زندہ لوگ کا اٹھائیسواں اجلاس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
استاذِ المکرم جناب جلیل عالی کی رہائش پر ’’زندہ لوگ‘‘ کا اٹھائیسواں اجلاس ، حسب ِ معمول دقیق علمی موضوعات سے لے کر سیاستِ حاضرہ کی گفتگو تک کامیابی کے ساتھ منعقد ہوا۔آج کے اجلاس میں میرے یونیورسٹی کے استاد، معروف ماہرِ اقبالیات پروفیسر فتح محمد ملک صاحب بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔ ملک صاحب زندہ لوگ کے اجلاس میں اکثر آتے ہیں لیکن اپنی بزرگی اور کمزور صحت کی وجہ سے باقاعدگی سے ہر اجلاس میں نہیں آپاتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ آتے ہیں تو مجلس کا موضوع زیادہ تر اقبال اور فکر اقبال ہی رہتاہے۔ ملک صاحب چونکہ اقبالیات کے صاحبِ طرز مفکر ہیں اس لیے ان کی باتیں نہایت دلچسپ ہوتی ہیں۔ اس پر مستزاد ان کے تجربات اور طویل تدریسی و تحقیقی تجربہ ہے۔ آج ملک صاحب نے حسبِ معمول اپنے تجربات سناتے ہوئے اپنا سفرروس، وہاں ایک سمسٹر کے قیام کے دوران پیش آنے والے بعض واقعات سنائے تو کئی ایسے مواقع تھے جب مجھے خوشگوار حیرت کا سامناہوا۔ خاص طور پر جب انہوں نے بتایا کہ،
’’افغانستان میں شکست کھانے سے پہلے سوویت یونین کی یونیورسٹیوں میں پاکستان کے حوالے سے کوئی مضمون وجود نہیں رکھتا تھا۔ اس زمانے روس کی یونیورسٹیوں میں صرف ساؤتھ ایشیأ کی تاریخ یا جغرافیہ وغیرہ پڑھایا جاتا تھا ، جس میں وادیِ سندھ کی تاریخ کا نہایت معمولی سا تذکرہ اور بس۔ پھر جب افغانستان کی سرزمین پر سوویت یونین کو اتنی بڑی شکست ہوئی کہ یونین ہی ٹوٹ گئی تو انہیں پہلی بار احساس ہوا کہ ان کے پڑوس پاکستان نامی کوئی ملک بھی وجود رکھتاہے، چنانچہ انہوں نے اپنی یونیورسٹیوں میں مطالعہ ٔ پاکستان کے مضمون کا اضافہ کردیا۔ جب پہلی بار ایسا ہوا تو مجھے حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ آپ کو روس سے بلاوا آئے گا کیونکہ ہم نے بطور سکالر آپ کا ہی نام پیش کیا ہے۔اور پھر جب مجھے وہاں جانے کا اتفاق ہوا تو میں نے ایک مخصوص نوعیت کا سلیبس پہلے سے بنارکھاتھا۔ جس میں ایک موضوع کا عنوان تھا ، ’’وائے پاکستان؟‘‘۔ ایک لیکچر کے دوران جب میں نے ’’وائےپاکستان‘‘ کے عنوان کے تحت بتایا کہ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے جس میں ایک خاص قسم کی رُوحانی جمہوریت کا تجربہ کیا جانا مقصود تھا کیونکہ ہندوستان کے مسلمان بطور قوم ہرلحاظ اس تعریف پر پورے اُترتے تھے جو اس وقت کی جدید فکر کے مطابق ’’قوم‘‘ کی تعریف ہوسکتی تھی۔جب میں نے یہ سب تفصیل کے ساتھ بتایا اور خطبہ الہ آباد سے حوالے پیش کیے تو لیکچر میں موجود شعبہ کے سربراہ ، لیکچر کے آخر میں میرے پاس آئے اور کہنے لگے، ’اس سب سے ہمیں کیا غرض کہ پاکستان کیوں بنایا گیا۔ ہمیں تو اس بات سے غرض ہے کہ پاکستان ہے، موجود ہے اور اس نے ہمیں اپنے وجود کا پوری طرح سے احساس دلایا ہے۔ ہم اس موجود ملک کی اہمیت سے کیسے انکار کرسکتے ہیں‘۔ اس پر میں نے ان سے کہا کہ، ’یہاں موجود مسلمانوں کے ذہنوں میں سوالات اور اشکالات تھے، جن کا جواب دینا ضروری سمجھتے ہوئے میں نے پاکستان کے وجود کی نظریاتی وجوہات تفصیل سے بتائیں‘‘۔
اس پر جلیل عالی صاحب نے کمنٹ کیا کہ،
’’اصل میں نظریہ پاکستان کے معترضین کو ایک خیال کی عدم موجودگی حقیقی تصویر دیکھنے سے معذور رکھتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جب تک بادشاہ موجود تھا یعنی مغل بادشاہ ، اس وقت بطور ’ہندوستانی مسلمان‘ ہمیں کسی الگ شناخت کی ضرورت ہی کب تھی۔ ہمیں الگ شناخت کی ضرورت تو اسی وقت پیش آئی جب مسلمانوں کی حکومت ختم ہوگئی۔ اگر اتنی سی بات مدنظر رہے تو بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ پاکستان کی ضرورت ہندوستان کے مسلمانوں کو کیونکر رہی ہوگی‘‘
