زندہ رود
ثناءاللہ خان احسن
علامہ اقبال کی سوانح حیات جو ان کے فرزند جاوید اقبال نے لکھی۔
اس کتاب کی تحریر کے متعلق جسٹس جاوید اقبال کہتے ہیں کہ ’’ اس کتاب (زندہ رود)کے لئے مواد جمع کر رہا تھااور پہلے باب (سلسلہ اجداد)کی تدوین کے لئے تحقیق شروع کر دی تو اس دوران اپنی بیوی سے مذاق کے طور پر کہاکہ کشمیری پنڈتوں نے ہندو ستان کو سیاسی آزادی دلوائی اور آزاد مسلم ریاست یعنی پاکستان کے قیام کا تصور بھی‘سو یہ پنڈتوں کے آپس کاجھگڑا معلوم ہوتا ہے‘‘۔اس کے بعد جاوید اقبال خواب میں علامہ اقبال کو دیکھتے ہیں اور انہیں ناراضگی کے عالم میں پاتے ہیں اور اس پر جاوید بہت ہی مایوس ہوتے ہیںکہ آخر اس کی وجہ کیا ہے۔چناچہ ان کی بیوی نے انہیں یقین دلایا کہ اس ناراضگی کا اشارہ انہیں ضرور ملے گا‘جس پر جاوید نے غور ہی نہ کیا۔جاوید کہتے ہے کہ دوسری رات کو بارہ بجے نیند نہ آنے کہ وجہ سے دل میں خیا ل آیاکہ کسی کتاب کا مطالعہ کریں تو الماری میں سے یوںہی ایک کتاب نکالی تو ہاتھ میں ’’روز گار فقیر‘جلد دوم‘‘لگی تو بنا کسی ارادے کے کھول کراچانک نگاہیں کتاب کے صفحہ 121پڑی تو اقبال کا یہ قطعہ نظر آیا: ؎
بت پرستی کو مرے پیش نظر لاتی ہے
یادایام گذشتہ مجھے شرماتی ہے
ہے جو پیشانی پہ اسلام کا ٹیکا اقبال
کوئی پنڈت مجھے کہتا ہے تو شرم آتی ہے
جب جاوید اقبال نے یہ بات اپنی بیوی کو بتائی تو تب انہیں معلوم ہوا کہ ’’پنڈتوں کا آپس میں جھگڑے‘‘والی بات ناراضگی کی وجہ ہے۔
’’زندہ رود‘‘متن
(text)
کامطالعہ قارئین کو جاندار موضوع کی وجہ سے اس قدر مؤثر کر لیتا ہے کہ آیا یہ تصنیف جاوید اقبال کی لکھی ہوئی علامہ کی سوانح حیات نہیں بلکہ ایک آپ بیتی ہے جو علامہ نے خود اپنے لیے تحریر کی‘جس کی وجہ اس کتاب کے وہ موضوعات ہیں جو مستند حالات و واقعات کی عکاسی کرتے ہیں۔ جسٹس اقبال نے اس تصنیف کا عنوان’’زندہ رود‘‘منتخب کیا ،جو حقیقت میں اپنے اندر ایک ایسا
Discourse
رکھتا ہے جو علامہ اقبال کی ایک پہچان ہے۔خیر اس تصنیف کا عنوان علامہ ہی کے کلام سے ماخوذ ہے، جو جاوید اقبال کی تابعداری کا ایک عیاں ثبوت ہے۔اصل میں اس عنوان کا پس منظر گوئٹے
Goethe
کا شا ہکارایک منظوم کلام بہ عنوان’’نغمہ محمدیہ ﷺ‘‘ ہے۔تصنیف’’زندہ رود‘‘فنی ہیت
(Artistic Form)
لیئے ہوئے ہے اور ایک قاری کے لیے بیک وقت کئی ساری ادبی اصناف کا انکشاف کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔سب سے پہلے ایک تاریخ کی شکل و صورت اختیار کرکے قارئین کو متوجہ کرتی ہے۔اگر چہ کتاب کی بنیادی حیثیت ایک سوانح کی ہے لیکن اس میں زمانے کے حالات و واقعات اس ترتیب سے پیش کیے گئے ہیں کہ ایک حقیقی ناول کی ہیت میں ظاہر ہو کر یہ تصنیف ایک ’’ناول‘‘ معلوم ہوتا ہے۔
اس لنک سے آپ زندہ رود کے دونوں وولیمز ڈائونلوڈ کرسکتے ہیں۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