یونانی افسانہ
زیرو کِلومیٹر ( Τὸ χιλιόμετρο μηδέν)
( Kilometer Zero )
کونسٹینٹینوس پولس ( Konstantinos Poulis)
تحریر مُکرر ؛ قیصر نذیر خاورؔ
ہم ، جب ، یہ کہتے ہیں ” ایتھنز سے لیمیا ، 35 کلو میٹر دورہے‘‘ ، تو ہم اسے کہاں سے ناپ رہے ہوتے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ شہر کے وسط سے ۔ ۔ ۔ لیکن شہر کے وسط میں ، درست طور پر، ٹھیک ٹھیک ، کہاں سے ؟
ہمارے دوست ’ تھناسِس ‘ نے گفتگو کا آغاز اِس طرح سے کیا ۔ ۔ ۔ ایسی گفتگو جو عام طور پر یونہی اچانک تیزی سے شروع ہو جاتی ہے ۔ لیکن تھناسِس اپنی بات پرمُصر تھا ۔ اور پھر جب ایک بار ’ اومونیا ‘* اور ’ سنٹیگما ‘ * کے درمیان جھگڑا نِبٹا ( جس سے بات چیت کے دوران یہ ظاہر ہو گیا تھا کہ ہم سب ہی اس بارے میں کتنے انجان تھے ) تو جواب کی کھوج اگلے مرحلے میں داخل ہوئی جو خاصی دلچسپ تھی ۔ چلو یہ طے ہو گیا کہ ’ سنٹیگما ‘ سے ، ٹھیک ، لیکن کہاں سے ؟ اس کی سیڑھیوں کے پہلے قدمچے سے؟ فوارے سے ؟ میٹرو سے ؟ اس کے صحن سے ؟ یا کہیں اور سے ؟
اس نے ، ہم سب کے لئے ، اپنی مُہماتی داستان کو پھر سے دوہرایا ۔ ” آج صبح ، میں ’ ناپ تول کی عالمی بیورو ‘ کے بارے میں جائزہ لے رہا تھا ۔ میں نے ناپ تول کی جنرل کانفرنس کی یونانی شاخ سے بات کی ، جس کا ہیڈ کوارٹر پیرس کے باہر ہے اور جہاں ہر طرح کے ماہر مقیاسیات موجود ہیں ۔ جس کی پیشانی پر یونانی میں لکھا ہے ؛ ’ درست ناپ تول کو استعمال کرو ‘ ! لیکن ہم یونانیوں کے بارے میں کیا ہے ؟ ہمیں یہ کیوں نہیں ملتا ؟ کیا یہ درست ناپ تول صرف بدیسیوں کے لئے ہے ؟ پھر میں نے وزارت کامرس میں جنرل سیکریٹریٹ برائے کامرس کے ’ ناپ تول کی وقفے وقفے سے پڑتال کرنے والے دفتر‘ میں بات کی ۔
’ جناب ! ہم اس بات کے انچارج نہیں ہیں ۔ ہم سائنسی یا لیباٹری کے لئے استعمال ہونے والے آلات کو نہیں بلکہ صرف ناپ تول کے اُن آلات کو دیکھتے ہیں جو کاروباری مقاصد کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔‘
’ تو پھر تم جہنم میں جاﺅ ! ‘
پھر میں نے ٹریفک پولیس والوں کو فون کیا ۔ وہاں سے ’ مشینی ‘ جواب ملا ۔ ۔ ۔ لائسنس پلیٹ ضبط ہونے اور اس کی واپسی کے لئے1 دبائیں ۔ گاڑی کو باندھ کر لے جانے کی سہولت کے لئے 2 دبائیں ۔ موپڈ لائسنس حاصل کرنے کے لئے 3 دبائیں ۔ ٹریفک حادثات کے لئے 4 دبائیں ۔ اور جب بالآخر میں نے کسی طور کسی نمائندے سے بات کی تو میں اس پر چِلایا ؛
’ دیکھو، پال ، کیا یونان نے 1875 ء کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں ؛ ہاں یا نہ میں جواب دو ۔ ‘
’ جناب ، کلو میٹروں میں فاصلوں کو ’ ایٹیکا ‘ والے دیکھتے ہے ہم نہیں ۔ وہاں ٹرانسپورٹ ، انفراسٹرکچر اور نیٹ ورکس کی وزارت میں ، پبلک ورکس کا شعبہ ہے ۔ ‘
