ان سوالوں کے جواب فورا اور بلند آواز سے دیں۔
انڈے کے چھلکے کا رنگ کیا ہے؟
پہاڑوں پر پڑی برف کا رنگ کیا ہے؟
خالی صفحے کا رنگ کیا ہے؟
گائے ناشتے میں کیا پیتی ہے؟
اگر آپ عام لوگوں کی طرح ہیں تو چوتھے سوال کا جواب شاید درست نہیں دیا ہو گا۔ گائے ناشتے میں دودھ نہیں پیتی۔ سفید رنگ ذہن میں بار بار آنے سے ایسا ہوا۔
اشتہاری صنعت اتنی بڑی کیوں ہے؟ ٹی وی پر سیاستدان مسلسل ایک ہی بات کیوں دہراتے رہتے ہیں؟ اشتہار اور سیاستدانوں کی باتیں جتنی بھی سطحی ہوں، ہمیں چاہے پسند نہ آئیں، یہ حربہ کام کرتا ہے۔ پیغام بار بار دہرانے سے ہم اس کو نوٹ کرنا بھی چھوڑ دیتے ہیں اور ان کی پراڈکٹ اور پیغام ہماری عادت بن جاتا ہے۔ اس پر جان بارگ نے کئی دلچسپ تجربے کئے۔
کالج کے طلباء کے ایک گروپ سے الفاظ کے معنی پوچھے۔ ایک گروپ سے bold, rude, disturb, intrude, brazen, impolitely جیسے الفاظ کے۔ دوسرے گروپ سے respect, patiently, yield, courteous جیسے الفاظ کے۔ جب یہ ٹیسٹ مکمل ہو گیا تو طلباء کو کہا گیا کہ دوسرے ٹیسٹ کے لئے دوسرے کمرے میں چلے جائیں۔ دوسرے کمرے میں تجربہ کرنے والے نے آنے والے سٹوڈنٹ پر کوئی توجہ نہیں دی۔ کسی اور سے باتوں میں مصروف رہا اور سٹوڈنٹ کو انتظار کرواتا رہا۔
بارگ اور ان کے ساتھیوں نے وقت نوٹ کیا کہ کتنی دیر سٹوڈنٹ انتظار کرتا ہے۔ جن طلباء کو شائستگی والے الفاظ کے معنی پوچھے گئے تھے، ان کی اوسط نو منٹ تھی۔ جن سے بے صبری والے الفاظ کے، ان کی اوسط پانچ منٹ سے بھی کم تھی۔
ایک اور تجربے میں سٹوڈنٹس کے ایک گروپ کو بوڑھے لوگوں سے منسلک الفاظ سے پرائم کیا گیا۔ Old, forgetful, retired, wrinkled, ancient, helpless جیسے الفاظ کے بعد اس گروپ نے دوسرے گروپ کے مقابلے میں دروازے تک جانے میں زیادہ وقت لگایا۔
الفاظ اثر رکھتے ہیں کیونکہ یہ ان الفاظ سے منسلک دماغی سرکٹس کو متحرک کرتے ہیں۔
دادا کی نصیحت ہو کہ اچھے اور شائستہ الفاظ استعمال کریں یا سیلف ہیلپ کی کتاب اور سیمینار جس میں مثبت اور optimistic رویے کو اپنانے پر زور دیا جاتا ہے۔ اس سے فرق پڑتا ہے۔ اچھی سوچ سے آپ کے کینسر کا علاج تو نہیں ہو گا لیکن اس سے زندگی کے بارے میں رویے کو شکل ملے گی۔
آپ متعصب ہیں۔ اکثر لوگ اس سے انکار کریں گے۔ لیکن ہمارے چھپے تعصب ہمارے زندگی کے فیصلوں کا تعین کرتے ہیں۔ ہم عام طور پر فیصلے پہلے کر لیتے ہیں، وجہ بعد میں تلاش کرتے ہیں۔ سویڈن میں یونیورسٹی آف لنڈ میں اس سلسلے میں سو سے زیادہ طلباء پر ایک تجربہ کیا۔ دو خواتین کے چہروں کی تصاویر دکھا کر پوچھا گیا کہ کون زیادہ خوبصورت ہے؟ انتخاب کر لینے کے کچھ دیر بعد منتخب تصویر دکھائی گئی اور پوچھا گیا کہ انہوں نے یہ انتخاب کیوں کیا۔ کچھ سٹوڈنٹس کو غلط تصویر دکھائی گئی (جس کا انتخاب انہوں نے نہیں کیا تھا)۔ اگرچہ دونوں میں کافی فرق تھا لیکن جنہوں غلط تصویر دکھائی گئی، ان میں سے صرف ایک چوتھائی یہ غلطی پکڑ سکے۔ باقی طلباء نے اپنے اس انتخاب کا جواز پیش کرنا شروع کیا جو انہوں نے کیا ہی نہ تھا۔ “مجھے اس کی مسکراہٹ پسند آئی اور بالیاں بھی”۔ جبکہ جس کا انتخاب انہوں نے کیا تھا، وہ سنجیدہ تھی اور بالیاں نہیں پہنی تھیں۔
