"اس نے مجھے ہمیشہ کے لئے ختم کر دینے کے لئے زمین میں گاڑ دیا تھا مگر میں تو بیج تھا، اس تاریک زمین سے ایک تناور درخت کی شکل میں ابھرا"
پہلی کہانی
انگریز کا دورِ حکومت تھا۔ دلی میں کوبرا سانپ زیادہ تھے۔ یہ زہریلا سانپ جس کو کاٹ جائے، وہ زندہ نہیں بچتا تھا۔ اس مسئلے کے حل کے لئے حکومت نے کوبرا سانپ مارنے پر انعام رکھا۔ جو بھی مردہ سانپ لے کر آتا، اس کو یہ انعام دیا جاتا۔ ابتدا میں سکیم کامیاب رہی۔ پھر کچھ لوگوں کو اس میں موقع نظر آیا۔ کوبرا پالنے کا بزنس شروع ہو گیا۔ انڈوں کی حفاظت کی جاتی، بڑھنے تک ان کا خیال رکھا جاتا تا کہ مار کر انعام حاصل کیا جائے۔ جب حکومت کو اس کا علم ہوا تو انعامی سکیم ختم ہو گئی۔ کوبرا بے کار ہو گئے۔ ان کو پالنے والوں نے ان کو آزاد چھوڑ دیا، بڑا عرصہ چلنے والی سکیم کا بالآخر نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سی انعامی رقم تقسیم کرنے کے بعد پروگرام کے آخر تک سانپوں کی تعداد پہلے سے بھی زیادہ ہو گئی تھی۔
دوسری کہانی
نومبر 1918 میں پہلی جنگِ عظیم ختم ہوئی۔ ورسائی میں جنگ بندی کا معادہدہ ہوا۔ شکست خوردہ جرمنی کے پاس شرائط ماننے کے سوا چارہ نہ تھا۔ جیتنے والی قوتوں نے موقع غنیمت جانا۔ شرائط ایسی رکھیں کہ جرمنی پھر نہ ابھر سکے۔ جرمنی جہاز نہیں بنا سکتا تھا۔ اس کی فوج کا بڑا حصہ ختم کر دیا گیا۔ جنگ کی ذمہ داری قبول کر کے اس کو ہرجانے کے لئے ہر سال جیتنے والوں کو بڑی رقم ادا کرنی تھی۔ لیکن اس نے جرمنی کو پنجرے میں بند کرنے کے بجائے غصیلا شیر بنا دیا۔ ورسائی کا معاہدہ ہر جرمن کو ناپسند تھا۔ ان جذبات نے ایک نئے سیاستدان کو ابھرنے کا موقع دیا۔ عوامی جذبات سے بننے والی مقبولیت کے لہر سے اقتدار میں پہنچنے والا سیاستدان ہٹلر تھا۔ اس معاہدے کے ردِ عمل نے قوم کو ایک نسل پرست اور جنگی جنون رکھنے والے لیڈر کے پیچھے یکجا کر دیا۔ ہٹلر نے ایک ایک کر کے ساری پابندیوں کو توڑا۔ پہلی جنگِ عظیم کے امن معاہدے نے دوسری جنگِ عظیم کا بیج بویا۔ جرمنی کو بے اثر کرنی کی کوشش الٹی پڑ گئی۔ خوش قسمتی سے اس سے سبق سیکھ لیا گیا اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔ (کامیاب گروہی لیڈر اپنے گروہ کو اکٹھا کرنے کی تکنیک فرضی دشمن بنا کر کیسے استعمال کرتے ہیں، اس کے لئے نیچے دیا گیا لنک)۔
تیسری کہانی
ٹائی ٹینک 15 اپریل 1912 کی صبح ایک آیس برگ سے ٹکرا گیا۔ 1500 لوگ موت کا شکار ہوئے۔ اس اہم واقعے کی انکوائری ہوئی۔ اس سے ایک نتیجہ یہ نکالا گیا (جو کہ بالکل ٹھیک تھا) کہ جہاز میں لائف بوٹس کی کمی تھی۔ اس سے امریکہ میں 1915 میں قانون منظور ہوا کہ سو ٹن سے بھاری ہر بحری جہاز اتنی تعداد میں لائف بوٹس رکھے گا کہ ڈوبنے کی صورت میں تمام مسافر بچائے جا سکیں۔ ایسٹ لینڈ ایک اس طرح کا بحری جہاز تھا۔ یہ اتنی لائف بوٹس بنانے کے لئے ڈیزائن ہی نہیں ہوا تھا۔ اضافی کشتیاں اس کے اوپر لادنے سے یہ غیرمستحکم موت کا پھندا بن گیا۔ 24 جولائی 1915 کو یہ شکاگو میں نکلا ہی تھا کہ الٹ گیا۔ 850 لوگ اس حادثے میں موت کا شکار ہوئے۔
تجزیہ
یہ تین مشہور واقعات غیرارادی نتائج کے ہیں۔ یہ صرف تین کہانیاں ہیں لیکن صرف تین نہیں۔ یہ ہر کسی کی اور ہر روز کی کہانی ہے۔ اس کا ایک اور روپ مورل فلاسفی میں ملتا ہے جو اس کا سب سے مشکل مسئلہ ہے جسے 'معصوم برائی' کہا جاتا ہے۔ یہ نیت اور نتیجے کی جنگ ہے۔ اچھائی کی نیت سے کی جانی والی برائی کو کس طریقے سے جج کیا جائے؟ لیکن فلسفلے کا مسئلہ فلسلفے تک۔ ایسا ہے کیوں؟
نیچرل سائنس کے مقابلے میں سوشل سائنس، پالیسی، اکنامکس بہت مختلف بھی ہے اور بہت مشکل بھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی چیز کی صرف ایک وجہ نہیں۔ جب ہم وقت کو پیچھے کی طرف جاتے ہیں تو وجوہات کا سپیکٹرم پھیلتا جاتا ہے۔ (اسی وجہ سے ہر کام کو اور ہر چیز کو جسٹیفائی کیا جا سکتا ہے)۔ جب اسی کا معکوس کیا جائے اور وقت کو آگے کی طرف لے جائیں تو کسی بھی عمل اور فیصلے سے ہونے والے اثرات کا سپیکٹرم بھی پھیلتا جاتا ہیں۔ مطلوبہ بھی اور غیرمطلوبہ بھی۔ اس صورتحال میں مستقبل کے لئے فیصلے کیسے کئے جائیں؟ ایجوکیٹڈ گیس ورک کے ذریعے۔ ہر انتخاب ٹھیک طرف بھی جا سکتا ہے اور غلط طرف بھی۔ لیکن اگر اس کی غلط سائیڈ کو مکمل نظر انداز کر دیا جائے تو غلط طرف جانے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے اپنے خیالات پر مکمل اعتماد، سطحی تجزیہ، حتمیت اور نظرثانی نہ کر سکنے کی ہمت اس غیریقینی دنیا میں مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ اس پر تفصیلی آرٹیکل نیچے دئے گئے لنک میں
معروف سائنس کمیونیکیٹر این ڈرویان کے الفاظ میں
The greatest thing that science teaches you is the law of unintended consequences
فیصلے کیسے کئے جائیں اور ان کا سامنا کیسے کیا جائے
ایسٹ لینڈ کے ڈوبنے پر