وہ ساری صبح فون پر ’ زیرو کلومیٹر‘ کے بارے میں پوچھتا رہا ۔ اور جیسا کہ توقع تھی ، ہر کوئی اسے کسی دوسرے کے حوالے کر دیتا یا اس سے چھٹکارا پانے کے لئے کہیں اور بھیج دیتا ۔ ٹریفک پولیس والے ، وزارت ٹرانسپورٹ والے ، انس (Annas) سے کیافس (Caiaphas ) تک اس کی دوڑ لگی رہی ۔ پہلے تو وہ ان سے سکون سے بات کرتا رہا لیکن پھر وہ اپنی اس جستجو کے حوالے سے ان پر برہم ہونے لگا ؛ دوسرے شہر ، قدیم روم اور قسطنطنیہ اور ان کے سنہرے سنگ میل ، آج کے جدید ایتھوپیا اور چلی سے مڈغاسکر تک ، ایک مقبرہ ۔ ۔ ۔ ایک چٹان ، کانسی کا کوئی بڑا ٹکڑا ۔ ۔ ۔ جو زیرو کلومیٹر کی تعریف کر سکے ۔ ہوانا میں ، ان کے پاس ایک ہیرا ہے جو زار کی طرف سے تحفہ ملا تھا ۔
’ اے یونانی ، مجھے تم پر ترس آتا ہے ، کیا یہ واقعی بہت مشکل کام ہے کہ تم ہمیں ، جو تمہارے اپنے لوگ ہیں ، کو یہ نہیں بتا سکتے کہ زیرو کلومیٹر اصل میں کہاں ہے ؟ ‘ ۔ ’ میں اس وقت اپنے سفر میں ہوں اور ایتھنز سے لیمیا جاتے ہوئے ایک سو تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہوں ، ہاں لیکن کہاں ؟ یہ کہاں ہے ؟ ہم کہاں سے اسے ناپ رہے ہیں ؟ ! اس کا کیا مطلب ہے کہ ’ سنٹیگما ‘ سے؟ تو میرے بھائی میری دادی کو ’ سنٹیگما ‘ پار کرتے ہوئے پندرہ منٹ لگتے ہیں ! سیئول میں جو مقبرہ ہے وہ اصل زیرو کلومیٹر سے 151 میٹر دور ہے ۔ 151 میٹر ! یہ فٹ بال کی گراﺅنڈ کے دو سِروں کے درمیانی فاصلے سے بھی کہیں زیادہ ہے ۔ کیا ہم یہی چاہتے ہیں؟ کیا یہی ہم ہیں ؟ کیا ہم یہی کہنے والے ہیں کہ زیرو کلو میٹر وہیں ہے جہاں اصل میں دو گول کیپر ایک دوسرے کے لئے ہاتھ ہلا رہے ہیں ؟ ‘
ہم جس ریستوراں میں بیٹھے تھے وہاں سگریٹ پینے پر پابندی تھی اس لئے ہم میں سے کچھ کو سگریٹ پینے کے لئے باہر جانا پڑتا تھا ۔ میں باہر گیا اور انہیں بتایا ؛ ” تم اس سب سے محروم ہو ! فوراً اندر چلو ! ایسا روز روز نہیں ہوتا کہ آپ اپنے کسی دوست کو ان خاص لمحات میں دیکھ پائو جب وہ مکمل طور پر اپنا آپ چھوڑ رہا ہو ۔ “
پون گھنٹے یا کچھ اتنے ہی وقت میں ہم سب کو اندازہ ہو گیا کہ اس شام کچھ ۔ ۔ ۔ کچھ نہیں ۔ ۔ ۔ بلکہ کچھ اہم ہونے والا تھا ۔ شاید ، نروس بریک ڈاﺅن ۔ اور ہم نے ٹھیک سوچا تھا ۔ جس طرح ’ ایراٹوستھینز (Eratosthenes)* نے چیلسس (Chalcis )* کے پانیوں میں خود کو ڈبو دیا تھا کہ وہ آبنائے یوریپس (Euripus ) میں اٹھتی موجوں کی وضاحت نہ کر پایا تھا ، اسی طرح تھناسِس بھی زیرو کلومیٹر والی پہیلی کا جواب حاصل کرنے کے لئے جنون کی تمام حدیں پار کر چکا تھا ۔ اگلے ہفتے وہ ریستوران میں نہ آیا ۔ وہ گھر پر ہی رہا اور ریسرچ کرتے ہوئے وزارت کے لئے ایک تجویز مرتب کرتا رہا کہ اس کے نزدیک زیرو کلومیٹر کا سَنگ کہاں ہونا چاہیے ۔ اس سے پہلے اس نے یقیناً سنٹیگما کو بھی چھانا اور اس نے وہاں باریکی سے ناپنے والی ایک ورکشاپ بھی قائم کی ۔ اس نے وہاں لگے اہم پتھروں پر باریک اور سیدھی لکیریں بھی لگائیں تاکہ اپنی جمع تفریق میں ان کو شامل کر سکے ۔ وہ آلات و پنسلیں اٹھائے وہاں اس وقت تک رہا جب تک کہ اسے اِس چوک سے بزور نکال باہر نہ کیا گیا ۔ تب سے اس نے یہ کام گھر میں ہی کرنے کی ٹھان لی تھی ۔
