افسانہ
زندہ درگور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رمشہ کافی دیر سے احمد کا انتظار کررہی تھی۔ وہ کالج تو آئی تھی لیکن آج تعلیم کے لیے نہیں بغاوت کے لیے کیونکہ اس کے والدین اس کی شادی اس کے کزن سے کرنا چاہتے تھے جسے وہ بالکل پسند نہ کرتی تھی اور احمد کودل و جان سے چاہتی تھی۔ احمد سے اس کی دوستی فیس بک پر ہوئی تھی اور کچھ ہی عرصہ میں وہ ایک دوسرے کے دیوانے ہوگئے تھے۔ اس نے امی کو بتایا بھی لیکن وہ نہ مانیں تو اس نے ایک مشکل فیصلہ کرڈالا کہ یا احمد یا موت۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے احمد کوساری صورت حال بتادی اور بتا دیا کہ وہ اب احمد کے بغیر نہیں رہ سکتی یا تو وہ اسے لے جائے یا پھر وہ خودکشی کر لے گی۔ احمد بھی اس صورت حال سے پریشان تھا وہ بھی رمشہ کو کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا تھا ۔ وہ کچھ سمجھ نہیں پارہا تھا کہ کیا کرے اور اس اچانک پیدا ہونے والی صورت حال سے کیسے نمٹا جائے ۔ اب اس کے پاس زیادہ سوچنے کا وقت بھی نہیں تھا۔ اس نے بھی اپنی ماں سے بات کی لیکن ادھر سے بھی صاف انکارتھا ۔ لہٰذا نتیجہ وہی نکلا جو عام طور پر نکلتا ہے کہ آج ان دونوں نے گھر والوں سے بغاوت کا ارادہ کر لیا ۔ آج دو محبتیں قربان ہونے جارہی تھیں۔ دو محبتوں کی خاطر۔ کیونکہ دونوں بچوں نے اپنی محبت پر والدین کی محبت کو قربان کردیا تھا۔
۔۔۔۔ اور پھر احمد اپنے ایک دوست کی گاڑی میں آیا اور اسے لے کر روانہ ہوگیا۔ وہ بہت خوش تھے کہ وہ اب آزاد ہیں اپنی مرضی سے شادی کریں گے اورہمیشہ اکٹھے رہیں گے۔ وہ دونوں اپنے دوست کے ساتھ ہی اس کے گھر چلے آئے۔ اس نے اپنے پاس ان کو پناہ دی۔
لیکن یہ خوشی چند دن میں ہی سخت پریشانی میں بدل گئی ۔ کیونکہ جب دوست کے والدین کو حقیقت معلوم ہوئی تو انہوں نے ان کو رکھنے سے انکار کر دیا۔
اُدھر رمشہ کے گم ہو جانے پر اس کے والدین نے احمد کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کرادیا۔ اِدھر احمد کے گھر والے بھی پریشان تھے کہ وہ کہاں گیا۔ کیونکہ وہ بھی کچھ دن سے گھر سے غائب تھا اور کچھ بتا کر بھی نہیں گیا تھا۔
اس دوران رمشہ اور احمد مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوئے اور نکاح کر لیا۔ اب وہ دونوں ایک ہوچکے تھے۔ وہ بہت خوش تھے آج ان کو ہر طرف رم جھم رم جھم کا سماں لگ رہا تھا۔ وہ ایسا محسوس کررہے تھے کہ آسماں ان پر مہربان ہوگیا ہےاور زمین گلابوں سے بھر گئی ہے جس کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہے۔ انہیں یہ دنیا رنگوں سے بھر پور دکھائی دے رہی تھی لیکن ۔۔۔۔۔۔
لیکن ظالم زمانہ ان کو ایک دیکھنے پر راضی نہ تھا۔ رمشہ کے والد چچا اورکزن سخت غصہ میں تھے۔ ان کے سینے پر گویا سانپ لوٹ رہے تھے۔ ان کی انا اس رشتے کو ماننے کو ایک لمحہ کے لیے بھی تیار نہ تھی ۔ رمشہ کے والدین پولیس کے ساتھ مل کر چھاپے مار رہے تھے۔ رمشہ کا کہنا تھا کہ وہ اگر پکڑے گئے تو اس کے والد اور چچا ان کو گولی مار دیں گے۔ لہٰذا کبھی وہ کہیں چھپتے کبھی کہیں۔ خوف و دہشت کے سائے منڈلانے لگے۔ ساری خوشیاں خوف میں بدل گئیں۔
جب پولیس کو کوئی سراغ نہ ملا تو اس نے احمد کے گھر پر چھاپہ مارا اور دروزے توڑ ڈالے۔
یہ تو اچھا ہوا کہ وہ گھر پرنہ تھے ورنہ۔۔۔ کیا معلوم وہ ان سے کیا سلوک کرتے۔ ادھر احمد کی ایک چھوٹی بہن بھی تھی ۔ پولیس نے دھمکی دی کہ اگر احمد رمشہ کو ان کے حوالے نہ کرے گا تو وہ اس کو اور اس کی والدہ کو لے جائیں گے۔ یہ خبر ان دونوں پر بم بن کرگری۔ اب ان کو کوئی راستہ دکھائی نہ دے رہا تھا۔ رمشہ کے والدین کسی صورت اس شادی کو ماننے کو تیار نہ تھے۔
جب پولیس کا دباؤ بڑھا تووکیل کےمشورہ پر مجبور ہو کر احمد کو رمشہ کو دارالامان چھوڑنا پڑا۔ وہ بمشکل پندرہ دن ہی اکٹھے رہ پائے تھے اور ظالموں کے ہاتھوں مجبور ہوکر جدا ہوگئے۔
رمشہ کے والدین کو جیسے ہی اطلاع ملی کہ وہ دارالامان ہے وہ اس کو بہلا پھسلا کر لے گئے اور احمد کے والدین کو اس کی بہن کے حوالے سے ڈرا دھمکا کر احمد سے طلاق دلوادی۔ یوں دو محبت کرنے والے اس ظالم معاشرے کی بھینٹ چڑھ گئے اور یہ بظاہر عارضی جدائی ہمیشہ کی جدائی میں بدل گئی ۔
احمد آج بھی رمشہ کی یاد میں روتا ہے اور ہر آہٹ پر چونک پڑتا ہے کہ شاید اس کی رمشہ آئی ہے۔۔۔۔۔ لیکن کہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا یہ ظالم معاشرہ اپنے ہی پیارے بچوں کو اپنے ہی ہاتھوں قتل کرکے خوشی مناتا ہے. اگرکوئی ظاہری طور پرقتل نہ بھی کرے تو ان کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا گلا گھونٹ دیتا ہے ۔۔۔۔۔ ہاں واقعی ان کو خود مار دیتا ہے. ان کی زندگی میں ایسا زہر گھول دیتا ہے کہ وہ سسک سسک کر مرجائیں ۔۔۔۔
زندہ درگور کرنے کی رسم آج بھی جاری ہے ۔۔۔۔ ہاں آج بھی۔۔۔