زندگی
سائیں بابا نے فرمایا،شبیر میاں ،زندگی بزات خود کسی معانی یا مقصد کی محتاج نہیں ہوتی۔کیونکہ زندگی معانی ومقصد کانام نہیں ہے۔زندگی تو صرف ایک خوبصورت موقع ہے ،ایک ایسا موقع کہ جس سے معانی و مقاصد تخلیق کئے جاسکتے ہیں ۔وہ جو زندگی کے معانی و مقاصد کو دریافت کرنے میں لگ جاتے ہیں ،وہی تو ہیں جو حقیقت میں بھٹکے ہوئے لوگ ہیں ۔زندگی کا لطف تو وہ انسان لے رہے ہیں جو کچھ نہ کچھ تخلیق کئےجارہے ہیں ۔زندگی کے معانی و مقصد اگر ہیں ،تو اس کے بارے میں بھی وہی جانتے ہیں جو تخلیق کار ہیں ۔وہ جو تخلیق کرنے کا آرٹ سمجھتے اور جانتے ہیں ۔سائیں بابا نے مسکراتے ہوئے کہا ،زندگی گھر سے آفس اور آفس سے گھر آنے جانے کا نام نہیں ہے اور نہ ہی یہ زندگی کے معانی ہو سکتے ہیں ۔زندگی بڑے یا چھوٹے عہدے کا نام نہیں ،زندگی صرف دولت کے پہاڑ کھڑے کرنے کا نام بھی نہیں ،بڑی بڑی عالیشان گاڑیاں اور محلات و بنگلوں کانام بھی زندگی نہیں ۔میڈیا ہاؤسز ،جاتی امراء،بلاول ہاوس، اور رائےونڈ محل بھی زندگی کے معانی و مقصد نہیں ۔سوئیٹزلینڈ کے بینکوں میں اربوں ڈالرز رکھنے کا نام بھی زندگی نہیں ۔قیمتی ترین ملبوسات زیب تن کرکے انا اور غرور میں رہنے کا نام بھی زندگی نہیں ۔جلسے جلوس کرنا،اور زندہ باد و مردہ باد کہنا ،یا بادشاہ و وزیر اعظم یا صدر بننے کا نام بھی زندگی نہیں اور نہ ہی یہ زندگی کے مقاصد ہو سکتے ہیں ۔زندگی محبت، خوشی اور احساس کی تلاش کا نام ہے ۔زندگی یہ بھی نہیں کہ انسان سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جنگلوں یا پہاڑوں میں بھٹکتا پھرے یا وہ یہ کہہ کہ اسی جنگل یا پہاڑ میں وہ زندگی کو دریافت کرسکتا ہے۔زندگی کوئی چٹان بھی نہیں کہ انسان جائے اور اسے فتح کر لے ۔زندگی فتح و شکست سے ماورا ہوتی ہے۔میں نے کہا بابا اگر زندگی یہ نہیں تو پھر کیا ہے؟بابا نے کہا ،زندگی شاعری ہے،گیت ہے ،نغمہ ہے ،رقص ہے ۔زندگی موسیقی ہے ۔اور یہ سب کچھ تخلیق کیا جاتا ہے اور اس تخلیق کو انجوائے کیا جاتا ہے۔اس کائنات کے کڑوروں انسانوں نے زندگی کے معانی کو بے معانی اس لئے کردیا ہے کہ وہ ہر وقت اسے دریافت کرتے رہتے ہیں ۔زندگی تخلیق کا نام ہے ۔زندگی کے سائنسی یا مذہبی معانی نہیں ہوتے ،لیکن اس دنیا کا انسان زندگی کو انہی معنوں میں لیتا ہے۔۔زندگی فرمابرداری یا پیروی کرنے کا نام نہین ،نہ ہی کسی نظریئے یا انقلاب کے پیچھے بھاگنے دوڑنے کا نام ہے ۔زندگی انجوائے کرنی ہے تو پھر ہر انسان خود اپنا سچ کو تلاش کرے ۔