وہ اس پر دن رات کام کرتا رہا اور اس کا حال اپنے ساتھی ’ ایجلس ‘ جیسا ہی تھا ۔ ایجلس اپنے سر کے وزن کو کامل حد تک جاننے کے لئے کوشاں تھا ۔ یہاں تک کہ اسے یہ احساس ہوا کہ وہ یہ تب ہی جان سکتا تھا جب وہ اپنے سر کو دھڑ سے الگ نہ کر دے ۔ لیکن ایسی چیزیں یوں ہی آگے بڑھتی ہیں ؛ جنون کی قیمت بندے کا سر ہی ہوتی ہے ؛ اس کے علاوہ باقی سب کچھ بس سمجھوتہ ہی ہوتا ہے ۔ تھناسِس نے ، چنانچہ ، اپنا سر گنوا دیا ۔ وہ ساری رات جمع تفریق کرتا رہا اور اپنے کاغذات پر جوشیلے پن سے کام کرتا رہا ۔ وہ شدید تناﺅ میں تھا ۔
دماغ کے سائنس دانوں کو ذرہ بھر اندازہ نہیں ہوتا کہ بندے کے دماغ میں کیا چلتا رہتا ہے ۔ کورٹیکس ( cortex ) ، رِجز ( ridges ) ، لوب ( lobe ) ، ہیمی سفیئرز ( hemispheres ) ان سب کے بارے میں وہ جو بھی باتیں کرتے ہیں ، وہ ننھے بچوں کے لئے گڑھی گئی پریوں اور جنوں کی کہانیوں سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہیں ۔ اور آپ اس کے بارے میں بھی بھول جائیں کہ نفسیاتی عوارض اور دماغ کے بارے میں کیا کچھ کہا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ دماغ ایک بے شکلا مادہ (مغز) ہے جو ایک گول برتن ( کھوپڑی) میں ابلتا رہتا ہے ۔ اس برتن کو گردن نے سہارا دیا ہوتا ہے جو اس کے درجہ حرارت میں بھی کمی بیشی کرتی رہتی ہے ۔ گردن ہی ساری دماغی کیفیات اور سرگرمیوں کا محرک ہوتی ہے ، اسی لئے ہم بات کرنے سے پہلے اپنا گلا صاف کرتے ہیں ۔ غصہ اور خجالت ، انسان کے ان دو مرکزی جذبات کا اظہار گلے میں درجہ حرارت کی کمی بیشی کی ہی وجہ سے ہوتا ہے ۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ لوگوں کی آواز کی ٹون اس وقت کیوں بدل جاتی ہے جب وہ غصے میں آتے ہیں اور لڑنے لگتے ہیں اور یہ بھی کہ وہ آنسو کیوں بہاتے اور روتے کیوں ہیں ۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے بس ذرا یہ خیال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس برتن میں درجہ حرارت کا اضافہ اکثر ہوتا رہتا ہے اور اسی لئے انسانی جسم میں اسے کم کرنے کے لئے وہ نظام موجود ہے جسے ’ آنسو بہانا ‘ کہا جاتا ہے ۔ خیر ہم پانی اپنے منہ سے پیتے ہیں تاکہ اپنے جسم کے درجہ حرارت کو موسم کے مطابق کم یا زیادہ کر سکیں ۔ تھناسِس کا دماغی ہیجان کچھ زیادہ ہی واضح تھا جواس کے چہرے کے تاثرات کے ساتھ ساتھ اس کی دمکتی لال گالوں سے بھی ظاہر ہوتا تھا کہ اس کے دماغ کا درجہ حرارت کتنا بڑھا ہوا تھا ۔
صبح چھ بجے کے قریب جب اس نے کچھ دیر آرام کرنے کے لئے ہاتھ روکنے کا فیصلہ کیا تو اس کے دماغ نے اس کی بات سننے سے انکار کر دیا ۔ اس کا پارہ چڑھتا گیا اور یہ پھٹنے کی حد تک جا پہنچا جسے کوئی شے روک نہ سکتی تھی ۔ تھناسِس ’ بے شکلے مادے ‘ کی تھیوری کا ماننے والا تھا اس لئے وہ وقتاً فوقتاً ٹھنڈا پانی پیتا رہتا تاکہ اپنے دماغ میں بیٹھی عفریت کو ٹھنڈا رکھ سکے جس کے شعلے اس کی آنکھوں کی پتلیوں کوداغتے رہتے تھے ، پانی پیتے رہنے سے عفریت بھی ٹھنڈی رہتی اور ان شعلوں کی آگ بھی سرد ہوتی رہتی ۔ ۔ ۔ لیکن اس وقت دیر ہو چکی تھی ۔ اور پھر اس کا دماغ پھٹ پڑا ؛ یہ ایک ایسی تکلیف تھی جسے ڈاکٹر ’ سٹروک ‘ ( stroke ) کہتے ہیں ۔
