قدیم زمانے میں انسان کو بہت سے خطرات کا سامنا رہتا تھا کبھی سیلاب، زلزلے، جنگلی جانوروں کا خوف، درجنوں بیماریاں
ایسے میں زندگی کی مدت بہت کم تھی،
اکثر بچے اپنا دسویں سالگرہ بھی نہیں دیکھ پاتے تھے،
اس وجہ سے ایک عورت تقریبا 10 یا اس سے زائد بچے پیدا کرتی تھی تو ان میں سے صرف 2 یا 3 ہی خوش قسمت ہوتے تھے جو 30 سال تک یا اس سے زائد عمر زندہ رہتے تھے۔
دوسرا یہ کہ جب ایک وحشی قبیلہ دوسرے قبیلے پر حملہ کرتا تو اس قبیلے بہت سے نوجوان مارے جاتے اس طرح ان کو اور ذیادہ بچے پیدا کرنے پڑتے کیونکہ ان کے قبیلے کی بقا کی خاطر ذیادہ بچے پیدا کرنے کا نظریہ مزہد پختہ ہوتا چلا گیا.
پہلے پہل انسان شکاری اور ذخیرہ انداز تھا، جس کیلئے خوراک محدود تھی اور آبادی بھی مستحکم رہی
لیکن
جب انسان نے زراعت سیکھی تو خوراک بھی وافر مقدار میں پیدا ہونے لگی، اسطرے مزید کام کیلئے مزید لوگوں کی ضرورت پڑتی گئی
اسی پیداوار اور ضرورت کے پیش نظر ذیادہ بچے پیدا کرنے کا نظریہ الوہی حیثیت اختیار کر گیا۔ اس طرح انسان جانتے ہوئے بھی ایک جال میں پنستا چلا گیا، کیونکہ یہ نظریہ اس وقت بنا جب آبادی کم تھی اور زمین ذیادہ لیکن اب یہ نظریہ وبال جان بنتا جارہاہے کیونکہ اب زمین محدود ہے، اور آبادی بے تحاشا بڑھ رہی ہے۔
جب ریاستیں قائم ہوئیں تو اپنے بقا کی دوڑ اور دفاع کو موثر بنانے کی دوڑ شروع ہوگئی۔
اس طرح صاحب اقتدار طبقہ نے بھی یہ نظریہ کا بہت زور دار انداز میں پرچار کیا۔
آج اگر کوئی شخص ایمانداری سے حقائق کا مشاہدہ کرے تو معلوم ہوگا کہ ماضی میں یہ نظریہ بہت سی اقوام کیلئے بقا کا ذریعہ رہا لیکن اب یہ ماحول کی تباہی کی وجہ سے انسانوں کیلئے وہال جان بنتا جارہا ہے.
ترقی پزیر ممالک میں گرتا ہوا معیار زندگی اس کی کھلی مثال ہے.
ہمیں سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...