان لیا ۔ نتیجہ پھر یہ ہے کے جسموں کو پَوجا جاتا ہے نہ کے کردار کو جو روحوں سے وابستہ ہے ۔ ان جسموں کے مجسمہ بنائے جاتے ہیں اور روحوں کی روشنی کو مدھم کرنے کی مسلسل جدوجہد جاری و ساری۔
آج رات میں نے rem 3 کی نیند میں بہت زبردست خواب دیکھا ۔ میری نظر زمین پر پڑے ایک sausage نما غبارے پر پڑتی ہے جو میرے سوچنے اور دیکھنے سے مختلف شکلیں بناتا ہے ۔ کبھی کوئ کیڑے مکوڑوں کی ، کبھی سانپ کی اور کبھی کوئ ۔ کیونکہ میں کل شام روزویلٹ پارک میں روح کے بارے میں بہت زیادہ سوچتا رہا لہٰزا اس کا مظاہرہ میں نے الہامی طور پر خواب میں بھی دیکھا ۔ یہ سارا کھیل ہی روح کا ہے ، باقی سب ہیر پھیر ہے ۔ باقی تو سب انسانی بدمعاشی اور جبر کی کہانی ہے ۔ روح بلکل اس بک بک سے آزاد ہے اور سب روشنیوں کے ساتھ منسلک ہے ۔
آرجانٹائن کے سابقہ صدر Juan Peron کا ایم بہت مشہور قول ہے جو موجودہ صدر بھی اکثر quote کرتا ہے کہ ۔
“The masses don’t think , the masses feel.. “
عوام کے احساسات کے سوداگر سیاستدان ہیں ۔ انہوں نے ان کو غلام بنایا ہوا ہے ۔ سارا کھیل شعور اور آگہی کا تھا جو ان لٹیروں نے آنے نہیں دی ۔ وہ چاہتے ہی نہیں کوئ بھی روح کی بات کرے اور ان کی دوکانیں بند ہو جائیں ۔ چند جعلی پیر بھی روحوں کے سوداگر بن بیٹھے اور عجب کھچڑی پکا دی گئ ۔
اس سب گند سے بہت آسانی سے نکلا جا سکتا ہے ، لیکن دنیا کی حوس ہمیں نکلنے نہیں دے رہی ۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے ۔
امریکہ کے جریدے Atlantic نے اس دفعہ کے شمارے کا سرورق بڑا عجیب لگایا ۔ sex recession، کے عنوان سے ایک بہت ہی دلچسپ مضمون ، رسالے کی سینیر ایڈیٹر Kate Julian نے لکھا ۔ آپ سب گوگل کر کے ضرور پڑھیں ۔ اس مضمون کا بھی لب لباب یہی ہے کے کیسے ہم قدرت سے بہت دور چلے گئے اور آج renewal جیسے بنیادی کلیے سے بھی پیچھے ہٹ گئے ۔ چین نے کہاں ایک بچہ کے لیے قانون پاس کیا اور آج لڑکیوں کی منتیں کی جا رہی ہیں کے بچے پیدا کریں ۔ یہ ساری زندگیاں جسموں کی زندگیاں نہیں تھیں لہٰزا سب کا بھٹہ بیٹھ گیا ۔ یہ تو ایک continuous renewal اور procreation کا معاملہ تھا جیسے ایک گلاب کے پودے سے ہر بہار نجانے کتنے پھول کھلتے ہیں اور پھر خاک مین مل جاتے ہیں اور اگلی بہار اسی پودے کو نئے پھولوں سے دلہن بناتی ہے ۔ یہ سب ایک cycle ہے ، پروسیس ہے ، جس میں ہم status quo سے رکاوٹیں پیدا کر کے جسموں کے بھی پرخچے اڑا رہے ہیں اور روح کی روشنی کو بھی بجھا رہے ہیں ۔ ایسا ممکن نہیں ۔ قدرت کے ساتھ جنگ ناممکن ہے ۔
آسٹریا میں ایک ۳۱ سالہ جوان لڑکا اس کا چانسلر بنا ہے ۔ یہ آسٹریا کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا ۔ وہ کمرشل جہاز کی اکانومی کلاس میں سفر کرتا ہے اور تمام مسلمان اماموں کو کہا ہے کے اپنے خطبہ جرمن زبان میں دیں ۔ سارا وقت وہ عوام کو خوش کرنے کے چکر میں لگا رہتا ہے ۔ یونان کے سربراہ نے شام کے پناہ گزین یہ کہ کر لینے سے انکار کیا تھا کے میں اپنے ملک کو warehouse of souls نہیں بنانا چاہتا۔ یہاں امریکہ میں ہی موجود صومالیہ کے مشہور ناولسٹ نورالدین فارح نے اپنے ایک ناول میں لکھا کے
“behind every death in the news , is living , feeling family “
یہ ہے وہ جزبہ ، احساس ، روح اور زندگی جو کچھ لوگوں کو روح کی اس دنیا سے منتقلی پر تو یاد آ جاتی ہے لیکن زندگیوں میں نہیں ۔ باقی بہتوں کو تو تب بھی نہیں یاد آتی ۔ بہت ہی دکھ بھری داستان ہے ۔ کل کسی نی مجھ سے پوچھا کے آپ نے زندگی کا کیا مقصد پایا؟ میں نے کہا محبت اور شکر گزاری ۔ یہی ہمارا اس دنیا میں آنے کا مقصد تھا اور رہے گا ۔ ہم بھٹکے ہوئے ہیں ، کتنا اور عرصہ بھٹکے رہیں گے ؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ میرے خیال میں مزید کم از کم پچاس برس ۔ جیتے رہیں ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...