آج کل سوشل میڈیا پر ایک خاتون اینکر کا بڑا تذکرہ ہے جنہوں نے مبینہ طور پر ایک کام کرنے والی بچی کو گھر میں قید کر رکھا تھا۔اتفاق سے کچھ سال پہلے مذکورہ اینکر کے ساتھ مجھے بھی ان کے پروگرام میں کام کرنے کا اتفاق ہوا‘ تاہم مجھے ان پر ترس آتا رہا‘ پتا نہیں کیوں ان کے رویے میں ایک بے چینی اور بدتہذیبی تھی جو آس پاس کے لوگوں کو بھی صاف نظر آجاتی تھی۔بہرحال آج کل وہ زیر عتاب ہیں اوروہ لوگ جن کے ساتھ انہوں نے ناروا سلوک کیا تھا وہ اپنی اپنی بپتا بیان کر رہے ہیں۔میرا خیال ہے اب بس کردینا چاہیے‘ مجھے دلی طور پر افسوس ہے کہ جس چینل پر وہ کام کرتی تھیں اُس نے ان کا پروگرام بند کردیا ہے۔ کسی کی روٹی روزی بند ہوتی ہے تو میرے دل کو ایک دھچکا سا لگتاہے ۔اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ مذکورہ اینکر کے لیے مزید کوئی اچھا سبب پیدا کرے اور اینکر صاحبہ سے بھی گذارش ہے کہ خدارا! اپنے سٹاف کے ساتھ پیار بھرا سلوک کیا کریں‘ جن لوگوں نے آج آپ کے خلاف قلم اٹھائے ہیں وہ آپ کے درشت رویے کی وجہ سے اندر سے چھلنی ہوچکے ہیں۔اِن لوگوں کی دعائیں اثر کریں نہ کریں بددعائیں بڑی جلدی اثر کرجاتی ہیں۔
میں 1995 ء میں ایک چھوٹے سے اخبار میں سب ایڈیٹر تھا۔اخبار کی سرکولیشن کا یہ حال تھا کہ کئی دفعہ چیف ایڈیٹر صاحب بھی مجھ سے سو پچاس اُدھار مانگ لیتے تھے۔ بڑا نازک وقت تھا‘ اخبار بند ہوا چاہتا تھا کہ دوبئی سے ایک امیر کبیر صاحب تشریف لائے اور پتا چلا کہ وہ ہمارا اخبار خریدرہے ہیں۔ ہم سب پریشان ہوگئے کہ اب نوکری کا کیا بنے گا؟ پتا چلا کہ نہ صرف نوکری برقرار رہے گی بلکہ تنخواہوں میں بھی بیس فیصد اضافہ کردیا جائے گا۔ ہمیں تنخواہوں میں اضافے سے کوئی غرض نہیں تھی‘ ہماراتو صرف اتنا سا مطالبہ تھا کہ تنخواہ اگلا مہینہ چڑھنے سے پہلے مل جایا کرے۔خیر! اخبار کا ڈکلریشن اور کل اثاثے فروخت ہوگئے‘ نئی انتظامیہ آگئی۔ پہلے اخبار کرائے کے چوبارے پر تھا‘ اب چار کمروں کی اپنی بلڈنگ ہوگئی۔میز کرسیاں بھی نئی آگئیں۔ اُس دور میں اخبار کی کاپی ہاتھ سے پیسٹ ہوتی تھی اور پیسٹر صاحب ایک ایک خبر گوندسے جوڑکر اخبار مکمل کیا کرتے تھے۔تصویریوں کے پازیٹو بنوائے جاتے تھے جس کے لیے ساری تصویریں اے فور سائز کے کاغذ پر چسپاں کرکے اسی کا پازیٹو بنوا لیا جاتا تھا اور پھر ہر تصویر الگ الگ کاٹ لی جاتی تھی۔ ایسا اس لیے کیا جاتا تھا تاکہ اے فو ر کے حساب سے ہی پیسے چارج ہوں۔ ہمارے ساتھ ایک سب ایڈیٹر ’’ڈولفن‘‘ ہوا کرتے تھے‘ اصلی نام نہیں بتاؤں گا کہ آج کل بھی حیات ہیں اور مجھے خطرہ ہے کہ کہیں یہ سطریں پڑھ کرحیات سے واہیات نہ ہوجائیں۔ڈولفن انہیں اس لیے کہا جاتا تھا کہ خطرناک کام میں ڈبکی لگا دیا کرتے تھے‘ اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پانے کی ناکام کوشش کرتے رہتے تھے۔ ان کی اخبار کے مالک سے اچھی دوستی ہوگئی۔ ہر بات میں ڈولفن صاحب کے مشوروں کو اہمیت ملنے لگی۔ ہم سب ایڈیٹرز پریشان تھے کہ ڈولفن صاحب کیسے مالک کے چہیتے بن گئے؟ ہوتے ہوتے بات یہاں تک پہنچ گئی کہ ڈولفن صاحب دوپہر کا کھانا بھی مالک کے دفتر میں ہی کھانے لگے۔ ہر اہم میٹنگ پر وہ مالک کے ساتھ جاتے ۔ یہ صورتحال ہمارے ایڈیٹر صاحب کے لیے نہایت تکلیف دہ تھی۔ایڈیٹر صاحب چاپلوسی میں اپنے آپ کو دنیا کا آخری انسان مانتے تھے تاہم یہاں وہ فیل ہورہے تھے۔ہم سب اکثر حیران ہوتے کہ ایڈیٹر صاحب اخبار کے مالک کی جتنی چاپلوسی کرتے اتنی ہی ان کی نظروں سے گرتے جاتے۔ سب کے ذہن میں آیا کہ یقیناًمالک صاحب خوشامد پسند نہیں کرتے۔ لیکن اس بات کی تصدیق کیسے ہو؟کئی کولیگز نے سوچا کہ وہ اخبار کے حوالے سے بعض سیدھی سیدھی غلط باتیں مالک صاحب کے سامنے جاکر بیان کردیں‘ لیکن عین موقع پر سب کو سانپ سونگھ جاتا۔ ہم سب حیران تھے کہ ڈولفن صاحب کے پاس ایسی کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ اخبار کا مالک ان کا گرویدہ ہوا جاتاہے۔ایک دو دفعہ ڈولفن صاحب سے پوچھنے کی کوشش کی تو وہ ٹال گئے۔
