ایک سچ کاقتل دس جھوٹ کو زندگی دیتاہے۔یہ دس جھوٹ مزیدکئ جھوٹ کو جنم دیتے ہیں۔ایک جھوٹ کادفاع کریں۔دس اور سر اٹھاتے ہیں۔یہی ہائیڈرا کی صورت ہے۔افسوس ہم نے اپنے مشاھیر سےاتنے جھوٹ جوڑ دیئ ہیں کہ سچ بولنےلگیں تو جھوٹ کاہائیڈرا چاروں طرف سےحملہ آور ہوتا ہے۔ہم ہائیڈرا کے بیچ زندہ ہیں۔
کل ایک صاحب نےسوال کیاکہ اقبال نےکبھی ملکۂ وکٹوریہ کا مرثیہ نہیں لکھا۔یہ باتیں جھوٹ ہیں۔اس بات کویہاں چھوڑکرجسٹس جاویداقبال کی کتاب زندہ رود دیکھتےہیں۔جسکےمطابق انکےگھرمیں ملکۂ وکٹوریہ کی بڑی تصویرآویزاں تھی۔وجہ پلاستر کا اکھڑناتھا۔کیااس جگہ کوکسی اورتصویرسےنہیں چھپایا جاسکتاتھا؟
1918 میں جب جنگ عظیم اول عروج پر تھی۔انگریز
سرکار نےجنگ کیلئے روپیہ جمع کرنے اور فوجیوں کی بھرتی کیلئےلاھور کےٹاؤن ہال میں جلسہ ہوا۔جس سےمولوی رحیم بخش نےخطاب کیا۔شہنشاہ کوخدا کادرجہ دیا۔اس سلسلےمیں رشید گنگوہی کافتوی پیش کیا۔اقبال نےبرطانوی سامراج کاقصیدہ لکھا۔جو ہرجگہ موجودہے۔
علامہ اقبال نے ٹیپو سلطان شھید کے مزار پر حاضری دی۔انکی شان میں قصیدہ لکھا۔جس کا مصرع ہے۔تو راہ نورد شوق ہے منزل نہ کر قبول۔۔دوسری طرف اپریل 1918میں انہوں نے تاجدار دکن کی شان میں فارسی قصیدہ بھی لکھا۔یاد رھے تاجدار کے آباء نے ٹیپو کے خلاف انگریزوں کا ساتھ دیا تھا۔
2003 میں علامہ اقبال،حیات،فکر وفن کےنام سےمجموعۂ مضامین شائع کیا گیا۔صابرکلووری کا مضمون۔۔اقبال کےغیرمدون کلام کاانکشاف۔۔1932 میں مسلم لیگ سےدوری کےدوران اقبال فرضی نام ایکس سے شاعری کرتےرھے۔نظمیں اقبال کےدوست میاں رشیدکی ڈائری میں موجودہیں۔انکےاحباب واقف تھےایکس دراصل اقبال ہیں۔
2003میں ماھراقبال ڈاکٹرایوب صابرکی کتاب شائع ہوئی۔۔اقبال کی شخصیت پراعتراضات کا جائز۔۔انہوں نےکم و بیش پچاس اعتراضات کازکرکیا۔بیس کے قریب مستندقرار پائے۔جنکو درست مانا گیا۔توجیہہ پیش کی گئ۔درج ذیل انہی میں دواعتراضات ہیں۔انگریز بادشاہ کی تاجپوشی پر قصیدہ اورگورنرکی شان میں اشعار۔
زاھد چودھری کی کتاب۔۔پاکستان کی سیاسی تاریخ۔۔جلد5۔۔میں لکھا ہے کہ 22جنوری1901کو ملکہ وکٹوریہ کا انتقال ہوا۔عیدالفطر کی وجہ سے تعزیتی جلسہ دو دن بعد24 جنوری کو ہوا۔جس میں اقبال نے ایک سو دس اشعارکا مرثیہ پڑھا۔اسے اردو کابہترین مرثیہ شمارکیا جاتا ہے۔ویسے مرثیے سب شعراء نے لکھےتھے۔
اقبال ایک زندہ دل فرد تھے۔معاشرےمیں ہونے والی ہر سرگرمی میں حصہ لیتے تھے۔زندہ رود میں انکے متعلق یہ لکھا ہےکہ وہ رقص و سرود کی محفلوں میں شریک ہوتے تھے۔مگر شراب نوشی نہیں کرتے تھے۔تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کو موسیقی سے شغف تھا۔مگر شراب نوشی کی تہمت ان پر حاسیدین نےلگائی۔
1956 کو عطیہ فیضی نے حالات اقبال پر کتاب شائع ہوئی۔اقبال سے تعلقات اور بیرون ملک زندگی پر روشنی پڑتی ہے۔بقول عطیہ اقبال پرمذاق اور پرگوشخص تھے۔ہرمحفل کی جان ہوتے۔جرمن،انگلش،عربی،فارسی کےعلاوہ سنسکرت پرعبور تھا۔درج ذیل میں مس ویگے نات جن سےاقبال کومحبت تھی۔اسکےاظہارکا ایک ثبوت ہے۔
اقبال مس ویگے ناتھ کو پسند کرتے تھے۔اس کا ثبوت عطیہ فیضی کو لکھے گئے خطوط ہیں۔خود عطیہ بھی یہ بات جانتی تھیں۔ابراھم لنکن اور انکی محبوبہ،جان کیٹس کی محبوبہ،ٹیگور اور انکی محبوبہ کے بارے میں تحقیق اور خطوط شائع ہوچکے ہیں۔مگر ہم نے اقبال کے خطوط شائع نہیں کرنے۔کرلو گل!
فدوی کا ناقص خیال ہےہم نےعقیدت میں ہیروز کوخدا کادرجہ دےرکھاہے۔اسی وجہ سےہماری نسل انکی پیروی کرنےکوتیارنہیں۔پیغمبروں کی تعظیم کی جاتی ہے۔راستہ نہیں چنا جاتا۔جسطرح مزاراقبال پرگارڈ تعینات ہیں۔ویسےفکراقبال پر بھی پہرےہیں۔خدا کیلئے پہرے ہٹائیں۔اس سےملکی سالمیت خطرےمیں نہیں پڑتی۔