ضدی بچے کا ــ ’’ خمیازہ‘‘
اگر مشاعرے کے دوران شاعر کو پہلے ہی مصرعے پہ زور دار بلکہ خوف ناک انداز میں ’’واہ واہ‘‘ کی صورت میں داد دیتا ایک نوجوان جسے دنیا شوزیب کاشر کے نام سے جانتی ہے منفرد د انداز میں اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلاتا ہے۔ اس کی واہ واہ سے پہلے تو شاعر کا دل یک دم دہل جاتا ہے۔ پھر وہ خو ف کی مختلف منازل طے کرتے کرتے داد د ینے والے کی طرف رحم طلب نگاہوں سے دیکھتا ہے ۔مگر جب شاعر کی نظراس کی دلنشین مسکراہٹ پہ پڑتی ہے تو وہ دوسرا مصرعہ پڑھنے کا حوصلہ پیدا کرہی لیتا ہے اور دھیرے دھیرے خوف ناک داد میں چھپی اپناہیت اسے اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے ۔ کہیں شاعر تو محض اس لیے مشاعرہ پڑھنے نہیں آتے کہ نہیں بھئی شوزیب کی داد سہنے کی ہم میں تاب نہیں۔ مگر کتنے ہی شاعر اس کی داد کے ایسے گرویدہ ہو جاتے ہیں کہ کہیں اور مشاعر ہ پڑھنے جائیں تو پوچھ بیٹھتے ہیں کہ بھئی پہلے یہ بتائیے کہ وہاں شوزیب کی طرح داد دینے والا کوئی ہو گا کہ نہیںاورا یک اندازے کے مطابق اس طرح کے سوالات کرنے میں شاعرات کی تعداداچھی زیادہ ہوتی ہے۔
آخر یہ شخص کون ہے جس کی داد کے انداز کا شہر ہ ہے جو دیکھنے میں ماڈل لگتا ہے، ڈرامے یا فلموں میں ہیرو بھی آسکتا ہے۔ ایک خوبرو نوجوان، رنگ سفید (ایک اضافی نمبردے کر)، ناک پہ چشمہ اٹکائے، عموما سیاہ رنگ کی قمیض پہنے، بھاری آواز، قد درمیانہ، وزن مناسب، انگلیوں میں سیلمانی عقیق کی انگوٹھی سجائے، آستینیں اوپر کیے ہوئے اور ہاں کلائیوں میں بہت سے ’’کڑوں‘‘ کا بھار اٹھائے ( جن کی تعداد کا حتمی تعین ابھی تک نہیںہو سکا ) آپ کو مشاعرے میں موجود سامعین کی دوسری یاتیسری قطار میںبیٹھا ہوا بآسانی نظر آجائے گا کیونکہ وہ خود نمائی کی لت میں مبتلا نہیں ہے اور کبھی اگلی قطاروں میں زبردستی ٹھنس کے بلانے پر بھی نہیں بیٹھتا۔جو سامعین اس سے واقف نہیں ہوتے وہ اس غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ یہ نوجوان بھی ان ہی کی طرح مشاعرے میں بطور سامع ، محظوظ ہونے اور داد دینے آیا ہے۔ مگر جب اسٹیج سے اس کا نام مشاعرہ پڑھنے کے لیے پکارا جاتا ہے تو وہ سامعین کی صفوں سے چپکے سے اٹھ کر فن کی کلیاں بکھیرنا شروع کر دیتا ہے۔اپنے کمال فن سے اکھڑے ہوئے مشاعرے کو بھی اپنے توانا لہجے،، جداگانہ اسلوب، کلام کی پختگی ، نُدرت اور ترنم سے جما نے کا ہنربخوبی آزماتے ہوئے داد و تحسین کے پھول سمیٹنا شروع کر دیتا ہے۔
میں بنجوسہ کی جھیل کنارے سجی وہ خوبصورت شام بھلا کیسے بھول سکتا ہوں۔ جب کچھ سال پہلے پونچھ ادبی سوسائٹی کے زیر اہتمام ایک مشاعرے میںشرکت کا شرف حاصل ہوا تو شوزیب کاشر سے پہلی بار ملاقات ہوئی۔پھر اس کے بعدملاقاتوں کاسلسہ کسی نہ کسی صورت نکلتا چلا گیا اور اس کی فن اور شخصیت کے پرت کھلتے چلے گئے ہیں۔ حق دوستی تو نہیں بہرحال ایک تعلق ضرور ہے جس کا ’’خمیازہ‘‘ بھگتنے کے لیے بلکہ ’’ برتنے ‘‘ کے لیے ہم سب یہاں موجود ہیں۔