ایڈیٹر صاحب اس دوران شعلوں پر لوٹتے رہے‘ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اخبار کے مالک کے سوٹ کی بھی تعریف کرتے ہیں‘ شکل و صورت کی بھی داد دیتے ہیں‘ آگے پیچھے بچھے جاتے ہیں لیکن انہیں لفٹ کیوں نہیں ملتی۔ ایک دن دوپہر کا وقت تھا‘ ایڈیٹوریل پیج مکمل ہوچکا تھا اور سارے صحافی گھر سے لائے ہوئے ٹفن کھولے بیٹھے تھے۔ ڈولفن صاحب حسب معمول مالک کے کمرے میں لنچ فرما رہے تھے۔ اتنے میں اچانک میری نظر ایک میز کی دائیں سائڈ پر پڑی جہاں کسی نے ادھ جلا سگریٹ بجھا دیا تھا۔ ردی کی ٹوکری میں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ میں نے چونک کر سب کی توجہ ادھر دلائی لیکن اتنی دیر میں ٹوکری میں آگ لگ گئی۔ چونکہ اخبار کا دفتر تھا اس لیے ’’سلپیں‘‘ اور پرانے اخبارات کافی مقدار میں موجود تھے‘ تھوڑی ہی دیر میں آگ کچھ زیادہ بلند ہوگئے۔ ہم سب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ مجھے اور تو کچھ نہ سوجھا ‘ میں فوری طور پر مالک کے دفتر کی طرف بھاگا اور بغیر دستک دیے پھولی ہوئی سانس کے ساتھ یکدم دروازہ کھول دیا۔ اندر نظر پڑتے ہی میری آنکھیں پھیل گئیں۔اخبا رکا امیر کبیر مالک اپنی سیٹ پر بیٹھا تھا اور ڈولفن صاحب اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھے تھے۔ ڈولفن صاحب نے اپنی ٹانگیں میز پر رکھی ہوئی تھیں اور جوتی کا رخ مالک کی طرف تھا۔دونوں اطمینان سے چائے پینے میں مصروف تھے۔ مجھے یکدم اندر آتے دیکھ کر وہ چونک گئے‘ میں نے جلدی سے ساری بات بیان کی۔ دونوں گھبرا کر اٹھے اور میرے ساتھ بھاگتے ہوئے ’’نیوز روم‘‘ میں آئے لیکن تب تک وہاں موجود دیگر ساتھی آگ بجھا چکے تھے۔
اس بات کو ایک ہفتہ گزر چکا تھا‘ میں نے ایک دن ڈولفن صاحب سے پوچھا’’حضور! یہ کیا سین تھا‘ آپ اخبار کے مالک کے منہ کی طرف جوتی کیے مزے سے کرسی پر بیٹھے تھے اور وہ بھی اس بات پر نہایت خوش نظر آرہے تھے؟‘‘۔ڈولفن صاحب نے کچھ دیر میری طرف دیکھا‘ ہاتھ میں پکڑا نیلے رنگ کا بال پوائنٹ پین اپنے کانوں میں گھمایا اور آہستہ سے بولے’’اُسے بیماری ہے‘‘۔ میں چونک گیا’’کیسی بیماری؟‘‘۔ ڈولفن صاحب آگے کو جھکے’’ عزت راس نہ آنے کی بیماری‘‘۔ میں پریشانی سے ڈولفن صاحب کا چہرہ تکنے لگا‘ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ ڈولفن صاحب بھی میری کیفیت بھانپ گئے لہذا گہرا سانس لے کر بولے’’بڑا پیسہ ہے اس کے پاس‘ خاندانی رئیس ہے‘ ساری زندگی ہر بندے نے اس کو سلام کیا ‘ ہر طرف سے عزت ملی‘ ہر کوئی اس کی ہاں میں ہاں ملاتاتھا۔۔۔بیچارے نے کبھی ذلت کا مزا ہی نہیں چکھا‘ یہ کام میں کر رہا ہوں اور وہ ایک نئے ذائقے سے روشناس ہورہا ہے۔۔۔میں اس کی طرف جوتی کرکے بیٹھتاہوں‘ اسے بدصورت کہتا ہوں‘ اسے جاہل کہتا ہوں اور وہ زندگی میں پہلی بار ذلت کی موجیں لوٹ رہا ہے‘ بعض لوگ عزت کے نہیں ذلت کے ترسے ہوئے ہوتے ہیں لیکن ہم انہیں عزت دیے جاتے ہیں‘ بے عزتی بھی کسی نعمت سے کم نہیں‘ کبھی کبھی یہ انسان کو ایسے اعلیٰ و ارفع مقام پر لے جاتی ہے کہ وہ واقعی لائق عزت بن جاتا ہے‘ ملامتی صوفی لگنے لگتاہے‘‘۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