ضیاء الحق کا پاکستان ۔۔۔۔۔ایک کہانی
آج ہم سب ملکر پاکستان کی کہانی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔کہیں کہیں اس کہانی کے چھوٹے بڑے مسائل پر بھی غور کرتے ہیں ۔اب یہ ہم سب پر منحصر ہے کہ خرابیوں کو کیسے سمجھتے ہیں ،اور ان خرابیوں کا حل کیا دیکھتے ہیں۔پاکستان کی کہانی کو مسلم لیگ سے شروع کرتے ہیں ۔مسلم لیگ 1906 میں ڈھاکہ کے اندر بنائی گئی تھی۔یہ سیاسی جماعت بن تو گئی ،لیکن اس پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی ،اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جماعت کو بنانے والوں نے 1916تک کسی قسم کی ممبرشپ نہیں کی ۔اس لئے یہ ایک معمولی اور محدود سیاسی جماعت تھی ،جس کا کوئی واضح ایجنڈا نہیں تھا ۔1916 میں کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان لکھنو میں ایک معاہدہ ہوا جسے تاریخ میں لکھنو پیکٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔اس پیکٹ کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کیسے ہو؟اس کے بعد مسلم لیگ پھر لمبی تان کر سو گئی ۔مطلب پس پردہ چلی گئی ۔پھر گھونگھٹ میں بیٹھ گئی ۔اسی دوران 1920 سے 1924 کے درمیان خلافت تحریک کا آغاز ہو گیا ۔اسی عرصے کے دوران مسلم لیگ شرمیلی دلہن کی طرح منہ چھپا کر دولہے کے کمرے میں سجی سنوری بیٹھی رہی ۔مطلب مسلم لیگ باجی منظر سے غائب ہو گئی ۔پھر ایک دم مسلم لیگ کا زکر 1937 میں کیا جانے لگا ۔اس سال ہندوستان میں انتخابات ہونے تھے ۔اچانک اس کمرے سے نکالا گیا اور کہا گیا کہ شرم و حیا بہت ہو چکی ،اب عوامی بن جاو،سیر و سیاحت کرو ،لوگوں سے ملو جلو ،تاکہ انتخابات میں جیتے جائیں ۔اب کیسے ایسی صورتحال میں انتخابات جیتے جاسکتے تھے ۔اس لئے دلہن ہار گئی ۔یعنی مسلم لیگ کو 1937 کے انتخابات میں بدترین شکست ہو گئی ۔اب مسلم لیگ کے کچھ رہنماوں کو پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ اس جماعت کو عوامی بنایا جانا چاہیئے اور دوبارہ دلہے کے کمرے کی زینت نہیں بنادینا چاہیئے ۔پھر ہوا یوں کہ ممبرشپ کی جانے لگی ،اس کے لئے تحریک چلانے کا انتظام کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ ایک سیاسی جماعت ہے ،جس کا نام مسلم لیگ ہے اور جو مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے بنائی گئی تھی ۔پہلی مرتبہ ہندوستان کے مسلمانوں کو باقاعدہ سے معلوم ہوا کہ واقعی یہ سیاسی جماعت ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے بنائی گئی ہے ۔یہ پہلا موقع تھا جب ہندوستان کے مسلمان اس کا حصہ بننے لگے ۔اب مسلم کیگ کے دروازے سب کے لئے کھل گئے ۔پھر 1940 میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس کا نام قرارداد لاہور تھا ۔پہلی مرتبہ اس قرارداد میں پاکستان کا زکر سامنے آیا ۔لیکن اس قرارداد میں یہ نہیں بتایا گیا کہ پاکستان کن بنیادوں پر بنایا جائے گا ۔مطلب مذہبی بنیاد پر پاکستان بنے گا یا سیکولر خطوط پر پاکستان کی تعمیر کی جائے گا ۔بس صرف پاکستان نام کا زکر کیا گیا ۔اس کے علاوہ قرارداد لاہور میں مسلمانوں کے سیاسی اور معاشی حقوق پر بحث کی گئی ۔