کل دوپہر جب میں آخری دفعہ آپ سے شیراٹن نیواورلینز کی لابی سے رابطہ میں تھا تو میرا ایک پاکستانی دوست مجھے لینے آ گیا ۔ وہ بھی مجھ سے میرے بلاگز کے زریعہ رابطہ میں آیا۔ وہ ماشاء اللہ اورلینز شہر سے دور ایک بہت بڑی جھیل کے کنارہ رہتا ہے ، یہ جھیل بھی مسسیسیپی دریا سے نکلتی ہے ۔ چونکہ یہاں بھی ہالینڈ کی طرح سمندر کی سطح زمین سے نیچے ہے لہٰزا بہت چینلز بنے ہوئے ہیں جو شہر سے گزرتے ہیں اور جھیلوں کی صورت بھی اختیار کرتے ہیں ۔ اس جھیل پر دنیا کا ۲۴ میل لمبا طویل ترین پُل ہے ۔ میرے دوست کی کیا زبردست 8 اسٹار فیسلیٹی ہے ۔ میں اسے کہ رہا تھا کے دل کرتا ہے ادھر ہی ٹھر جاؤں اور کوئ کتاب لکھ ماروں ۔
جنگلوں اور پہاڑوں میں رہنے کے بعد مجھے پانی کے کنارے رہنے کا بہت شوق ہے ۔ بہت عرصہ کراچی کے ساحل سمندر پر گزارا ۔ اور متعدد بار اسی پانی کی شفافی اور طلسم کو ڈھونڈنے چین ، تائیوان اور تھائ لینڈ کے beaches پر گیا ۔ پانی کی ایک اپنے زندگی ہے ۔ ایک اپنی روانی ۔ جب میں پہلی دفعہ باکو گیا اور Caspian Sea کے سامنے کوئ بارہ گھنٹے مسلسل بیٹھا رہا تو پولیس کو شکایت کر دی گئ کے ایک شخص سمندر کی بولیورڈ پر منجمد ہو گیا ہے ۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں پانی کے ساتھ بہ رہا ہوَں ۔ مجھے اکثر escalator کے سامنے کھڑے ہونے میں بہت لُطف آتا ہے ۔ میں اسے زندگی کی حرکت کا نمونہ سمجھتا ہوں ۔ دراصل ہم وہ escalator کی بیلٹ ہیں جو Now میں رہ کر 24/7 چل رہی ہے ۔ کچھ نادان لوگ جلدی والے اس پر چل کر اوپر جاتے ہیں ، کچھ میرے جیسے سست ایک ہی جگہ کھڑے رہتے اگلی منزل پہنچ جاتے ہیں اور ۹۰ فیصد بیوقوف نیچے آنے والے escalator پر ساری زندگی اگلی منزل کی جدوجہد میں جَتے رہتے ہیں ۔ خیر اپنی مرضی ، اپنا شوق اور اپنی ہی سمجھ یا نادانی ۔
یہاں سے سمندر بھی کوئ چار میل کے فاصلہ پر ہے اور اس بہت تیز ہوا چل رہی ہے بلکل پھوکٹ کے Patong beach کی طرح ۔ کیا نظارہ ہے ۔ ساری کائنات میرے ساتھ رقص میں مصروف ۔ انتہا کی خاموشی ، سوائے لہروں اور ہواؤں کے شور کے ۔ ایسے نظاروں میں میری روح جسم چھوڑ دیتی ہے اور جب میں رات کو سوتا ہوں تو تیسری آنکھ سے پورے دن کی فلم چلتی ہی جاتی ہے ۔ کیا سرور مل رہا ہے ، کمال کا cosmic dance ، جو سب کے لیے بلکل فری ہے اور سب کے ہر وقت ساتھ ، کیا ہے ہمارے پاس وقت اور ہمت نہیں اس رقص کی ۔ کیا کریں ، حالانکہ بس صرف شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے اور آپ جنت میں ۔
کل پاکستان سے ایک دوست نے رابطہ کیا اور کہا کے آپ روحانی پیر ہیں میرے لیے نیو اورلینز کی مٹی لانا ۔ میں نے کہا دراصل آپ خطا پر ہیں ہم سب روحانی ہیں، سب ہی پیر ہیں ، اور ہر وقت ہر جگہ موجود ۔ بس تھوڑا آنکھیں بند کر کے ادھر پہنچنے کی ضرورت ہے ، اس سب معاملہ کو جاننے کی ضرورت ہے ۔ ایکہارٹ ٹولے نے کہا تھا ہم ایک linear لائین پر نہیں ہے جہاں کوئ ماضی حال یا مستقبل ہے ۔ ہم ہر جگہ موجود ہیں لیکن صرف اور صرف now میں ۔ باقی سب جھوٹ ہے ، دھوکہ ہے فریب ہے ۔ مجھے اکثر اوقات خیال ہی خیال میں اب سے کئ سو سال پہلے میں چلا جاتا ہوں ۔ میں تو ایسی ایسی جگہوں پر موجود تھا جہاں سوچتا ہوں کیا وہ میں تھا ؟ میری روح ؟ جواب ملتا ہے وہ سب ۔ یہ ہے oneness جو بہت رنگین ہے اور مسحورکن بھی ، اس کے ساتھ بہنے کی ضرورت ہے ۔ مومن خان مومن کا وہ شعر یاد آ گیا جس پر مرزا غالب نے سارا کلام اس کے عوض دینے کا کہ دیا۔
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئ دوسرا نہیں ہوتا
مومن خان مومن ، حکیم ، شطرنج اور علم النجوم کے ماہی تھے لہٰزا وہی یہ راز جان سکتے تھے ۔
سوچتا ہوں میرا آج والا بلاگ مجھے معاشرے میں پاگل کہلوائے اگر میرا دوست میری اس منزلت کی شہادت نہ بنے ۔ یہی ہمارا المیہ ہے ، اسی سے باہر نکلنا ہے تاکہ اس نا ختم ہونے والے رقص کا حصہ بم سکیں جس کی گواہی تمام پیغمبروں ، ولیوں اور اصحاب کہف نے دی ۔
آج شام لاس اینجلاس کے لیے جہاز پکڑنا ہے ، جہاں بھی بہت حسین نظارے میرے منتظر ہوں گے ۔Beverly Hills کے سارے دیوتا ، سینٹ مونیکا بیچ کے پانی اور ہالی وُڈ کی پریوں کا جُھرمٹ ۔ میری دعا ہے آپ سب اپنی زندگیوں سے ہر ممکن لُطف اندوز ہوں اور اس روحانی رقص میں روشنی کا آلاؤ مزید جلائے رکھیں ۔ اللہ تعالی آپ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...