زندہ لوگوں کی ایک اور شام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج تیرہ جنوری بروز ہفتہ شام چار بجے حسبِ معمول زندہ لوگ کے اجلاس کا وقت تھا۔آج یہ اکتیسواں اجلاس تھا۔میں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے، دیر سے پہنچا۔ اور جب پہنچا تو میرا پسندیدہ موضوع چھڑا تھا اوربڑی دلچسپ باتیں ہورہی تھیں۔ میں نے کسی سے ہاتھ نہ ملایا کہ اِس سے محفل کاجوش متاثرہوتا، سومیں آداب تسلیمات کے سے انداز میں اپنا ہی ماتھا چھُوکرایک صوفے پربیٹھتے ہی ہمہ تن گوش ہوگیا۔
مسعود مفتی کہہ رہے تھے،
’’یہاں میں ایک مثال دوں؟ میں اسّی کی دہائی میں ملیشیا گیاہوا تھا۔ وہاں حکومت کی طرف سے ایک حکمنامہ جاری ہوا کہ آئندہ کوئی خاتون جو پبلک سروس میں ہوگی، وہ چہرے کونقاب میں نہ چھپائےگی کہ اِس سے سیکیورٹی کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔لیکن اِس حکمنامے کی جو تمہید تھی وہ اس بات سے کی گئی تھی کہ چہرے کو نقاب میں چھپانا عرب کلچرکاحصہ ہے نہ کہ اسلامی کلچرکا۔میرے ذہن میں یہ بات پہلے سے تھی کہ عرب کلچرکی ہرچیز اسلامی نہیں۔سو اُس وقت مجھے احساس ہوا کہ ملیشیا والوں نے اس حقیقت کو سمجھ رکھاہے‘‘
مفتی صاحب کی تائید میں جلیل عالی صاحب نے کہا،
’’جی ہاں! اور اقبال نے یہ بات ایک خط میں جناح کو لکھی ہے۔ اقبال نے جناح کو لکھا کہ ہمیں اپنے اُوپر سے یہ چھاپ اُتارنی ہے کہ ہم ثقافتی اعتبارسے بھی عربوں جیسے ہوجانا چاہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ انٹرنیشنل انٹیلکچول بیانیے نے اقبال کو ایک شاونسٹ (Chauvinist) بناکرپیش کیا ہےاورہمارے انٹیلکچول اس حوالے سے بات تک کرنے کے روادار نہیں ہیں۔اِقبال کی تشکیل کردہ قومیت کے بغیر پاکستان کی ثقافت پر کوئی بات ہوسکتی ہے نہ قومی صورحال پر۔ پاکستان کا کوئی ادب، کوئی تنقید اُس وقت قوم کی حقیقی نمائندہ نہیں رہ جاتی جب وہ اِس سے انحراف کرتی ہے۔مثلاً اگرحسن عسکری نے انحراف کیا ہے تو وہ بھلا کتنے منسلک رہ گئے ؟ ماڈرنسٹوں نے اِس سے اختلاف کیا تو وہ کتنے متعلق رہ گئے؟ اچھا چلو! آپ اِس بات کو ہی چھوڑدیں کہ پاکستان بننے کا جواز اسلامی ہندکی قومی بنیاد تھی، آپ اُن ترقی پسندوں اور سوشلسٹوں سے ہی کوئی نئی بات معلوم کرکے ہمیں بتادیں۔آج ہمیں سترسال ہوگئے اُن سے بات کرتے ہوئے۔ جب بھی پاکستان کی تخلیق کا ذکر آتاہے اُن کے پاس کوئی مثبت بنیاد نہیں ہوتی۔انہیں ہمارا جواز قبول نہیں تو وہ اپنا جواز لائیں۔ سچ یہ ہے کہ وہ تشکیل جو اقبال نے کردی اُس کا کوئی ثانی موجود نہیں۔ وہی ہماری تشکیلِ جدید ہے۔ اُسی سے ہم سب کو معلوم ہوتاہے کہ ہم فی الاصل کون ہیں‘‘
استادِ محترم جلیل عالی کی محفل ہو اور اقبال کا ذکر نہ چھڑے، یہ کیسے ہوسکتاہے۔اور آج تو پھر ڈاکٹراحسان اکبر بھی آئے ہوئے تھے۔انہوں نے اقبال پر عالی صاحب کا خیال سناتو کہنے لگے،