معلوم نہیں انسان کیوں ہمیشہ اس انتظار میں رہتا ہے کہ اسے معانی ومقصد مل جائیں ۔یہ نظریہ ہی بدصورت ہے ۔معانی و مقصد پہلے سے ایجاد یا دریافت کرنے کا نام زندگی نہیں موت ہے ۔ہر انسان کے پاس یہ آزادی ہے کہ وہ خود مقصد کو تخلیق کرے ۔اور انسان کے پاس یہ خوبی ہے کہ وہ معانی و مقصد کو تخلیق کرسکتا ہے ۔جب تک انسان خود معانی و مقصد تخلیق نہیں کرے گا وہ زندگی کو انجوائے نہیں کرسکتا ،وہ راحت اور سکون سے محروم رہے گا ۔بابا نے کہا ،بیٹا جی ،زندگی کو انجوائے کرو،اسے تخلیق کرو،مہم جوئی کرو ۔یہی خوشی ہے بلکہ ازحد خوشی ہے ۔بابا نے کہا،۔سوال یہ ہے کہ کیا ہم دنیا کی خوبصورتی میں کوئی کردار ادا کررہیں؟کیوں آخرہم زندگی میں مٹھاس اور خوشبو نہیں لاسکے؟اس کے بارے میں ہمیں سوچنا چاہیئے؟کیا وہ عظیم نہیں جس نے ایک خوبصورت نغمہ تخلیق کیا؟جس نے خوبصورت شاعری تحریر کی ۔وہ عظیم ہیں جو اپنے خوبصورت آرٹ سے دنیا کو دلکش بنا رہے ہیں ۔وہ بہترین ہیں جو دنیا کو حسین ،شائستہ،رنگین اور دلکش بنا رہے ہیں ۔معانی تو صرف تخلیق سے پیدا ہوتے ہیں ۔اس لئے نظریات کو بھی اب شاعرانہ اور جمالیاتی ہونا ہوگا ۔جو پہلے ہی یہ فیصلہ کر لے کہ زندگی یہ ہے تو پھر کیسے زندگی کی سچائی کو تلاش کیا جاسکتا ہے؟انکوائری کو ہمیشہ خالص ہونا چاہیئے ۔کسی بھی انکوائری کا پہلے سے ہی نتیجہ اخز کر لینا سچائی نہیں ۔ہمارا مسئلہ ہی یہی ہے کہ پہلے سے ہی مقاصد پیدا کرکے بیٹھے ہیں ۔اس طرح کی انکوائری ۔ناخالص ہے ۔ایک انسان باغ میں جاتا ہے اور چاہتا ہے کہ اسے اس باغ سے قیمتی ترین ہیرا مل جائے ،یا خوبصورت خاتون مل جائے ،اگر نہیں ملتی تو پھر کہہ کہ یہ باغ ہی گندہ ہے تو ایسے انسان کے بارے میں کیا کہا جائے ؟وہ تو اس ہیرے ،اس حسین خاتون کو منزل بنائے بیٹھا تھا ۔اس کے لئے اس حسین باغ کے معانی ہی نہیں ۔اس کو چاہیئے کہ وہ اس باغ میں جو دنیا ہے اس کے حسین اور خوبصورت پھولوں کو دیکھے،نغمے گنگناتے پرندے بھی تو اس باغ میں ہیں ۔کتنے رنگ ہیں اس باغ میں جہاں ہوا چل رہی ہے ،لیکن وہ ان میں معانی ہی تلاش کرنا نہیں چاہتا ۔اس کی وجہ وہ آئیڈیا یا نطریہ ہے جو اس نے پہلے ہی سے تیار کر رکھا ہے ۔ہیرا یا حسین خاتون ہی اس کی زندگی کا مقصد ہے ،تو ایسے انسان پر رحم ہی کیا جاسکتا ہے ۔وہ اس باغ کو انجوائے نہیں کر پارہا اپنے نظریئے کی وجہ سے ۔انسانوں کو اپنی انکوائری کو خالص بنانے کی ضرورت ہے ۔ کسی بھی فکسڈ نطریئے کے ساتھ زندگی نہیں گزارنی چاہیئے۔زندگی کے تو کروروں معانی و مقصد ہوتے ہیں ۔