شوزیب کاشرکی خوش قسمتی ہے اس نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہاں شعر و سخن سے شغف کا چلن پہلے سے ہی موجود تھا ۔جس کا اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔اگرچہ اس کو والد صاحب کی طرف سے ستائش کی تمنا رہے ۔دیکھئے کب پوری ہوتی ہے؟ جب بچوں کے کنچے یعنی ’بنٹے ‘ کھیلنے کی عمر ہوتی ہے یا ایک مخصوص گھر کی طرف گیند بار بارپھینکنے اور دوڑ کے واپس لانے کے بہانے بنانا ان کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے اس عمر میں ہی وہ مصرعوں کی بنت میںمصروف عمل ہو گیا اورمیٹرک میں ہی اپنا پہلا شعری مجموعہ منظر عام پہ لا کر اور ایوارڈ جیت کر سب کو حیران کر گیا۔
خا ندان میں سب سے چھوٹا اور ’’گگلو ، گول مٹول‘‘ بچہ ہونے کے ناتے وہ ددھیال اور ننھیال کی آنکھ کا تارا بن گیا۔سیانا ایسا تھا کہ جب اس نے دیکھا کہ بھئی یہ لوگ تو میرے ناز اٹھاتے نہیں تھکتے تووہ ضد اور من مانی کرنے لگا۔اس کی پہلی ضد اپنی مرضی سے پڑھائی کرنا تھی۔ رزمک کالج میں داخلہ ٹھکرا کر ایک دینی مدرسے میں چلے جانا حیرت سے خالی نہیں ہے کیونکہ ہمارے ہاں تو یہ چلن عام ہے کہ دینی مدرسے میں اسی بچے کو بھیجا جاتا ہے جو قدرے ’’نکما ‘‘ ہو جس کا نتیجہ ا مدرسوں سے علماء کی بجائے ملاوٗں کی کثیر تعداد میں ترسیل ہے ۔ مگر شوزیب وہاں سے بھی Typical مُلا بن کے نہیں نکلا بلکہ علم عروض پر پختگی ، خدا کے وجود پہ یقین کامل اور عشق نبی کریم ﷺ کی نعمت سے سرشار ہو کے آیا۔اس کی نعتوں کا مجموعہ اور نعت گوئی میں کمال سخن اس امر کا بہترین ثبوت ہے۔ یہاںیہ زکر بھی کرتا چلوں کہ شوزیب کی کچھ شاعر دوستوں سے اس وجہ سے نہیں بن پائی کہ وہ آج کے مروجہ فیشن کے طور پر خدا کے وجود پہ میم میخ نکالتے تھے جو شوزیب کو کسی طور قابل قبول نہیں تھی سو اس نے تعلق محدود کر لیا ۔
اس کا ضدی مزاج شعر گوئی میں بھی اس کے ساتھ رہتا ہے۔ ایک طرف ہم جیسے شاعر ہیں کہ غزل کے پانچ سے سات اشعار ہو جائیں تو قلم کی سانسوں کے ساتھ اپنی سانسیں بھی پھول جاتی ہیں اور دوسری طرف شوزیب کا کمال فن ہے کہ پچاس ساٹھ اشعارپہ مشتمل غزل یوں کہہ دیتا ہے جیسے اس کے بائیں ہاتھ کاکھیل ہو۔وہ ایسے ایسے قافیے ڈھوند کے لاتا اور ان کو چن چن کے باندھتا ہے کہ قافیے بیچارے چھپتے پھرتے ہیں۔
’’سیاہ رنگ کادلدادہ‘‘ محفل آرائی کا شوقین، اپنی حاضر جوابی، لطیفہ گوئی اور فی البدیع گفتگو کے باعث قوس قزح کے رنگ بکھیر دیتا ہے۔ گفتگو نپی تلی کرتا ہے مگر چند جملوں کی فضول خرچی کا مرتکب پا یا گیا ہے۔ جیسے ’’ مطلب یہ ہے کہ ‘‘ ’’ دیکھیں نا اصل میں ‘‘ ، ’’ بالفرض کیا ‘‘ وٰغیرہ وغیرہ
سیر و سیاحت کا شوقین ہے۔ مشاعروں میں جانا ہو یا گھومنے پھرنے دوستوں کی دی گئی دستک پرفورا حاضر ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ تو گھر والے آٹا لینے مارکیٹ بھیجتے ہیں اور جناب مشاعرہ پڑھنے ’’اکرم آباد‘‘ ( لائن آف کنٹرول کے قریب دور افتادہ گائوں) پہنچ جاتا ہے۔ وہاں پہنچ کے یاد آتا ہے کہ او ہو گھر والوں نے تو آٹا لینے بھیجا تھاتو ہنستے ہوئے خود کلامی کرتا ہے کہ خیرہے کچھ نہ کچھ بندوبست کر لیں گیــ‘‘۔ دوستوں کے ساتھ ساری رات جاگ کر محفل آرائی کرتا ہے اور دوسرے دن ایسا فریش رہتا ہے کہ دوستوں کو حیرت اورکبھی کبھی جیلسی بھی ہوتی ہے۔ وہ بظاہر شوخ طبعیت کا حامل ہے ۔ مگر اندر سے ہراہل قلم کی طرح حساس ، ہمدرد، درد دل رکھنے والا شخص ہے۔اس کے لیے انتظار کی سولی پہ ٹنگا ایک لمحہ بھی صدیوں پہ بھاری ہوتا ہے۔