’’فکرِ اقبال کا یہ خاصہ ہے کہ وہ بیک وقت مشرق و مغرب کی نمائندہ ہے۔۱۹۷۷ کی بات ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں اقبال کانگریس منعقد ہوئی۔ میں بھی اُس میں شریک تھا۔پنجاب یونیورسٹی کا ایک ڈِین تھا۔ مذہباً بدھ تھا۔ اُس کا نام تھا ’کرُونا رَتنے‘۔ اس نے اپنی تقریر میں کہا کہ اگر آسمان کے کسی اور سیّارے سے کوئی باشعورہستی اُترآئے اور ہم سے پوچھے کہ، اے زمین کے انسانو! تم نے اب تک کیا کارنامہ سرانجام دیا،تو میں اقبال کا کلام اُٹھا کر اُسے دے دونگا اور کہونگا اِسے دیکھیے! ہم نے اب تک یہ کارنامہ سرانجام دیا۔ یہ وہ فکر ہے جس میں مشرق و مغرب کی ایک ساتھ کنفرمیشن ہے‘‘
اس پر محبوب ظفرصاحب نے اقبال کا شعر پڑھا،
زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافرجانا
اور کافریہ سمجھتاہے مسلمان ہوں میں
ابھی شاید اقبال پر مزید بات جاری رہتی کہ پروفیسر ارشدناشاد نے گفتگوکا رُخ ایک اور طرف کو موڑدیا۔انہوں نے جب کہا کہ،’’ہم اپنی چیزوں کو بعض اوقات فقط مرعوبیت کی وجہ سے اون بھی تو نہیں کرتے‘‘ تو ڈاکٹراحسان اکبرنے اردواور پنجابی کے حوالے سے ایک نئی بحث چھیڑدی۔اُن کا اصرارتھا کہ پنجابیوں نے اپنی مادری زبان کو مُنہ لگایا اور نہ ہی اُردو کی کوئی خدمت کی۔لیکن ڈاکٹرصاحب کے ساتھ محفل میں کسی نے اتفاق نہ کیا۔ البتہ اس وقت ایک قہقہہ ضرور بلند ہوا جب انہوں نے اذراہِ تفنن کہاکہ،
’’اصل میں خودی، جو اقبال نے کہی، ہم میں اُسی کی کمی ہے۔اور خاص طورپر یہ پنجاب کے جو لوگ ہیں نا، اِن کے اندر تو رتّی بھر خودی نہیں ہے‘‘
لیکن جب ڈاکٹراحسان اکبر نے یہ کہا کہ،’’۱۸۷۲ کی پہلی مردم شماری میں پنجاب نے اپنی زبان اُردولکھوائی اور پنجاب اردو کے پیچھے یوں کھڑا رہا کہ اُس کے دفاع کی وجہ سے پنجابی کا کوئی جریدہ تک نہ نکال سکا‘‘ تو مسعود مفتی صاحب نے ایک دلچسپ بات بتائی۔ انہوں نے کہا،
’’سب سے پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا چاہیے نا کہ پنجاب میں اُردو آئی کیسے؟ یہاں اُردو کی بجائے پہلے فارسی تھی۔جب انگریز نے فارسی نکالی تو اس کی جگہ اس نے ورنیکلر جاری کی۔ ورنیکلر کیا تھی؟ یعنی سندھ میں سندھی، فرنٹیر میں پشتو، بلوچستان میں بلوچی لیکن پنجاب میں ایسا نہ کیا۔ یہاں انگریز نے اردو جاری کی۔حالی نے حیاتِ جاوید میں لکھاہے کہ، ’پنجاب میں تمام درسی کتب مفت مہیا کی جاتی تھی اور اُترپردیش سے اتنے اساتذہ پنجاب لائے گئے کہ یوپی میں اساتذہ کی کمی ہوگئی۔ کیا ثابت نہیں ہوجاتا کہ انگریز نے اُردوزبان کو پنجاب پر اِمپوز کیا؟‘‘
محفل میں سناٹاتھا۔ بات دلچسپ تھی اس لیے سب خاموشی سے سن رہے تھے۔ مفتی صاحب نے اپنی بات جاری رکھی،
