صورت حال دلچسپ سے دلچسپ تر ہو رہی ہے۔ ایک طرف عبدالستار ایدھی نے کہا ہے کہ مہنگائی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور اسے روکا نہ گیا تو خونی انقلاب آئے گا۔ ایدھی یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عام آدمی کا جینا اس قدر مشکل ہو گیا ہے کہ اس کے پاس دوا کے پیسے نہیں ہیں۔ معیشت دانوں کا کہنا ہے کہ ملک میں پندرہ کروڑ افراد صرف ایک سو ستر روپے روزانہ کما پاتے ہیں۔
دوسری طرف قاف لیگ کے رہنما چودھری شجاعت حسین نے سیاسی جماعتوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر زیادہ چیخ و پکار نہ کریں۔ چودھری صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات میں اضافے سے عام آدمی کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اب ہر شخص کی آمدنی اچھی ہے۔
تیسری طرف ایک سعودی شہزادے نے پاکستان کے چیف جسٹس کو خط لکھا ہے کہ پاکستانی حکام حاجیوں کی رہائش گاہیں جس طریقِ کار اور جن نرخوں پر لے رہے ہیں اس میں بہت زیادہ کرپشن ہے۔ وزارت مذہبی امور نے اس کا زبردست جواب دیا ہے۔ ایسا جواب جو مکمل خاموش کر دے۔ وزارت نے کہا ہے کہ یہ خط جعلی ہے! داغ دہلوی نے کسی ایسے ہی موقع پر کہا تھا؎
پڑا فلک کو کبھی دل جلوں سے کام نہیں
جلا کے راکھ نہ کر دوں تو داغ نام نہیں
اگر سعودی شہزادے کو یہ ثابت کرنا پڑا کہ خط جعلی نہیں تو اسے آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ ہمارا متعلقہ محکمہ شہزادے ہی کو جعلی قرار دے۔
چوتھی طرف ایک ثقہ بین الاقوامی ادارے نے خوشحال ملکوں کی فہرست (انڈیکس) جاری کی ہے جس کی رو سے پاکستان کا نمبر 109 ہے۔ یعنی 108 ملک پاکستان سے زیادہ خوشحال ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے اس فہرست میں کتنے ملک شامل ہوں گے؟ کئی سو؟ نہیں اس انڈیکس میں کل ایک سو دس ملک شامل ہیں اور ان ایک سو دس ملکوں میں ایک ملک (زمبابوے) ایسا بھی ہے جو پاکستان سے بھی گیا گزرا ہے۔
اس ادارے کو ہمارا جواب یہی ہونا چاہیے کہ یہ فہرست جعلی ہے! جب کئی سال کی جدوجہد کے بعد بین الاقوامی ادارہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائے کہ فہرست جعلی نہیں ہے اصلی ہے تو ہم اس کے جواب میں یہ کہیں گے کہ فہرست اصلی بھی ہے تو کیا ہوا خود ادارہ ہی جعلی ہے!
لیکن یہ فہرست اور یہ ادارہ ذرا ہماری سنجیدہ توجہ کا حق دار ہے اس لئے اس مسئلے کا قدرے تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔
لیگاٹم (Legatum)
انسٹی ٹیوٹ ایک آزاد اور غیر جانبدار تنظیم ہے جو خوشحالی کے موضوع پر تحقیق کر رہی ہے۔ یہ تنظیم سرمایہ کاری بھی کرتی ہے اس کا ہیڈ کوارٹر دبئی میں ہے۔ گزشتہ دس برس میں اس تنظیم میں سو سے زیادہ ملکوں میں پندرہ سو منصوبے کامیابی سے چلائے ہیں اور یہ سارے منصوبے کم آمدنی والے لوگوں کے نکتہ نظر سے ترتیب دیئے گئے تھے۔ یہ ادارہ خوشحالی کو صرف مادی یا مالی حوالوں سے نہیں دیکھتا بلکہ مجموعی لحاظ سے اس کا جائزہ لیتا ہے۔ یہ خوشحالی کی تعریف کرتے وقت انسانی حقوق، سیاسی آزادی، مذہبی آزادی، معاشی آزادی، سیکورٹی اور معیارِ زندگی کے پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھتا ہے۔ ادارے کی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ آمریت زدہ ملک ترقی نہیں کر سکتے جو ریاستیں انصاف بہم نہیں پہنچاتیں ان میں انتہا پسندی جنم لیتی ہے اور دہشت گردی عوام کا مقدر بنتی ہے اگر دولت میں اضافہ ہو رہا ہو لیکن جمہوریت اور انصاف کا فقدان ہو تو یہ دولت غلط مقاصد کے لئے استعمال ہو گی اور اس سے جعلی خوشحالی تو وجود میں آ سکتی ہے حقیقی خوشحالی نہیں پیدا ہو سکتی۔ کرپشن، معاشی خوشحالی کا گلاگھونٹ دیتی ہے اور ملک بین الاقوامی جرائم کا گڑھ بن جاتا ہے۔ کرپشن سے ناجائز اسلحہ بھی بڑھتا ہے۔ ایک جامع ترقی وہی ہو گی جس میں ان سارے مسائل سے نمٹا جائے اور لوگوں کو معاشی خوشحالی کے ساتھ اطمینان اور اپنے ملک پر اعتماد بھی ہو دوسرے لفظوں میں یہ ادارہ خوشحال ملکوں کی فہرست ترتیب دیتے ہوئے انسانی وقار، آزادی انصاف اور امن وامان کے محرکات بھی جانچتا ہے۔
یہ ادارہ کیسے فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا ملک زیادہ خوشحال ہے اور کون سا کم؟ اس میں بنیادی کردار دو چیزوں کا ہے دولت اور فلاح وبہبود۔ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ پاکستان اس کی بہترین مثال ہے اور شاید بدترین بھی۔ دنیا کے امیر ترین افراد اس ملک میں موجود ہیں اس ملک کے امرا کی دولت جدہ سے لندن اور نیویارک تک پھیلی ہوئی ہے لیکن عوام کی فلاح وبہبود صفر ہے۔
یہ ادارہ دنیا کے ایک سو دس ملکوں کو آٹھ پہلوؤں سے جانچتا ہے اور یہ آٹھ پہلو خوشحالی یا بدحالی کے حوالے سے فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔
معیشت، مستحکم اور پھلتی پھولتی معیشت فی کس شرح آمدنی میں اضافے کا باعث بنتی ہیں اور لوگوں کی فلاح کا بھی خیال رکھتی ہے۔
۔: بزنس کے مواقع ایسی فضا جس میں لوگ بزنس کے مواقع آسانی سے حاصل کر لیں، خوشحالی کے لئے از حد لازمی ہے لیکن اگر لوگ اس خوف میں مبتلا ہوں کہ ہم بزنس کریں تو کیا خبر انکم ٹیکس والے کیا سلوک کریں؟ بجلی اور گیس بہم پہنچے یا نہ اور امن وامان کی صورت حال مخدوش ہو تو بزنس کے قریب بھی کوئی نہیں پھٹکے گا۔
۔ اندازِ حکومت
تعلیم،
صحت،
حفاظت اور امن وامان،
شخصی آزادی،
باہمی اعتماد اور وعدوں کی پاسداری۔
ان عوامل کی روشنی میں اس ادارے نے اعداد وشمار اکٹھے کئے اور خوشحالی کی سطح طے کرتے وقت اس بات کا بھی جائزہ لیا کہ ایک عام آدمی کو صحت اور تعلیم کے بجٹ میں سے کتنا حصہ ملتا ہے اور وہ اپنے آپ کو کتنا محفوظ خیال کرتا ہے۔ فہرست میں ٹاپ کے دس ملکوں میں ناروے، ڈنمارک، فن لینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، سویڈن، کینیڈا، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ اور امریکہ شامل ہیں۔ دس بدحال ترین ملکوں میں زمبیا،کیمرون، موزمبیق، کینیا، یمن، نائیجیریا، ایتھوپیا، سنٹرل افریق ریپبلک، پاکستان اور زمبابوے شامل ہیں۔ مسلمان ملکوں میں متحدہ عرب امارات (یو، اے ای) پہلے نمبر پر ہے اور فہرست میں اس کا نمبر تیس ہے۔ کویت 31 ویں نمبر پر ہے۔ ملائیشیا 43 ہے۔ ٹیونس 48 ہے، سعودی عرب 49 نمبر پر ہے، بھارت کا نمبر 88 ہے اور بنگلہ دیش کا نمبر 96 ہے۔ اگر یہ فہرست اسلام دشمنی پر مبنی ہوتی تو یقینامتحدہ عرب امارات، ملائیشیا اور سعودی عرب کی پوزیشن اتنی اچھی نہ ہوتی۔ ہم پاکستانیوں کو ایک احساسِ کمتری یہ بھی ہے کہ جو سچ ہمیں کڑوا لگے ہم اسے اسلام دشمنی قرار دیتے ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ زمبابوے نے اب تک ہمیں مبارک باد نہیں دی۔