"جس کی آنکھ دیکھ سکتی ہے اور جس کے کان سن سکتے ہیں، وہ جانتا ہے کہ کوئی انسان راز نہیں رکھ سکتا۔ اگر منہ بند رہے گا تو انگلیوں کے پور بتا دیں گے۔ اس لئے کہ رگ رگ اندر کی دنیا کی چغلی کھاتی ہے۔"
فرائیڈ
اپنے دفتر میں ہونے والی دعوت میں اپنے ایک ساتھی سے ملاقات ہوئی۔ اس کے ساتھ ان کہی رقابت کا رشتہ ہے۔ اوپر اوپر سے دوستی، گہرائی میں دوسرے سے سبقت لے جانے کی خواہش۔ شروع کی خوش گپیوں کے تبادلے کے بعد اس نے بتایا کہ اس کے حالات آجکل اچھے نہیں چل رہے۔ ایک بڑا اکاوٗنٹ ہاتھ سے چلا گیا ہے یا کچھ اور۔ جو بھی ہے، اچھی خبر نہیں۔ اس قسم کی خبر جسے سن کر اگر کوئی اچھا دوست ہو تو تسلی دے گا اور چہرے میں متفکرانہ آثار ہوں گے۔ ویسے ہی، جیسے آپ نے اپنے چہرے پر لانے کی کوشش کی ہے۔
لیکن آپ اس کے صرف سطح پر دوست تھے۔ اس سطح کے نیچے حریف اور اس حریف کے لئے یہ اچھی خبر تھی۔ یہ حریف اس خبر پر مسکرانا چاہتا تھا اور اس کا اظہارِ مایوسی والا جملہ ختم ہونے سے پہلے ایک سیکنڈ کے چھوٹے سے حصے میں ایک مسکراہٹ چہرے پر نمودار ہونا چاہتی تھی۔ اب ایک الجھا ہوا رقص شروع ہو گیا ہے۔
مسکراہٹ کو روک کر چہرہ افسردہ بنا لیا تھا لیکن اس دوران اُس کے چہرے پر کسی چیز کی جھلک محسوس ہوئی تھی، جیسے وہ چونک گیا ہو اور بات ختم کرنے سے پہلے رک گیا تھا۔ “کہیں دیر تو نہیں ہو گئی؟”۔ یا پھر کمرے میں کسی اور چیز نے اس کی توجہ حاصل کی تھی؟ آپ نے اظہارِ افسوس شروع کیا۔ “کہیں یہ الفاظ اس کو تکلیف تو نہیں پہنچائیں گے؟ کہیں زخم پر نمک چھڑک دینے والے الفاظ تو نہیں؟ الفاظ کا انتخاب ٹھیک ہے؟”
اپنے الفاظ کے ساتھ خاموش مکالمہ ساتھ چل رہا ہے۔ آپ ایسے بالکل بھی نہیں جو کسی کے دکھ پر خوش ہوں۔ لیکن بِن کہے کی گئی باتیں۔۔۔ اکثر الفاظ سے زیادہ اونچی ہوتی ہیں۔ ہر کوئی دوسرے کی سوچ کا اندازہ اس کے الفاظ کے ساتھ باڈی لینگویج سے لگانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔
خاموش مکالمہ، معنی خیز مسکراہٹ، آنکھ میں شناسائی کی چمک، اترا چہرہ، بد اعتمادی، اظہارِ دلچسپی۔ یہ ہم قدرتی اور غیرشعوری طور پر پہچاننے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ دماغ کے حصے ان پیچیدہ سوشل انٹرایکشنز میں مہارت رکھتے ہیں۔ نیوروسائنٹس اس کو “ذہن پڑھنا” کہتے ہیں۔ نہیں، یہ اس قسم کا ذہن پڑھنا نہیں جو قصے کہانیوں میں ہوتا ہے۔ حقیقی والا، لیکن اس سے کم متاثر کن نہیں۔ کسی کے بارے میں اندازہ لگا لینا کہ وہ کیا سوچ رہا ہے، ہماری فطرت کا حصہ ہے۔ ہم یہ سب اس قدر آسانی سے اور باریکی سے کر لیتے ہیں جتنا کوئی بھی اور نوع نہیں کر سکتی۔ جس قدر آسانی سے ہم آکسیجن کو کاربن ڈائی آکسائیڈ میں بدلتے ہیں، اس قدر آسانی سے دوسروں کے دماغ میں چلنے والے خیالات کے بارے میں مفروضے قائم کرتے ہیں۔
چونکہ ذہن پڑھنا ہماری فطرت کا حصہ ہے، اس لئے یہ مہارت سکولوں میں نہیں پڑھائی جاتی یا اس کو امتحان میں ٹیسٹ نہیں کیا جاتا۔ لیکن یہ بھی باقی مہارتوں کی طرح ہی ہے۔ کسی میں کم اور کسی میں زیادہ۔ کچھ لوگ بڑی معمولی سی چیزوں سے ذہن کو پڑھ لیتے ہیں اور اپنا ردِ عمل اس حساب سے بڑی آسانی سے بدل لیتے ہیں۔ کچھ لوگ بالکل ہی نہیں پڑھ پاتے۔ جبکہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو کہ “مائینڈ بلائنڈ” ہوتے ہیں۔ دوسرے کے اندرونی مکالموں سے مکمل طور پر بے خبر۔
اگرچہ اس صلاحیت کو پڑھایا نہیں جاتا اور اس کو بیان کرنے کا ہمارے پاس ذخیرہ الفاظ تک نہیں لیکن یہ صلاحیت ہمارے پیشے اور سماجی تعلقات کی کامیابی کے لئے بہت اہم ہے۔ اس کو ٹھیک طور پر سراہنے کیلئے اس کو سلوموشن میں دیکھ کر اس کے پیچھے چلنے والا پراسس سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ کس قدر حیرت انگیز اور شاندار صلاحیت ہے۔
اس کو سمجھنے کے عمل میں سب سے اہم کردار 1990 کی دہائی کے آخر میں بندروں میں مرر نیورونز کی دریافت نے ادا کیا۔ جب ایک بندر کوئی کام کرتا ہے، جیسا کہ کوئی شاخ پکڑتا ہے یا کسی اور بندر کو یہ کرتے دیکھتا ہے تو دونوں صورتوں میں یہی نیورون فائر ہوتے ہیں۔ دماغ کا یہ ڈیزائن اپنی اور دوسرے افراد کی دماغی اور فزیکل حالت کے درمیان انالوجی ڈھونڈتا ہے۔ دوسروں کے کئے گئے فعل کو اپنی نظر سے دیکھنے میں مدد کرتا ہے۔
کچھ سائنسدانوں کا یہ خیال ہے کہ زبان کے شروع ہونے کے پیچھے بھی انہی نیورونز کا کنکشن ہے۔ کیونکہ ہر قسم کی کمیونیکیشن کے لئے لازم ہے کہ دوسرے کے ذہن تک پہنچا جائے ورنہ پھر آپ صرف اپنے سے بات کر رہے ہوں گے۔ الفاظ گفتگو کا حصہ ہیں لیکن باتیں صرف الفاظ کے ساتھ نہیں کی جاتیں۔