بلا کا گوشت خور ہے۔ ایک بار کسی دوست نے پوچھ ہی لیا کہ آپ گوشت کھا کھا کے کبھی بیزار نہیں ہوتے تو جواب دیا ’’ہاں ہوتا ہوں نہ یار‘‘۔ تو پھر کیا کھاتے ہیں ، جواب دیتا ہے ’’پھر گوشت کھاتا ہوں‘‘۔
عموما شادی شدہ شعرا کی شکایت یہ ہوتی ہے کہ بھئی گھر میں ہماری شاعری کی کوئی خاص و قعت نہیںہے اوراکثر مشاعروںمیں شرکت نہ کرنے کی وجہ بیگم کی طبعیت جو در اصل موڈ کا اچھا نہ ہونا ہوتا ہے بتاتے ہیں مگر شوزیب اس معاملے میں بھی بڑا خوش قسمت واقع ہوتا ہے۔اس کی بیگم علم ریاضی کی ماہر تو ہیں ہی اوپر سے سخن فہم بھی ہیں ۔ان کی طرف سے نہ صرف داد ملتی ہے تنقید ہوتی ہے بلکہ دبی تقریبات اور دوستوں کی محفل میں شرکت کی بلا ’’ ناک چڑھائے ‘‘اجازت بھی دے دیتی ہیں۔ ایک دفعہ شوزیب پہ غزل کی آمد ہو رہی تھی۔ بیگم صاحبہ غورسے دیکھ رہی تھی کہ صاحب صحن یعنی ’’ بہڑے ‘‘ میں ٹہل رہے ہیں۔ زیر لب شاید کوئی ورد بھی کر رہے ہیں۔ سر بھی دھن رہے ہیں۔بیگم نے پوچھا ’’کیا معاملہ ہے‘‘ تو جواب دیا کہ’’ غزل کی آمد ہو رہی ہے۔ چپ رہنا اور مجھے ڈسٹرب نہیں کرنا‘‘۔ بیگم صاحبہ فرماں برداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموشی سے بیٹھ جاتی ہیں اور تماشا دیکھنے کے ساتھ ساتھ صاحب کے چکروں کا حساب کتاب بھی کرنے لگتی ہیں، ریاضی دان جو ٹھہری ۔ جب صاحب کے 500 چکر پورے ہو گئے تو بیگم کو خوشخبری سنائی کہ 50 شعر ہو گئے ہیں۔ بیگم نے برجستہ جواب دیا آپ کو ایک شعر کہنے کے لیے 10 چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ اپنی کارکردی بہتر بنائیں تاکہ 5 چکروں میں ایک شعر کہہ سکیں۔ اگر بیگم سخن فہم نہ ہوتی تو شوزیب آج کل مزاحیہ شاعری کر رہا ہوتا اور ساری دنیا کی بیگمات کو کوس رہا ہوتا۔
اگرچہ شوزیب کو کسی بڑی محرومی کا سامنا نہیں رہا مگر حساس ، درد دل رکھنے والوں لوگوں کی طرح اس نے بھی زندگی کی مختلف شعبوں کے لیے خاص معیارات مقرر کر رکھے ہیں۔ ہمارا لکیر کا فقیر معاشرہ ہے لکھنے والوںاور مروجہ معیارات سے بغاوت کواہمیت نہیں دیتا۔ سو اس کی وجہ سے شوزیب کبھی کبھی ڈپریشن کا شکار بھی ہو جاتا ہے مگر جلد ہی اس پہ حاوی ہو جاتا ہے اور اپنی فطرت کے مطابق ہنسنے مسکرانے کا سلسلہ جاری رکھتا ہے۔
شوزیب کاشر ہمارا مان ہے ، فخر ہے،دبستان کشمیر کی پہچان ہے ، حلقہ یاراں کی شان ہے اور سب سے بڑھ کر بہت ہی پیارا انسا ن ہے۔ دست دعا بلند ہیں کہ اس کا مجموعہ ’’ خمیازہ‘‘ ہر عام و خاص ادب میں قبولیت کے اعلی درجے پہ پہنچ جائے۔ اور اس کے کلام میں برکت اور تازگی برقرار رہے۔
اور آخر میں اپنا ایک شعر شوزیب کاشر کی نذر
اب حوالہ بن گئے ہیں اس نگر میں کہ جہاں
خواب آنکھوں میں لیے ہم بے ثمر پھرتے رہے
(شوزیب کاشر کے شعری مجموعہ ’’ خمیازہ‘‘ کی تقریب رونمائی میں پڑھا گیا)