اپنے انتخاب سے یہ اندھاپن ہماری زندگی کے ہر فیصلے میں ہے۔ ہمارا ذہن انتخاب کا جواز ڈھونڈنے میں ماہر ہے۔ یہ اس کیلئے کوئی بھی کہانی بنا سکتا ہے اور ہم خود نہیں جانتے کہ یہ کہانی اس نے کیسے گھڑ لی۔
جب آپ نوٹ کرتے ہیں کہ آپ کی ناپسندندہ شخصیت ہمیشہ غلط بات ہی کرتی ہے اور آپ کی پسندیدہ شخصیت کی کی گئی بات اچھی ہوتی ہے تو یہ ججمنٹ بات کا نہیں، شخصیت کا ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ آپ خود پہلے سے طے کر چکے ہیں کہ اس شخص کی کہی بات کیسی ہو گی۔ یہ فیصلہ ہمارا متعصب ذہن لے چکا ہوتا ہے۔ اپنے انتخاب کو جواز دینے کے لئے ہم بالیاں اور مسکراہٹ نہ صرف گھڑ سکتے ہیں بلکہ مکمل یقین اور اعتماد کیساتھ گھڑ لیتے ہیں۔
اس پر کیا جانے والا ایک تجربہ یونیورسٹی پروفیسرز پر کیا گیا جن کا خیال تھا کہ وہ متوازن، آبجیکٹو اور غیرمتعصب رہتے ہیں۔ یہ شعوری طور پر کوشش کرتے تھے کہ جنسی اور نسلی تعصب کا شکار نہ ہوں۔ لیکن جب سیاسی اور مذہبی تعصب کی باری آئی تو یہ خاصے متعصب تھے۔ (ہمارے سب سے مضبوط تعصب وہاں پر ہوتے ہیں جہاں پر ہم تعصب کی موجودگی کا انکار کرتے ہیں۔) کوئی بھی یہ ماننے کو تیار نہیں ہوتا کہ اس نے کسی چیز کا فیصلہ دوسرے کا رنگ، جنس، عمر وغیرہ کو دیکھ کر کیا ہے۔ جب نشاندہی بھی کی جائے تو بھی اپنے فیصلے کی وجوہات بنانا ہمارے لئے مشکل نہیں ہوتا۔ یہ دماغ کے کام کرنے کا ڈیفالٹ طریقہ ہے۔
ہمارے زندگی کے بڑے فیصلے دماغ کے اس حصے کے پاس ہیں جس سے ہم آگاہ نہیں۔ کئی سیلف ہیلپ کے ماہرین تو اس حد تک بھی چلے جاتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ غیرشعوری فیصلے ہمارے شعوری فیصلے سے زیادہ بہتر ہوتے ہیں اور gut instinct پر فیصلے لینے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں لیکن ڈیٹا اس کو سپورٹ نہیں کرتا۔ تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے جس میں مقبول تعصبات کی بنیاد پر لئے گئے فیصلے تباہ کن رہے۔
زندگی کے فیصلے شعوری اور غیرشعوری پراسسز سے مل کر ہوتے ہیں۔ ہم میں سے ہر کوئی آئن سٹائن نہیں لیکن شعوری، جان بوجھ کر، وقت لگا کر اور بھویں سکیڑ کر گہری سوچ لے کر کئے گئے فیصلے زیادہ مناسب ہوتے ہیں۔
ہزاروں سال کے روایتی دانائی جو ہمیں منطقی، تنقیدی اور ٹھنڈے مزاج سے سوچ کر اہم فیصلے کرنے کا کہتی ہے، اس بارے میں درست ہے۔ ایسا نہ کرنے کا مطلب یہ کہ ہم نہ صرف مکمل طور پر اپنے تعصبات کے رحم و کرم پر ہوں گے بلکہ ان کے جواز کیلئے کہانیاں بناتے رہیں گے۔ اپنے تعصب سے بالاتر ہو کر فیصلے لینے کیلئے سب سے اہم قدم اپنے تعصب کو تسلیم کرنا ہے۔ یہ انتہائی مشکل اس لئے ہے کہ کم ہی لوگ یہ ماننے کو تیار ہوتے ہیں کہ کوکا کولا کا انتخاب کرنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ میچ کے دوران اس کا سائن بورڈ نظر آیا تھا۔ کسی خیال کو رد کرنے کی واحد وجہ یہ تھی کہ جس نے بات کہی تھی، وہ ہمیں پسند نہیں تھا یا پھر انتخاب میں ووٹ دینے کی وجہ یہ ہے کہ پسندیدہ سیاسی پارٹی کا سلوگن گانے والے کی آواز سریلی تھی۔ ہم خود اپنے سے یہ توقع نہیں رکھتے۔ ہماری یہ توقع درست نہیں۔