پھر ہوتا کچھ یوں ہے کہ 1940 سے 1947 میں مسلم لیگ کو سرگرم رکھا جاتا ہے ۔کہا جاتا ہے مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی ہورہی ہے ،اسی دوران دنگے فسادات بھی ہوتے ہیں ،جس میں مسلمانوں کے ساتھ زیادتیاں ہوتی ہیں ۔مختصر یہ کہ 1947 میں ہندوستان تقسیم ہوجاتا ہے ۔دو ملک بن جاتے ہیں ۔ایک کا نام پاکستان اور دوسرے کا نام بھارت ۔ایک بات تو حقیقت ہے کہ مسلم لیگ کا کردار 1906 سے 1947 تک محدود رہتا ہے ۔پاکستان بننے سے کچھ سالوں پہلے مسلم لیگ کی سرگرمیوں میں تیزی دیکھنے کو ملتی ہے ۔لیکن تاریخی مرحلوں کو تفصیل سے دیکھا جائے تو اس جماعت کا کردار ہمیشہ محدود نظر آتا ہے ۔جیسے ہمیں نصاب کی کتابوں میں مسلم لیگ کی شاندار تاریخ پڑھائی جاتی ہے ،حقیقت میں مسلم لیگ کی کوئی ایسی شاندار تاریخ کبھی نہیں رہی ۔پاکستان کی تحریک میں بھی مسلم لیگ کا کوئی بہت بڑا کردار نہیں ہے ۔جب یہ جماعت کی بنیاد رکھی گئی تھی تو اس وقت اس کے دو مقاصد بتائے گئے تھے ۔ایک یہ کہا گیا کہ مسلم لیگ ہمیشہ برطانوی سلطنت کے ساتھ وفادار رہے گی ،دوسرا یہ کہا گیا کہ مسلمانوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کی جائے گی ۔ایک اور بات قابل غور ہے ،وہ یہ کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی مذہبی جماعتوں نے پاکستان بنانے کی مخالفت فرمائی تھی ۔جمعیت علمائے ہند پاکستان کی شدید مخالف تھی ،انہوں نے کہا تھا کہ قوم پرستی کی بنیاد علاقہ ہوتا ہے۔مسلمان ہندوستان میں رہتے ہیں ،یہ ہندوستانی ہیں ۔اس لئے ہندوستان کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم نہیں کرنا چاہیئے ۔ادھر سے جماعت اسلامی بھی پاکستان مخالف تھی ۔ان کا کہنا تھا کہ قوم پرستی کی بنیاد مذہب ہے ۔مسلمان علیحدہ قوم ہیں ،لیکن پاکستان نہیں بننا چاہیئے ،اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ مسلم لیگ میں جناح صاحب جیسے سیکولر اور لبرل انسان موجود ہیں ،جو مغرب کے تعلیم یافتہ ہیں ۔ان کو مذہب کے بارے میں کوئی علم نہیں ۔جب جناح جیسا انسان پاکستان بنائے گا تو ملک کی بنیادیں مذہبی نہیں سیکولر نظریئے پر رکھی جائیں گی ،اس لئے پاکستان نہیں بننا چاہیئے ۔جناح جیسے انسانوں کی وجہ سے پاکستان کی مخالفت کی گئی ۔لیکن جب پاکستان بن گیا ،تو پاکستان مخالف یہ جماعت بھارت سے پاکستان ہجرت کر گئی اور پاکستان میں جانے کے بعد مطالبات شروع کردیئے گئے کہ اس ملک کو مذہبی بنیادوں پر کھڑا کیا جائے ۔جناح صاحب کے بارے میں یہاں تک کہا گیا کہ وہ مغرب زدہ ہیں ،وہ اسلامی ملک نہیں بناسکتے ۔جناح صاحب کے خلاف کھل کر مکروہ پروپگنڈہ کیا گیا ۔1946 میں پنجاب کے تمام جاگیردار مسلم لیگ میں شامل ہوگئے تھے ۔کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اب ان کی جائیدادوں ،شان و شوکت اور رتبے کا تحفظ پاکستان میں ہی ہوگا ۔کیونکہ کانگریس نے تو 1935 میں ہی اعلان کردیا تھا کہ ہندوستان علیحدہ ہوا تو یہاں جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ کیا جائے گا اور ملک کی بنیاد سیکولر خطوط پر رکھی جائے گی ۔