جب اُسے ہسپتال میں لایا گیا تو انہیں مریض کا داخلہ فارم بھرنے میں اڑتالیس گھنٹے لگ گئے ۔ اس وقت تک تھناسِس کے دماغ کا ایک بے شکل حصہ مردہ ہو چکا تھا ۔ ۔ ۔ دوسرے لفظوں میں اس کے گلے کے پیندے میں برتن کے نیچے ہمیشہ جلنے والی آگ کی چھوٹی بتی ایسے بجھی کہ اسے دوبارہ جلایا ہی نہ جا سکتا تھا ۔ ڈاکٹروں نے بھی کچھ ایسا ہی کہا تھا لیکن وہ ابھی مرا نہیں تھا ۔
ڈاکٹر ، جیسا کہ سب جانتے ہیں ، اپنی حساسیت کے حوالے سے نہیں جانے جاتے ۔ آپ میں سے جو بھی حساسیت کے حوالے سے جاننا چاہتا ہے تو اسے اس کی دادی کے پاس ، انہیں گلے لگانے کے لئے جانا چاہیے ۔ ڈاکٹر سائنس دان ہوتے ہیں ۔ انہوں نے ، چنانچہ ، اس کی ماں سے کہا کہ اُسے اس لئے داخل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انہیں مریض کے دستخطوں کی ضرورت تھی ۔ جب اس کی ماں نے انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ تھناسس کے کوما میں ہونے کی وجہ سے ایسا کرنا ممکن نہ تھا تووہ وہاں سے پہلے ہی جا چکے تھے ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ڈاکٹروں کے ہاتھوں میں زندگیاں ہوتی ہیں اور مریضوں کے پاس موجود ان کے رشتہ داروں کے ساتھ گپ شپ لگانا ان کے لئے سب سے کم اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ جب تھناسِس کی ماں مرکزی ڈیسک پر گئی تو انہوں نے بھی الفاظ چبا چبا کر بولا ؛ ” آپ کو ان ہدایات پر عمل کرنا ہو گا جو ہسپتال کے کاغذات پُر کرنے کے حوالے سے ضروری ہیں ۔ “
بہرحال ، انہوں نے اسے ، اس کے والد کے نام اور اس کے پوسٹ کوڈ کے خانے پُر کئے بغیر داخل کر لیا ! جب آپ بے ہنگم طریقے اور لا پرواہی سے فارم بھرتے ہیں تو یہ سادہ اور سب سے عمومی غلطی ہوتی ہے جس سے مریض آپس میں گڈ مڈ ہو جاتے ہیں۔ ” کیا آپ چاہتی ہیں کہ ہم اس کی اپنڈکس نکال دیں ؟ “ ، عملے کے ایک بندے نے چالاک بنتے ہوئے تھناسِس کی ماں سے پوچھا ۔ ۔ ۔ یہ کچھ ایسا ہی تھا کہ مریض کے لواحقین پر غشی طاری کر دی جائے ۔
جب تیسری بار کوشش ( تب تک ہسپتال میں ہر کوئی جان چکا تھا کہ وہ عورت جس کا بچہ کوما میں تھا ، بالکل بےوقوف تھی ) کے بعد جب وہ داخلہ فارم بھرنے میں کامیاب ہو گئی تو ڈاکٹر تھناسِس کو دیکھنے آیا ۔ اصل میں یہ کوئی اور نہ تھا بلکہ اس ہسپتال کا ڈائریکٹر خود تھا ۔ وہ کمرے میں ایک سفید فرشتے کی مانند داخل ہوا ؛ اس کے ساتھ ماہرین کا ایک لشکر تھا جو اس سے تین فٹ کی دوری پر تھے اور اپنے سانسوں کی باس سے اسے پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ اس نے سفید کوٹ پہن رکھا تھا جس کی بائیں جیب میں مختلف فارماسوٹیکل کمپنیوں کے پن ، تمغوں کی مانند ، لگے ہوئے تھے ، ایسے جسے ہم کہا کرتے تھے ؛ ” دل پر سجائے ہوئے تھے ۔ “