’’بات یہ ہے کہ پنجاب میں اردو ہے یا پنجابی، یہ بنیادی سوال نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ۱۸۵۹ میں انگریز نے پنجاب لیا۔ یہ گویا سب سے آخر میں لیاگیا کیونکہ دلّی تو ۱۸۵۷ میں لیاگیا۔ انگریزوں نے لکھاہے کہ انہوں نے جتنی خونریز جنگوں کا سامنا پنجابیوں کے ساتھ کیا کہیں اور اُنہیں اِس قدر خونریزی کا سامنا نہ کرنا پڑا۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ انگریزی فوج کےبہادر سپاہیوں کی درجہ بندی اس طرح کی گئی تھی کہ پہلے نمبر پر تو گورکھے تھے اور دوسرے نمبر پر پی ایم تھے۔ یہ پی ایم کون تھے؟ پنجابی مسلمان۔ پنجابی مسلمانوں کو انگریز فوجی افسر پی ایم ہی لکھتے تھے۔ سو، میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پنجاب کے کلچرکو انگریز نے دانستہ تباہ کرنا چاہا اور اس نے ایسا کیا۔ہم جب یہاں بیٹھ کر اردو اور پنجابی کی بات کرتے ہیں تو ہم اِن چیزوں کو بھول جاتے ہیں‘‘
مفتی صاحب کی بات پر عالی صاحب نے فرمایا کہ،
’’اصل میں قابلِ غور امر یہ ہے کہ اردو اور پنجابی کے درمیان فاصلے بہت کم ہیں۔اگرہم دونوں کی گرامر، لفظیات، لسانیات،فاعل، فعل، مفعول وغیرہ کی ترتیب دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوتاہے کہ اردو اور پنجابی ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں۔ان دونوں کے مقابلے میں پشتو، سندھی، بلوچی اور بنگالی وغیرہ اردو کے اُتنا قریب نہیں ہیں اور نہ ہی ہوسکتی ہیں۔اچھا اب ذرا غورکریں۔ پنجابی کوئی اکیلی تو پنجابی ہے نہیں۔ سرائیکی بھی پنجابی ہے۔ شاہ پوری لہجہ، ماجھے کا لہجہ، ہندکو، پھوٹوہاری، غرض بہت دور دراز تک پھیلے ہوئے ایک علاقے میں یہ زبان قدرے مختلف لہجوں اور ناموں کے ساتھ بولی جاتی ہے۔ اب چونکہ انگریز کو تو اپنا مقصد عزیز تھا۔ اسے پشتونوں میں ورنیکلر رائج کرتے وقت، پشتورائج کرتے ہوئے یہ مسئلہ درپیش نہیں تھا۔ نہ ہی سندھیوں یا بلوچوں کے ساتھ اُسے یہ مسئلہ درپیش تھا۔ اُس نے تواپنی آسانی کے لیے ایسا کیا کہ یہاں اردو رائج کردی۔ اگریہاں بھی وہ ورنیکلر کرتاتو اسے ایک ہی زبان کے کئی لہجوں کے لیے الگ الگ زبانیں رائج کرنا پڑتیں۔انگریز کو تو وہی زبان مناسب لگ سکتی تھی جس سے وہ کم سے کم محنت کے ذریعے لوگوں کو اپنا مطیع بناسکتا‘‘
عالی صاحب کی بات کے باجود بھی مفتی صاحب کا یہ موقف کہ پنجاب پر اردو کو مسلط کیا گیا کمزور نہ پڑا۔ عالی صاحب نے البتہ انگریز کی چال عیاں کرنے میں مدد ضرور کردی۔زبانوں پر کافی بات ہوئی۔ ساری کی ساری ، اِس رپورٹ میں لکھناممکن نہیں۔
معاً حمید شاہد صاحب کو دوبارہ اقبال سے متعلق اپنا ایک سوال یاد آیا تو انہوں نے دہرایا،
’’آپ لوگ کیا سمجھتےہیں کہ جو اقبال آپ کے نصاب کا حصہ ہے، اُس پر نظرثانی کرنے کی ضرورت نہیں ؟‘‘
اس پرعالی صاحب نے کہا،