اس لئے مسلمان جاگیرداروں کو جب معلوم ہوا کہ پاکستان بننے والا ہے ،اس لئے بہتر ہے مسلم لیگ کا حصہ بنا جائے ۔آخر جاگیرداروں کے حقوق کا مسئلہ تھا ،اسلئے پنجاب اور سندھ کا جاگیردار طبقہ مسلم لیگ میں بھاگ آیا ۔جاگیرداروں کو معلوم تھا پاکستان میں انہیں اعلی عہدے ملیں گے اور ان کی ہزاروں ایکڑ زمینیں بھی محفوظ رہیں گی ۔اس لئے مجبوری میں سندھ اور پنجاب کے جاگیرداروں نے پاکستان کی حمایت کردی ۔کانگریس کی لیڈرشپ تو کہہ چکی تھی کہ ہندوستان کے آزاد ہوتے ہی جاگیرداری کا خاتمہ ہوگا ۔ہندوستان کو سیکولر ملک بنایا جائے گا ۔جناح صاحب کے ساتھ جب جاگیردار آگئے تو ان کی لیڈر شپ میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ پاکستان کن بنیادوں پر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے گا ۔ ادھر سے جماعت اسلامی بھی پاکستان آچکی تھی ،جاگیردار بھی پاکستان میں اعلی عہدوں پر فائز ہو چکے تھے ،اب بیچارہ اکیلا جناح کیسے کہتا کہ پاکستان کو سیکولر بنایا جائے گا ۔ادھر سے گاندھی ،نہرو اور کانگریس کے تمام لیڈر اس بات پر متفق تھے کہ بھارت سیکولر ملک ہوگا ۔جہاں کسی صورت جاگیرداری نہیں رہے گی۔کانگریس اور مسلم لیگ میں فرق بھی واضح تھا ۔کانگریس 1985 میں بنائی گئی تھی ۔متوسط طبقے نے اس جماعت کی بنیاد رکھی تھی ۔اس جماعت کو بنانے والے اعلی تعلیم یافتہ تھے ،ان میں سے زیادہ تر وکیل تھے ۔ان کے پاس ایک واضح ایجنڈا تھا کہ تقسیم کے بعد وہ ہندوستان کو کیسا ملک بنائین گے۔ان کے اپس پورا پروگرام تھا کہ بھارت کا معاشی ،سیاسی اور ریاستی نظام کیسا ہوگا ۔پوری منصوبہ بندی تھی ،جس کے لئے دستاویزات بھی تیار کرلی گئی تھی ۔لیکن مسلم لیگ کے پاس ایسا کوئی پروگرام نہ تھا ۔یہ معلوم نہیں تھا کہ پاکستان بن گیا تو اس کا سیاسی ،معاشی اور ریاستی نظام کیسا ہوگا ۔ان کے پاس کسی زرعی اصلاحات کا پروگرام نہ تھا ۔لے دے کے جناح کی ایک گیارہ اگست کی تقریر تھی ،جس کی بنیاد پر کہا جانے لگا کہ جناح صاحب پاکستان کو ایک سیکولر ملک بنانے کے خواہش مند تھے ۔لیکن گیارہ اگست کی تقریر کو جماعت اسلامی نے متنازعہ بنادیا۔وہ جامعت اسلامی جو جناح صاحب جیسے انسانوں کی وجہ سے پاکستان مخالف تھی ،وہی جماعت اب کہنے لگی کہ جناح تو پاکستان کو سیکولر ملک بنانے کے مخالف تھے۔یہ تضاد وہ ہے جس پر ہم سب کو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔جناح زاتی زندگی میں ایک سیکولر انسان تھے ۔جدید تہذیب و خیالات کو پسند کرتے تھے ۔یہ بھی ایک بہت بڑی حقیقت ہے ،جسے ہمیشہ جھٹلایا گیا ہے ۔نصاب کی کتابوں میں پروپگنڈہ کیا گیا ہے ۔جناح کو نصاب میں ہمیشہ ضیاالحق بناکر پیش کیا گیا ہے ۔اسی کے نتائج ہیں جو آج ہم بھگت رہے ہیں ۔جناح صاحب پاکستان کے بنتے ہی انتقال کرگئے ،۱۱ اگست کی تقریر بھی متنازعہ بنادی گئی ،اس ساری صورتحال کا فائدہ جماعت اسلامی جیسی تنظیموں نے اٹھایا ۔اور ان لوگوں نے پاکستان کو ضیاٗالحق کا پاکستان بنادیا ۔جناح کے بعد لیاقت علی خان صاحب کی آمد ہوئی ،ان کے ساتھ ہی انیس سو انچاس میں قرارداد مقاصد لائی گئی ۔