وہ نرس ، جس کو تھناسِس کی ماں کسی بھی سوال کا جواب دینے پر راضی نہ کر سکی تھی ، ڈاکٹر کی آمد پر بوکھلا گئی اور اس نے تھناسِس کی ماں ، مسز واسو کو کہا کہ وہ وہیں کھڑی رہیں جہاں وہ تھیں اور بستر کے ساتھ پڑی میز مت چھیڑیں کیونکہ ایک بار ڈاکٹر کو ٹھوکر لگ گئی تھی اوراس منزل پر سب لوگوں نے ڈاکٹر کی گالیوں کی بوچھاڑ کو سنا تھا ۔ خیر ہر شے اپنی اپنی جگہ اس حد تک درست پڑی تھی کہ کوئی بھی ایک سنٹی میٹر آگے پیچھے نہ تھی ۔ یہاں زندگیاں بھی داﺅ پر لگی ہوتی ہیں ، خیر یہ ساری باتیں طب سے ہٹ کر ہیں ، انہیں ایک طرف رکھتے ہیں اور سائنس کو عملداری میں دیکھتے ہیں ۔ ’ دوائی ‘ ہی اصل سائنس ہے جو کسی طور بھی سب کے لئے مفت نہیں ہوتی ۔
ڈاکٹر نے تھناسِس کی آنکھوں کی پتلیوں سے معائنہ شروع کیا ، جن کی پوزیشن اس بات پر منحصر تھی کہ ڈاکٹر اس کے سرکو کس طرف حرکت دیتا تھا (جنہیں خدا کو نہ ماننے والے گڑیا کی آنکھیں کہتے ہیں ) ۔ اس نے کچھ متعلقہ ٹیسٹ بھی کیے جیسے20 ملی لیٹر یخ ٹھنڈا پانی ’ ٹمپینک ‘ ( tympanic ) جھلی میں داخل کرنا وغیرہ وغیرہ ، جب ڈاکٹر نے بھنویں چڑھائے اور پیشہ ورانہ انداز میں اس کا پوری طرح معائنہ کر لیا تو اس نے تھناسس کی ماں، جو اپنے بے جان اور بے حس و حرکت بچے کو تکے جا رہی تھی اوراس کی ٹانگ کو مسلسل تھپتھپا رہی تھی کہ شاید اس سے ہی کوئی تبدیلی ممکن ہو ، سے پوچھا ؛
” تمہارانام کیا ہے ؟ “
” واسو۔ “
” اچھا ، تو مسز واسو ، تمہارے بیٹے کا دماغ مردہ ہو چکا ہے ۔ اور اس کے دوبارہ زندہ ہونے کے کوئی امکانات نہیں ہیں ۔“
تھناسِس کی ماں چُپ چاپ اسے دیکھتی رہی ۔ بیچاری ماں اس سے بہت سے سوال کرنا چاہتی تھی لیکن اس وقت وہ کچھ بھی نہ پوچھ سکی ۔ باتیں جو وہ پوچھنا چاہتی تھی اس کے دماغ میں تب آئیں جب وہ جا چکا تھا ۔ اب وہ اسے راہداری میں کہاں تلاش کرتی پھرے ؟ وہ اس وقت بھی نرس کے ساتھ تھی جو اس پر چلائی تھی کہ وہ سائیڈ ٹیبل کو مت چھیڑے ۔
یہ ، تھناسِس کی زندگی ، جو شاید اب تھوڑی ہی رہ گئی تھی ، میں بجا طور پر’ ناپ تول ‘ والے ڈرامے کا دوسرا ایکٹ تھا ۔ اس کا چہرہ سفید اور تاثرات سے خالی تھا اور پہچان میں بھی نہیں آ رہا تھا ۔ مسز واسو کو لگ رہا تھا جیسے ان کا بیٹا ان کی نظروں کے سامنے تحلیل ہو رہا ہو ، ایسے جیسے اُسے بیٹے کے ساتھ ہی تابوت میں بند کر دیا ہو تاکہ وہ دیکھ سکے کہ کیڑے مکوڑے اس کے بیٹے کو کس طرح نگلتے ہیں ؛ بالکل ایسے ہی جیسے یہ سب اذیت پسندی کے جذبے کے تحت کیا جا رہا ہو ۔ ایک خاص لمحے میں تھناسِس کی ماں نے یہ مان بھی لیا کہ اس کا بیٹا مر چکا ہے اور پوچھنا شروع کر دیا تھا کہ وہ انہیں اسے دفنانے کیوں نہیں دیتے ۔ ” یہ ناممکن ہے ۔ “ ، انہوں نے جواب دیا ، ” کیونکہ وہ درست طور پر ’ ریڈنگز ‘ ( readings ) نہیں لے پا رہے اور یہ کہ شاید اسے ’ ہائپو تھرمیا ‘ ( hypothermia) * نہ ہو ۔“
” آپ لوگوں کو کس قسم کی ریڈنگز کی ضرورت ہے ؟ جبکہ وہ مر چکا ہے ۔ اور آپ ، مجھے اس کو دفن کیوں نہیں کرنے دیتے ۔ وہ تو مر چکا ہے! “
