زندہ باد جسٹس شوکت صدیقی جبران ناصر بلاول بھٹو زرداری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شوکت صدیقی
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت صدیقی اپنے فیصلوں اور دوران سماعت اپنے ریمارکس کی وجہ سے خبروں میں رہتے ہیں ، لوگ ان کو ایک مذہبی شخصیت سمجھتے ہیں ، میرے نزدیک کسی کا مذہبی ہونا جرم نہیں جب تک اس کے مذہبی متعصب پن کی وجہ سے کسی دوسرے کو نقصان نہیں پہنچتا ،، پچھلے دنوں جسٹس شوکت صدیقی نے ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران ملک کے چیف آف آرمی سٹاف کا نام لے کر کھلی عدالت میں کہا ،، آئی ایس آئی ججوں کو اپروچ کرتی ہے اپنی مرضی کے بینچ تشکیل کراتی ہے اور اپنی پسند کے فیصلے کرواتی ہے ، چیف آف ارمی سٹاف اس کی روک تھام کریں ۔۔۔ مجھے نہیں علم کہ یہ باتیں انہوں نے فیصلے میں لکھیں یا صرف ریمارکس میں کہیں ،، ہر دو صورت میں یہ ایک بہت بڑی آواز ہے جو آج کی عدلیہ کی طرف سے اٹھی ہے کسی زمانے میں ایسی آوازیں رستم کیانی صاحب کی طرف سے آتی تھیں ،،، میں جسٹس شوکت صدیقی کو حق کی آواز اٹھانے پر سلیوٹ کرتا ہوں
جبران ناصر
آج کل پاکستان میں انتخابی موسم ہے ملک کی سیاسی پارٹیاں اور آزاد امید وار لوگوں کی توجہ اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے مختلف حرکتیں کرتے ہیں ، کوئی تندور میں روٹیاں لگا رہا ہے ، کوئی گلیوں میں جھاڑو دے رہا ہے ، دو دو سال پہلے مرے ہوئے لوگوں کی تعزیت کرنے ان کے وارثوں اور اپنے ووٹروں کے گھر جا رہا ہے اور کوئی ننگے پیر عمرہ کرتا ہے اور ننگے پاوں بزرگ ہستیوں کے مزاروں کی چھوکٹ پہ سجدے کرتا پھرتا ہے ایسے میں جبران ناصر ملکی مسائل پہ بات کرتا ہے ،،، ایک کارنر میٹنگ میں جب لوگوں نے جبران ناصر سے مطالبہ کیا کہ وہ احمدیوں پہ لعنت بھجے تو ناصر نے کھلے عام اس سے انکار کر دیا اور کہا میں ووٹوں کے لیے اپ کو کلمے پڑھ کر نہیں سناوں گا ، میں کسی فرد ، فرقے یا کسی مذہب کے ماننے والوں پہ لعنت نہیں بیھجوں گا ،، اس وقت ناصر نے لوگوں کا مطالبہ ماننے سے انکار کر کے اتنا بڑ ارسک لیا تھا کہ آپ تصور نہیں کر سکتے اگر ہجوم سے ایک شخص بھی ایک پتھر ناصر کو مار دیتا تو جبران ناصر کا وہی حال ہونا تھا جو مشال کا ہوا تھا ،مگر سیلوٹ ہے جبران ناصر پہ وہ کہ اپنے اصول پہ ڈٹا رہا اور اس نے مذہبی متعصب پن کو ٹھکرا دیا
بلاول بھٹو زرداری
جیسا کہ میں نے کہا سیاسی پارٹیوں کے لوگ ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کو گندی زبان سے مخاطب کر رہے ہیں ،، کوئی کسی کو بے غیرت کہہ رہا کوئی کسی کو گدھا کہہ رہا ہے کوئی کسی کو کنجری کی اولاد کہہ رہا ہے اور کوئی کسی کو یہودی ایجنٹ کہہ رہا ہے ۔۔ لوگوں کو اصل مسائل کی نشاندھی اور ان کے حل کے بجائے صرف اور صرف ایک دوسرے پر گھٹیا الزامات پہ مبنی تقاریر کی جا رہی ہیں ایسے میں بلاول بھٹو زرداری جن کی یہ پہلی انتخابی مہم ہے اپنی تقاریر میں کسی کو نازیبا الفاظ سے مخاطب نہیں کیا کسی کے ناموں کو نہیں بگاڑا ،، وہ بہت تحمل سے صرف اور صرف مسائل پہ بات کر رہا ہے ملک کو درپیش خطرات کی بات کر رہا ہے ، ملک کی معاشی صورت حال پہ بات کر رہا ہے اپنی پارٹی کے منشور کی بات کر رہا ہے ، وہ پاکستان مین روشن سیکولر ترقی پسند نظریات کی بات کر رہا ہے ،،( پچھلے سالوں کشمیر کے انتخابات کے دوران بلاول نے جو انڈیا کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کی تھیں میرا خیال ہے بلاول کو اس کا اندازہ ہو گیا ہے اسی لیے اس انتخابی مہم میں بلاول نے وہ زبان استعمال نہیں کی )
بلاول پاکستان مین ایک نیا سیاسی کلچر متعارف کرا رہا ہے ک دوسرے کو گالی دینے کی بجائے اصل مسائل پہ بات کی جائے ،، سیلوٹ ٹو بلاول بھٹو زرداری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“