’’ارے بھئی! نصاب میں موجود اقبال تو بے ضرورسا ہے۔اقبال کاذکرتو نصاب سے باہر اِس طرح سے پھیلا دیا گیا ہے کہ آپ کو لگتاہے یہ سب کچھ نصاب سے آرہاہے۔مثلاً منٹوپرفلم بنی، اقبال کو نشانہ بنایا گیااورتاثردیا گیا کہ گویا تمام تر ’اینٹی منٹو تھاٹ‘ اقبال کی طرف سے آرہی ہے۔ یہ تو دیکھ لیا صاحب لوگوں نے۔ یہ کسی نے نہ دیکھا کہ جس مولوی کو تم لوگ خود تنقید کا نشانہ بناتے ہو، وہ تم سے پہلے اقبال کا حدفِ تنقید ہے۔ اقبال کے اس پہلو کو بھی تو دیکھو! جناب! نصاب میں کوئی ایسا اقبال نہیں جو مولویوں والی ذہنیت کا حامل ہو۔ اقبال کو پڑھنے والا بندہ مولوی کی حمایت میں ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ بات میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتاہوں۔ اقبال نے جس قسم کی ترقی پسندانہ تشکیلات ِ جدید کردی ہیں اُن میں ایک کُلیت ہے۔ اسّی فیصد مارکسزاُس میں جذب ہوکر رہ جاتاہے۔اقبال کے ہاں ایک ایسی کلیت ہے جس میں آپ کا پورا تہذیبی وجود بولتاہے۔ صرف اسلامی نہیں۔ صرف ہندوستانی نہیں۔ صرف مشرقی نہیں۔ صرف مغربی نہیں۔بلکہ پورے کا پورا تہذیبی وجود۔ ترقی پسندوں نے بہت بڑا کام کیا ، بے شک، لیکن انہوں نے مذہب کو اپنی تنقید کا حدف بناکر گویا اپنے مقصد سے روگردانی کرلی۔ تب ہی تووقت گزرنے پر کھُلا کہ وہ ترقی پسند ، جنہیں ہم ترقی پسند سمجھتے تھے، اصل میں ویسٹرن ماڈرنسٹس تھے‘‘
اس پر ڈاکٹراحسان اکبرنے لقمہ دیا کہ،
’’ترقی پسندوں میں جن لوگوں نے نظریہ سازی کی، اخترحسین رائے پوری ان میں بہت اہم نام ہیں۔انہوں نے اپنی سوانح ’’گردِ راہ‘‘ میں لکھاہے کہ انہوں نے جب ایک موقعہ پر خالدہ ادیب خانم سے سوال کیا کہ آیا مذہب کسی قوم کی بنیاد بن سکتاہے تو خالدہ ادیب خانم نے جواب دیا، ’کیوں نہیں؟اگر نیشنلزم جیسی تنگ نظر سوچ قومیت کی بنیاد بن سکتی ہے تو مذہب کیوں نہیں؟ سو، اب یہاں دیکھیں! کیا اخترحسین رائے کے سامنے اقبال کے تمام مباحث موجود نہ تھے؟ لیکن جب وہ بات ماننے پر آئے تو خالدہ ادیب خانم کی بات مان لی! یہ وہ رویہ ہے جو ہمیں ابولکلام کے ہاں نظرآتاہے۔ کسی ایرے غیرے کا شعروہ اپنی تحریر میں شامل کرسکتے ہیں لیکن اقبال کا نہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ اقبال نے اپنے وقت میں لگ بھگ سب کو مسئلہ ڈال دیا تھا‘‘
اقبال کے حوالے سے دیر تک بات ہوئی۔ اور پھر چلتے چلتے گفتگو دوبارہ سامراج کے بیانیے پر آگئی،