” ہاں ، لیکن میم ، اس کے پلگ اتارنے کی ذمہ داری کون لے گا ؟ “ ، ( انہوں نے بالکل اس طرح بات کی جیسے وہ ایک ٹوسٹر کے بارے میں بات کر رہے ہوں ) کیا آپ اس کی ذمہ داری لیں گی ؟ جب کسی کو ہائپو تھرمیا ہو تو کلینیکل ٹیسٹ درست طور پر کام نہیں کرتے ۔ ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ اس کے جسم کے اہم اعضاء صحیح طور کام کر رہے ہیں یا نہیں ۔ اگر ہم قابل اعتماد ناپ تول نہ کر سکے تو ہمیں جیل کی ہوا کھانا ہو گی ۔ “
یہ گفتگو بار بار ہوئی اور کئی بار تو یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ کہیں مسز واسو کو ہی قتل کے الزام میں جیل نہ جانا پڑ جائے کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ آج تک کوئی ڈاکٹر ، اپنے کرتبے کے لئے یا اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران غفلت برتنے پر تو جیل گیا ہی نہیں ۔ یہ ایک طرح کا ان کا پیشہ ورانہ اتحاد ہے ۔۔۔ایک نایاب ہتھیار جسے وہ ہمیشہ استعمال کرکے خوش ہوتے ہیں ۔ وہ تھناسِس کے بارے میں یہی کچھ بار بار دوہراتے رہے جبکہ اس کی ماں ہر آنے والے دن میں تھکن سے مزید نڈھال ہوتی رہی ، بالکل اسی طرح ، جس طرح پہلے بھی وہ گھر میں اس کے سامنے ہی چلا گیا تھا اور وہ کچھ نہ کر سکی تھی ۔ طبی نتائج کو درست قرار دینے اور یہ کہ دماغ مر چکا ہے ، کے لئے یہ ضروری تھا کہ تین تین گھنٹوں کے وقفوں کے بعد چار چار بار یہ جانچا جائے کہ مریض کا درجہ حرارت ہر بار ایک سا ہی رہتا ہے یا نہیں ۔ ورنہ ہائپوتھرمیا میں بھی ایسی علامتیں ہو سکتی ہیں جو دماغ کے مردہ ہونے کی صورت میں نمودار ہوتی ہیں جس پر یہ سوچ پیدا ہوتی ہے کہ مریض مر چکا ہے اور اسے اس کے وقت سے پہلے ہی ’ وینٹ ‘ مشین سے اتار دیا جاتا ہے ۔ یہ سب کرنے میں یہ بات بھی شامل تھی کہ عام لوگوں پر یہ ثابت کیا جائے کہ ڈاکٹر حضرات زندہ لوگوں کو بے دردی سے یا ازراہ ہمدردی ’ وینٹیلیٹر‘ (ventilator) سے اتار نہیں دیتے ۔
اور اب ، تھناسس کا جسم ، اُس آدمی کا جسم جو درست ’ ناپ تول ‘ کی خاطر آخری حد تک گیا ، ایک بار اور اسی کھیل ( جو قطعی مزیدار نہیں ہے ) کو برداشت کر رہا تھا ۔ ڈاکٹر خود درست ناپ تول کا قائل تھا ۔ چنانچہ اب وہ اور تھناسِس ، اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود ، ایک مشترکہ مقصد کے لئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے جو عام زندگی میں کبھی ایک دوسرے سے ملے بھی نہ تھے ۔ تھناسِس کی روح اس وقت تک نکل نہیں سکتی تھی جب تک درست ’ ناپ تول‘ مکمل نہ ہو جاتا ۔ یہ کسی طور بھی کوئی سادہ بات نہ تھی ؛ بغل ، کان ، منہ ، مقعد ۔ ۔ ۔ جب درجہ حرارت کی بات آتی ہے یہ سب جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں ۔ مقعد کا درجہ حرارت معدے کے درجہ حرارت کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے ۔ اسی طرح بغل کا درجہ حرارت معدے کے درجہ حرارت سےکم ہو تا ہے گو یہ فرق ایک ڈگری کے دسویں یا بیسویں حصے سے کچھ زیادہ نہیں ہوتا لیکن فرق تو فرق ہے ۔ اسی طرح جلد کی موٹائی بھی نتائج پر اثرانداز ہو سکتی ہے ۔ صرف ایک ناپ ، جو دماغ کی رطوبت میں سے لیا جائے ، ہی انسان کے اصل درجہ حرارت کے اسرار پر روشنی ڈال سکتا ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ ایک عام تھرمامیٹر سے نہیں لیا جا سکتا ۔ تھناسِس کو اگر اس لاپرواہی کے بارے میں معلوم ہو جاتا تو وہ پاگل ہو جاتا ۔ ’ تھرمسٹرز‘ ( Thermistors) ، ’ کرسٹل مائع جات ، اور معلوم نہیں اور کیا ۔ ۔ ۔ ناپ تول کے سارے طریقے استعمال کرنے کی ضرورت تھی ۔