دیکھو ایک پتھر سورج کی روشنی سے چمک رہا ہے،دیکھو شبنم کے قطرے آسمان پر کس طرح کی دلکش قوس و قزح تخلیق کررہے ہیں ۔کیسے ایک چھوٹا سا پھول ہوا کی وجہ سے رقص میں ہے۔اب اس میں کیا معانی و مقصد ملوث ہے؟یہی زندگی ہے اور اسی کو ہم بھلا ئے بیٹھے ہیں ۔پہلے سے اخذ نتیجے کے ساتھ زندگی کی شروعات نہیں کی جانی چاہیئے۔ایسا ہوگا تو پھر جنگ ہوگی،بربادی ہوگی ،غصہ اور نفرت ہوگا اور یہ سب کچھ ہم اپنے معاشرے میں دیکھ سکتے ہیں اور اس چیز کا مشاہدہ بھی کرسکتے ہیں ۔کسی نتیجے کے بغیر زندگی کے حسین باغ میں اتر جانا چاہیئے اور پھر اس باغ میں بھرپور انجوائے کرنا چاہیئے اور یہ دنیا وہ حسین اور دلکش باغ ہی تو ہے ۔علم و نطریات سے بھرپور انسان بھی سچ کی تلاش نہیں کرسکتا ۔کیونکہ وہ بھی تو فکسڈ آئیڈیاز سے لبریز ہے ۔کتابوں ، ،نظریات ، ڈاکٹرائنز،فلسفے کے بوجھ کو لے کر زندگی کے معانی نہیں تلاش کئے جاسکتے ۔انہی کی وجہ سے تو ہم خوبصورتی اور محبت سے محروم ہو رہے ہیں ۔انسان کودماغ کو صاف و شفاف رکھنا چاہیئے۔خالی دماغ بہترین دماغ ہے ۔جو کہتے ہیں خالی دماغ شیطان کا گھر ہے بنیادی طور پر وہی ہیں جو شیطان کے ایجنٹ ہیں ۔خالی دماغ خدا کے اور فطرت کے زیادہ قریب ہوتا ہے ۔خالی دماغ کے ساتھ شیطان کچھ نہیں کرسکتا ،شیطان جو بھی کرتا ہے اگر کچھ کرتا ہے اور اگر ہے تو وہ خیالات ونظریات سے بھرپور دماغوں کے ساتھ کرتا ہے ۔وہ ںطریات سے مزین دماغوں کی وجہ سے انسانی دنیا کی تباہی کرتا ہے ۔خالی دماغ شیطان کے لئے کسی کام کا نہیں ۔ان نطریات کی وجہ سے ہی دماغ کنفیوزن کا شکار رہتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی دماغ خیالات کی وجہ سے واضح اور شفاف نہیں ہوتا ۔وہ بہت زرائع سے بہت ساری چیزین اپنے اندر جمع رکھتا ہے ،اس لئے انسان کا دماغ بدصورت ہوجاتا ہے ۔کیونکہ دماغ ایسا گدھا بن چکا ہے جس نے نظریات کا بوجھ اٹھا یا ہوا ہے ۔اسی وجہ سے انسان حقیقت کو بھول چکا ہے ،سچائی سے محروم ہوچکا ہے ۔سائیں بابا گفتگو کرتے کرتے اچانک خاموش ہوگئے ۔میں نے پوچھا بابا کیا ہوا ہے ۔بابا نے کہا ،بیٹا میں نے کہیں اور جانا ہے ،گفتگو ابھی نامکمل ہے ،کل دوبارہ یہی سے گفتگو کا آغاز کریں گے ،ابھی مجھے جانا ہوگا ۔میں نے کہا بابا ٹھیک ہے ،کل پھر نشست ہوگی ۔بابا نے کہا اب اپنی آنکھیں بند کرو۔میں نے ایک لمحے کے لئے آنکھیں بند کی ۔آنکھیں کھولی تو بابا جا چکے تھے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