جس میں اس بات کو قانون بنادیا گیا کہ پاکستان اب کیسے ہوگا ؟جس بنیاد پر پاکستان بنایا گیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا ۔جس بنیاد پر پاکستان کی نظریاتی پرورش کی گئی ،اسی وجہ سے بنگلہ دیش بنا ۔کبھی ہمارے سیاستدانوں اور طاقت ور حلقوں نے اس پر غور ہی نہیں کیا ۔آج پاکستان کے چاروں صوبوں میں اتحاد نہیں ،کشمکش اور انتشار ہے ،انتہا پسندی اور دہشت گردی ہے ۔لڑائی جھگڑے ہیں ۔اس کے ہم خود زمہ دار ہیں ،ہم ہی ہیں جنہوں نے جناح کے پاکستان کے ضیاٗالحق کا پاکستان بنادیا ہے ۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ پاکستان بننے کے بعد ،جناح صاحب کی وفات کے بعد مسلم لیگ کی لیڈرشپ نے ناہلی کا ثبوت دیا؟مسلم لیگ کی اوسط درجے کی قیادت نے تباہ کن اقدامات اٹھائے جس کا خمیازہ یہ قوم دہشت گردی اور انتہا پسندی کی شکل میں بھگت رہی ہے ۔انیس سو انچاس کی قرارداد کی گونج آج ہر گھر میں سنائی دے رہی ہے ۔جب ریاست کا نظریہ جانبدارانہ ہوگا تو ملک ایسے ہی ہوگا جیسا پاکستان ہے ۔لیاقت علی خان سے بھٹو تک سب نے جناح کے پاکستان کو ضیاٗالحق کا پاکستان بنانے کی کوشش کی ۔پھر ضیاالحق خود تشریف لے آئے ۔انہوں نے تو کمال کرنا ہی تھا ۔پھر تو اس قوم نے فرقوں میں تقسیم ہونا ہی تھا ۔ضیاٗالحق کے آتے ہی طالبان آگئے ،جماعت اسلامی کا سنہری دور شروع ہو ا۔انتہا پسندی کی فصلیں لگنے لگی ،جو اب پک کر پھل دے رہی ہیں ۔اب جھگڑے ہیں ،انتہا پسندی ہے ،مذہبی فسادات ہیں ،کیونکہ یہ ضیاالحق کا پاکستان ہے ۔اب ریاست کے نظریئے میں جنرل ضیاٗ بیٹھا ہے ،اب نصاب کی کتابوں میں جنرل ضیاٗ مسکرا رہا ہے ۔اب بیورو کریسی ،یونیورسٹیوں ،سییاست ،معیشت اور معاشرت میں جگہ جگہ ضیاالحق تشریف فرما ہے ۔ایسی صورتحال میں کیسے پاکستان میں امن سکون آسکتا ہے ۔یہاں تو سائنس و ٹیکنالوجی کے اداروں میں ضیاٗ گھنسا ہوا ہے ۔ریاست کو غیر جاندار بناناہے ،اسے انسانیت جسے نظریئے پر چلانا ہے تو سب سے پہلے جنرل ضیاٗ کو زندگی کے ہر شعبے سے نکال باہر کرنا ہوگا ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ ضیاٗ الحق کا پاکستان ہے ۔یہ پاکستان کبھی بھی جناح کا پاکستان نہیں رہا ۔کیا وزیر اعظم پاکستان نواز شریف صاحب ،چیف آف آرمی اسٹاف باجوہ صاحب ،عمران خان صاحب اور باقی تمام سیاسی و فوجی قیادت زندگی کے ہر شعبے سے ضیاٗ کو باہر نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہے ؟نواز شریف اگر چاہتے ہیں کہ ملک ترقی کرے تو وہ پلوں ،سڑکوں اور میٹرو بنانے کے ساتھ ساتھ ریاست ،معیشت ،معاشرت اور سیاست سے جنرل ضیاٗ کو تمام عہدوں سے برطرف کردیں ۔۔ایسا نہ ہوا تو جمہوریت بھی خطرے میں رہے گی ،مارشل کا خطرہ بھی منڈلاتا رہے گا ۔وہ ملک بدر بھی ہوتے رہیں گے ،بے نظیر جیسی لیڈر بھی بار بار شہید ہوتی رہے گی ،انتہا پسندی بھی رہے گی ،تعصب اور نفرت کا رویہ بھی برقرار رہے گا ۔کیا کبھی نواز شریف یا ان کے بعد آنے والا کوئی لیڈر ضیاٗ الحق کے خلاف نیشنل ایکشن پلان ترتیب دے گا ؟سوال یہ ہے جس پر بات کرنے کی ضرورت ہے ۔باقی آپ کی مرضی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