تب ملک صاحب نے کہا کہ،
’’اصل میں ہمارے ہاں نصابی طور پر ایک نہایت ضروری کتاب کا اضافہ ہونا چاہیے۔ایک ایسی کتاب جس میں مکمل خطبہ الہ آباد، قائداعظم اور اقبال کے درمیان ہونے والی خط وکتابت اور قائدِ اعظم کا خطبۂ قردادِ پاکستان ، بس یہ تین چیزیں ترتیب کے ساتھ لکھ دی جائیں۔فقط اتنا کچھ جان لینے کے بعد بے شمار بلکہ تمام غلط فہمیوں کا ازالہ ممکن ہے۔ جب لوگ اقبال اور قائد ِ اعظم کے خطوط پڑھ لیں گےتو سب کی آنکھیں کھل جائینگی۔ یہ معمولی خطوط نہیں ہیں۔ دونوں لیڈرز جانتے تھے کہ وہ کیا کرنے جارہے ہیں۔ ہرلفافےپر لکھاہوتا تھا ، ’پرائیویٹ اینڈ کانفڈینشل‘۔ اِن خطوط میں پاکستان کا پروگرام ہے۔ اور خطبہ الہ آباد یا قائدِ اعظم کی انیس سو چالیس والی تقریر پڑھ لینے کے بعد یہ جان کر سب کی تسلی ہوتی رہے گی کہ اقبال کماحقہُ ساری صورتحال سے آگاہ تھے۔ یہاں تک کہ انگریزوں نے اس بات کو بغور دیکھا کہ اقبال نے جس قسم کے علاقہ کو مسلم منصوبے کا حصہ بتایا اس کے مغرب میں تو تمام اسلامی ممالک موجود تھے۔ اقبال نے خود انگریزوں کو بتادیا تھا کہ ’ہندو کبھی سوشلزم کو قبول نہیں کریں گے کیونکہ وہ ان کی تربیت کے ساتھ میل نہیں کھاتا جب کہ مسلمانوں کے لیے اشتراکیت کو قبول کرنا چنداں مشکل نہیں کہ یہ ان کی فکری تربیت کے ساتھ میل کھاتاہے۔ چنانچہ اقبال کاتناظر پوری مغربی فکر کے لیے ڈرا دینے والا تھا۔ برٹش سرکار نے باقاعدہ اس خوف کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک شخص نے (خطبہ الہ آباد کے ذریعے)ہمارا سارا منصوبہ چوپٹ کردیا ہے۔یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اگلی گول میز کانفرنس میں اقبال کو بھی بلالیا۔ منصوبہ اس طرح چوپٹ ہوگیا تھا کہ وہ تو جداگانہ انتخابات تک نہیں کروانا چاہتے تھے اور مہابھارت کے خیال کو پروان چڑھا رہے تھے لیکن اقبال نے مسلم نیشنلزم کا تصور پیش کرکے ہندوستان میں موجود پوری مسلم کمیونٹی کو ایک الگ شناخت فراہم کردی تھی‘‘۔
کافی دیر تک اقبال ہی زیر بحث رہے۔ خطباتِ اقبال کا بھی ذکر آیا اور فی زمانہ فکر اقبال میں کیڑے نکالنے والے ناکام لطیفوں کا تذکرہ بھی ہوا۔ کافی لمبا اجلاس تھااس لیے تفصیل لکھنا تو ظاہر ہے ممکن نہیں۔
عالی صاحب کے ہاں زندہ لوگ کا یہ اجلاس میرےاپنے تجربے کے مطابق اسلام آباد اور راولپنڈی میں ہونے والی تمام علمی ادبی تقریبات میں اہم ترین تقریب ہوتی ہے۔ اللہ عالی صاحب اور ان کی اہلیہ کی عمر دراز کرے ۔ انہیں صحت کے ساتھ رکھے۔ محترمہ حسینہ جلیل جو بزرگ ہیں لیکن تمام شرکائے اجلاس کے لیے ریفریشمنٹ کے انتظامات دیکھتی اور سب کے کھانے پینے کا خوب خیال رکھتی ہیں، مسکراتے ہوئے خوبرُو چہرے والی نہایت شفیق خاتون ہیں۔
توقع تھی کہ عالی صاحب، چونکہ امریکہ سے واپس آئے ہیں سو گفتگو کا موضوع ان کا سفرامریکہ ہی رہے گا۔کیونکہ جناب محبوب ظفر بھی عالی صاحب کے ہمراہ امریکہ میں موجود رہے تھے اور وہ بھی اجلاس میں حسب ِ معمول شریک تھے۔ لیکن عالی صاحب کے سفر کا ذرا بھی تذکرہ نہ ہوا۔ علی محمد فرشی صاحب اجلاس میں دیر سے تشریف لائے اور جلدی چلے گئے اس لیے گفتگو میں شریک نہ ہوسکے۔خوش کلام شاعر سعید راجہ اور ان کے صاحبزادے بھی اجلاس میں شریک تھے۔ مجموعی طور پر آج کا اجلاس ہر حوالے سے کامیاب اور مفید تھا۔
عالی صاحب، اُن کی فیملی اور زندہ لوگوں کے لیے بہت سی دعائیں۔ اللہ تعالیٰ یہ محفل قائم دائم رکھے۔ آمین۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“