پورا ایک مہینہ گزر گیا لیکن تھناسس کا جسم درجہ حرارت کا ناپ دیتے سے انکاری رہا ۔ نرسیں اور ڈاکٹر جو بھی ناپ لیتے وہ ناقص ہی ہوتا یہاں تک کہ وہ ایک ایسی لاش بن گیا جس پر طرح طرح کے تجربات کئے جا رہے تھے ، بالکل اسی طرح جیسے کسی میڈیکل سکول کی اناٹومی کلاس میں پاس پاس رکھی لاشوں میں سے کسی ایک میں جگہ جگہ تھرمامیٹر گُھسایا جا رہا ہو ۔
ڈاکٹروں نے درست ناپ لینے کے لئے وہ سب کر ڈالا جو ان کے بس میں تھا ۔ اور اب انہوں نے تھناسِس کو اس طرح حفاظت سے رکھا ہوا تھا کہ بندہ گمان کر سکتا ہے کہ اگر انہوں نے شروع سے ہی یہ احتیاط برتی ہوتی تو شاید وہ اس حال کو نہ پہنچتا ؛ ایک ایسی لاش جس کے مقعد میں ایک تھرما میٹر گھسا ہوا تھا ۔ لیکن انہوں نے اسے یوں زندہ رکھا ہوا تھا جیسے ڈاکٹر ، ڈاکٹر نہ ہوں ، اذیت دینے والے وہ لوگ ہوں جو ہتھے چڑھے بندے کو تب تک ایذا پہنچاتے رہتے ہیں جب تک وہ اقبال جرم نہیں کر لیتا ۔ یہی صورت حال تھناسِس کے ساتھ تھی ، اسے اس حالت میں اس لئے رکھا گیا تھا کہ وہ ایک بار درست درجہ حرارت کا ناپ دے د ے پھر بے شک جہنم میں جائے ۔ یہ سلسلہ چالیس روز تک جاری رہا یہاں تک کہ تھناسِس کا آخری وقت آ گیا ۔
جس دن وہ فوت ہوا ، اس روز ، وہ ، بالآخر ، ایک اچھا اور قابل اعتماد ناپ لینے میں کامیاب ہو گئے ۔ یہ بات اتنی شاندار تھی جیسے علم ِریاضی کی کوئی ایسی مساوات جو پہلے کبھی بھی حل نہیں ہو رہی تھی ، حل ہو گئی ہو ۔ جب انہوں نے دیکھا کہ تیسری بار بھی اس کا درجہ حرارت وہی ہے جو پہلے تھا تو سب نرس کے گرد اکٹھا ہو گئے اور الجھاﺅ و تناﺅ میں انتظار کرنے لگے ؛ اور پھر ڈاکٹر وں نے بالآخر اسے مرنے دیا ۔
تھناسس کے درجہ حرارت کو ، جب چوتھی بار ناپا جا رہا تھا تو اس کی ماں نے قسمیہ کہا کہ اس نے اپنے بیٹے کو مسکراتے ہوئے دیکھا تھا ۔ انہوں نے اسے سمجھایا کہ ایسا ممکن نہ تھا جس پر اس نے انہیں کہا ؛
” کیا میں اپنے بچے کو نہیں جانتی ؟ “
مصنف کا نوٹ ؛ میں اپنی یہ کہانی اپنے دوست ’ پیتروس کوٹسیامپاساکوس ‘ کے نام کرتا ہوں جس نے ہم سے ’ زیرو کلومیٹر ‘ کے بارے میں ’ اویکونومو‘ ریستوران میں بات کی تھی ۔
نوٹ ؛ یہ افسانہ مصنف کی خواہش پر اردو قالب میں ڈھالا گیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* ’ اومونیا‘ ( Omonia) ، ایتھنز کا وہ چوک ، جسے پہلے بادشاہ آٹو کے نام پر ’ آٹونس ‘ کہا جاتا تھا ۔ 1862ء کے بعد اس کا نام Omonia اس لئے پڑا کہ حزب اختلاف کے رہنماﺅں نے یہاں امن کے نام پر حلف اٹھا تھا ۔