جلیل عالی صاحب کا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہاہے کہ اگرادب کی ذمہ داری استعمار کے خلاف مزاحمت کاروں کی حمایت میں لکھنا ہے تو پھر ہمارا ادیب مزاحمتی تحریکوں اور مزاحمت کاروں کی شناخت میں ہمیشہ کیوں جانبداری سے کام لیتاآیا ہے۔ جلیل عالی صاحب جو عہدِ حاضر کے سامراجی بیانیے کو خوب خوب پہچانتے ہیں، اس مؤقف کے داعی ہیں کہ اگر سامراجی قوتوں کو کسی کی موت سے خوشی ملتی ہے تو اس کا مطلب ماسوائے اِس کے اور کیا ہوسکتاہے کہ وہ شخص سامراج کے خلاف مزاحمت کی حالت میں مرا۔ چنانچہ اِسی رنگ میں آج انہوں نے جب کہا کہ افغانستان میں امریکہ کے خلاف لڑنے والے طالبان بھی مزاحمت کارہیں تو ایک بار محفل میں خوب شور اُٹھا۔عالی صاحب نے کہا، ’’ پچاس ملکوں کی افواج کے خلاف لڑنے والے طالبان، اُن معنوں میں طالبان نہیں ہیں جن معنوں میں مغربی بیانیہ اُن کا ذکر کرتاہے یعنی کہ دہشت گرد۔ بلکہ وہ بھی مزاحمت کار ہیں اور اپنے وقت کے استعمار کے خلاف لڑرہے ہیں۔دیکھیں! جو کوئی ظلم کے خلاف اُٹھتاہے وہ لوگوں کا محبوب ہوتاہے۔قطع نظراِس کے کہ اُٹھنے والا مولوی ہے یا کمیونسٹ۔عالی صاحب کی بات اورعالی صاحب کی بات کے دوران ہونے والی باقی گفتگوسے جونتیجہ برآمد ہوا اس کاخلاصہ یہ تھا کہ،
ظلم کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونا ادب میں مزاحمت کہلاتاہے۔ وہ ادیب جو ایسی مزاحمت کے عمل میں اپنے قلم کے ذریعے شریک ہوتاہے اپنے قلم اور صلاحیت کاحق ادا کرتاہے۔ظلم کے خلاف اُٹھنے والے کو فقط ظلم کے خلاف اُٹھنے والے کے طورپر دیکھاجاتاہے، جب تک ظلم باقی رہے۔یہ نہیں دیکھاجاتا کہ وہ کون ہے؟اگر ایک کمیونسٹ ظلم کے خلاف آواز بلند کرتاہے تو عوام اس کے ساتھ ہوجاتےہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ اس کا کوئی دین ایمان نہیں، اسی طرح اگر کوئی مولوی بھی ظلم کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوگا تو عوام اس کے ساتھ ہوجائیں گےاور اس اجتماع کی بانڈنگ پاور ’’مذہب‘‘ نہیں بلکہ ’’ظلم کے خلاف اُٹھائی گئی آواز‘‘ پر اتفاق ہوگا۔ایک بات۔
دوسری بات، ایڈورڈ سعید کے الفاظ میں، ایک ہوتاہے ’استعمار کار‘ اور ایک ہوتاہے ’استعمار زدہ‘۔ جب کسی کی زمین چھیننے کے لیے کوئی اور ملک غاصبانہ قبضہ کرکے وہاں اپنی حکومت قائم کرلیتاہے تو اِس کو کہتے ہیں استعماریت۔کسی قوم کا وہ عہد جب اُن پر استعمارکا قبضہ ہوتاہے نوآبادیاتی دور کہلاتاہے۔کیونکہ استعمار کار، اپنی سہولت اور مفاد کے لیے اس سرزمین کا سب کچھ ہی بدل دینا چاہتے ہیں۔ اس سب کچھ بدل دینے کو نوآبادیاتی نظام کہا جاتاہے۔ سو، جب رُوس افغانستان میں داخل ہوا تو اُس وقت رُوس استعمارتھا اوراُس کے خلاف اُٹھنے والی ہرتحریک مزاحمت تھی۔پھرروس چلا گیا اور پیچھے افغان سردار رہ گئے جو طالبان ملیشیا کی حکومت کے خاتمے تک آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ لڑے۔اس عہد کو ہم استعمار کے چلے جانے کے بعد کا ’کے اوس‘ کہتے ہیں، جب افغانی آپس میں لڑرہے تھے اور کوئی غاصب وہاں موجود نہیں تھا۔ گویا فقط طوائف الملوکی کا دورتھا۔ اس کے بعد وہاں امریکہ اپنے ساتھ پچاس ممالک کو لے کر آپہنچا۔اب پھر وہاں موجود، وہ لوگ جو اِس نئے استعمار کے خلاف پرسرپیکار ہیں، قاعدے کی رُو سے مزاحمت کار ہی ہیں اوراُن کی جدوجہد مزاحمت ہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم ایک نئے طرز کی نوآبادیوں میں بدل گئے ہیں اور نتیجتاً ہمیں مختلف قسم کے بیانیوں کا سامنا رہتاہے جو ہمیں ہمارے اپنے ہی مزاحمتی ادب کے خلاف لکھنے کو جدیدیت سے موسوم کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
اس کے بعد کھانے کا وقفہ ہوا۔ بعد میں افتخار عاف صاحب نے سوال کردیا کہ یہ بیانیہ اور مہابیانیہ کیا چیز ہےاور کیوں داخل ہوگیا ہے ہمارے ادب میں؟
افتخار عارف نے کہا کہ ’’اردو تنقید میں یہ چند نئی اصطلاحات جیسا کہ بیانیہ، مہابیانیہ وغیرہ درآئی ہیں تو اس کا پس منظر کیا ہے؟مابعدجدیدیت، ساختیات، پس ساختیات، یہ سب کچھ جو مغربی فلسفہ سے ہمارے ہاں متعارف ہوا ہے، میں نے اپنے تئیں اسے سمجھنے کی خوب کوشش کی ہے۔ میں نےاِس موضوع پر ہرکتاب خریدی ہے۔ڈاکٹرناصرعباس نیّر کو میں خراجِ تحسین پیش کرتاہوں کہ انہوں نے نسبتاً مربوط پیرائے میں ان تمام تصورات کو مناسب تحقیقی انداز میں لکھاہے۔ دیگر لوگوں کی کتابیں، غرض کوئی ایک آدھ مضمون یا سطر بھی کہیں لکھی دیکھی تو میں نے پوری توجہ سے اُسے پڑھا تاکہ جان سکوں کہ جدید تنقید کے یہ نئے تقاضے فی الواقعہ کس قسم کی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔اور میں یہ نہیں سمجھ پایا کہ اِن تمام ترتصورات کے تناظر میں اردوتنقید کیا شکل اختیار کرے گی۔ ایک مرتبہ میرے پاس برطانیہ میں ڈاکٹروزیر آغاتشریف لائے۔ وہ کتابیں خریدنے کے اتنے شوقین تھے کہ لاکھ لاکھ روپے کی کتب خرید لیتے تھے۔ میں انہیں اچھی کتابوں کی دکان پر لے گیا لیکن میں سوچ رہا تھا کہ (ہنستے ہوئے)، اے اللہ! مجھے اِن کتابوں کی نئی نئی اصطلاحات کو اردو تنقید کا حصہ بننے سے پہلےاُٹھالے!‘‘
اس پر ایک قہقہہ بلند ہوا۔ افتخارعارف نے سب سےیہ سوال کیا کہ آخر ایسا کیوں ہوتاہے کہ ہمارے اپنے تنقیدی مباحث کی بجائے پل پل گزرتے عہدِ جدید کے ساتھ ایسی تنقیدی اصطلاحات ہمارے تنقیدی ادب میں درآتی ہیں۔ یہ کون کرتاہے؟ کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ یہ بیانیہ اور مہابیانیہ جو ابھی بیس پچیس سال پہلے ہمارے ہاں متعارف ہوا ہے ، اس سے پہلے کہاں تھا؟
اس کے بعد بیانیے اور مہابیانیے کی تاریخ پر بات ہوئی۔ فرانسیسی فلسفیوں کا ذکر چھڑا۔ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا اور جانے کتنے ہی موضوعات اور اہم علمی ادبی نکات زیربحث آتے چلے گئے۔
رپورٹ اتنی لمبی ہوگئی ہے کہ مزید کچھ بھی لکھنا قاری کے ساتھ زیادتی ہوگی۔
اجازت چاہتاہوں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“