* ’ سنٹیگما‘ ( Syntagma) ، ایتھنز کا وہ چوک جہاں اب یونان کی پارلیمنٹ کی عمارت واقع ہے اور اسے ایتھنز کا ’ زیرو کلومیٹر ‘ مانا جاتا ہے ۔
* ایراٹوستھینز (Eratosthenes) ، یونانی ریاضی دان ، جغرافیہ دان ، ماہر فلکیات ، موسیقار اور شاعر جس نے پہلی بار240 قبل از مسیح میں زمین کے گھیرے اور اس کے ایکسس (Axis ) میں جھکاﺅ کو ناپا تھا ۔ وہ 276 قبل از مسیح پیدا ہوا تھا۔ اس کے شاگرد اسے ’ پینٹاتھولس (Pentathlos) کہہ کر بلاتے تھے ۔ وہ عمر کے آخری حصے میں195 قبل از مسیح کے لگ بھگ بینائی سے محروم ہو گیا تھا اور اس نے اپنی زندگی کا آخری سال اکثر فاقہ کشی میں گزارا ۔ وہ 82 برس کی عمر میں سکندریہ میں 194 قبل از مسیح میں فوت ہوا ۔
* چیلسس (Chalcis ) ، یونان کے ایک شہر کا نام
* ’ ہائپو تھرمیا ‘ ( hypothermia) وہ کیفیت ہے جس میں انسان کے جسم کا درجہ حرارت ، عمومی درجہ حرارت سے کم ہو جاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مندرجہ بالا کہانی مصنف کی کتاب ’Thermostat ‘ سے لی گئی ہے ۔ یہ اس میں ساتویں کہانی ہے ۔ مصنف نے اس کا جو نام یونانی میں رکھا ہے اس کا لفظی مطلب تو ' مِلی میٹر زیرو ' بنتا ہے لیکن کہانی کا محور شہر کا ' زیرو کِلومیٹر ' ہے ۔
اس کتاب میں کل تیرہ کہانیاں ہیں جو' یونانی بحران ' کے عرصے میں لکھی گئیں ۔ یونان کا یہ بحران 2008 تا 2009 کا وہ معاشی بحران تھا جس کی وجہ سے وہاں افلاس پھیلا ، آمدن میں انتہائی کمی پیدا ہوئی اور وہاں جائیداد کی قیمتیں زمین بوس ہو گئی تھیں ۔ اس بحران نے انسانی بنیادوں پر بھی یونانی معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اور وہاں کے لوگ ایک ایسی نفسیاتی کیفیت کا شکار ہو گئے جس کے اظہار مختلف شکلوں میں ہوئے اور ان کی زندگی ڈیڑھ مربع میٹر کے رقبے میں سمٹ کر رہ گئی ۔ یونانی معاشرے پر اس معاشی بحران کے اثرات ابھی بھی موجود ہیں ۔ مصنف نے اپنی ان تیرہ کہانیوں میں اسی بحران کو پس منظر میں رکھتے ہوئے ایسی ہی انسانی کیفیات کو ان کہانیوں کا موضوع بنایا ہے ۔ مندرجہ بالا کہانی بھی ڈیڑھ مربع میٹر کے رقبے میں سمٹی بلکہ ’ زیرو کلومیٹر ‘ پر کھڑی نظر آتی ہے جہاں تھناسِس ایک طرف تو جنونی ہے جبکہ دوسری طرف وہ ایک ہیرو بھی ہے ۔
کونسٹینٹینوس پولس ( Konstantinos Poulis) ، 1973 ء میں ایتھنز میں پیدا ہوا ۔ اس نے یونانی ڈرامہ میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے ۔ وہ ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ اچھا مترجم ، صحافی اور براڈ کاسٹر بھی ہے ۔ اس کی شائع شدہ کتابوں میں آسکر وائلڈ کی ’ ویرا ‘ کا یونانی ترجمہ ، سیاسی مضامین کا مجموعہ ’ Tax the Ragpickers ‘ اور کہانیوں کا مجموعہ ’ Thermostat ‘ شائع شدہ 2014 ء شامل ہیں ۔ اس کی تازہ کتاب 2018 ء میں سامنے آئی ہے ؛ Τὸ ἀλέτρι καὶ τὸ smart-phone: συζητήσεις μὲ τὸν πατέρα μου ( The Plough and the Smartphone: Conversations with My Father ) ۔ ’ ہل اور سمارٹ فون ؛ اپنے والد سے گفتگو ‘ میں کیا ہے ، مجھ تک پہنچی تو دیکھوں گا ۔